پریس پر دباؤ سے حقیقتیں نہیں بدلتیں


انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں واقع پریس کلب میں جمعے کو بڑی تعداد میں صحافی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ ملک کے بڑے بڑے سرکردہ صحافی اس احتجاج میں شریک تھے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت پریس کی آزادی ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ احتجاج ایک ایسے وقت ہوا ہے حب ملک کے تقریباً سبھی چینلز حکومت نواز بن چکے ہیں یا ان کے راگ الاپ رہے ہیں۔ جو چینلز اور اخبار ابھی تک حکومت کی تابعداری نہیں کر رہے وہ مختلف شکلوں میں دباؤ محسوس کرنے لگے ہیں۔

اس طرح کی صورتحال ماضی میں کئی عشرے پہلے ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کے دور میں ہوئی تھی اور اس کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے تقریـباً 30 برس قبل پریس پر قدغن لگانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن صحافیوں کے زبردست احتجاج کے بعد انہیں اپنا قدم پیچھے کھینچنا پڑا تھا۔جمعے کے احتجاج میں کئی سرکردہ صحافیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹی وی چینلوں اور اخباروں کے پروموٹرز اور مالکان کے دفاتر پر چھاپے مارے جا سکتے ہیں۔

بھارت کی فضا پر اس وقت مذہبی قوم پرستی کا سایہ ہے۔ مشاہدین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہندوستان کے ہر پہلو پر مکمل غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز کم و بیش حکومت کے دباؤ میں آ چکے ہیں۔ اخبارت میں اب بھی حکومت سے سوال کرنے والے مضامین اور اداریے مل جاتے ہیں۔ لیکن بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جب میڈیا اپوزیشن کو ختم کرنے پر لگا ہوا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت سے سوال کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔

لیکن ٹی وی چینلوں پر جو تصویریں پیش کی جا رہی ہیں، زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ شمالی ہندوستان میں ہجومی تشدد کی دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی روز گزرتا ہو جب ہجومی تشدد اور حملے کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ مویشیوں اور گوشت کے کاروبار پر رکاوٹ سے لاکھوں لوگ روزی روٹی سے محروم ہو چکے ہیں۔ حکومتی یونیورسٹیز میں سیٹیں کم کی جا رہی ہیں۔ مدیہ پردیش سے لے کر راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور تمل ناڈو تک کسانوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے بھارت میں زرعی نظام ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔ ہر برس بارہ ہزار سے زیادہ کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت بڑے بڑے اشتہاروں میں یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس حکومت میں کسانوں کی زندگی بلکل بدل گئی ہے۔ معیشت سست پڑ چکی ہے۔ ملک کے سب سے کامیاب شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی مشکلوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہزاروں ملازمتیں وہاں ختم ہو رہی ہیں۔ ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع بہت کم بن پا رہے ہیں ۔

مودی حکومت سوال کیا جانا پسند نہیں کرتی۔ یونیورسٹیز، سول سوسائٹی اور این جی اوز، وہ سارے ادارے جہاں بحث ومباحثے ہوتے ہیں جو رائے عامہ ہموار کرتے اور جو سوالات کرتے ہیں ان کے راستے بند کیے جا چکے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے حکومت پریس کو تابع بنانے کی کوشش صرف اس لیے نہیں کر رہی ہے وہ اس سے سوال نہ کرے بلکہ اس لیے بھی کہ وزیر اعظم مودی ملک پر مکمل غلبہ چاہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت کچھ عرصے کے لیے پورے میڈیا پر غلبہ حاصل کر لے۔ لیکن جمہوریت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی اظہار کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی ہے اس نے صرف اپنی انگلیاں جلائی ہیں۔

)شکیل اختر(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp