قصہ پاﺅں کے تل کا


 یہ اس دور کی بات ہے جب میں اپنی والدہ کے ساتھ خواتین کی مجالس میں جا سکتا تھا۔ ایک مجلس میں ہم وقت سے ذرا پہلے پہنچ گئے۔ ایک خاتون قسمت کا حال بتا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے میرے ماتھے کی جلد کو سکیڑ کر نمایاں ہونے والے بل بغور دیکھے اور کچھ دیر سوچ کے، گویا فیصلہ سنانے والے انداز میں کہا: ”یہ جج بنے گا!“ باجی (ہم اپنی والدہ کو باجی کہتے تھے) خوش ہو گئیں۔

”اوہ، شفیقہ! تمہارے بیٹے کے پاﺅں پہ اتنا بڑا تل؟“ خاتون نے اچانک،تقریباً چیخے ہوئے ،کہا۔

باجی پریشان ہو گئیں، جیسے خاتون نے کسی ابنارمل افزائش کا سراغ لگا لیا ہو۔

”گھبراﺅ نہیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ یہ بہت سفر کرے گا، سمندروں کا، سمندر پار کا، بہت زیادہ۔“

اب میں خوش ہو گیا۔ باجی نے قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے صرف اتنا کہا:

”اللہ اسے زندگی دے، صحت دے۔“

اب سوچتا ہوں کہ شاید اس پیش گوئی میں انہیں بیٹے کے لئے وسیلہ ظفر کے ساتھ ساتھ اس سے جدائی کے طویل وقفے بھی نظر آرہے ہوں گے۔

پاپا چاہتے تھے کہ میں سائنس پڑھوں جبکہ میں مقابلے کا امتحان دے کے سول یا فارن سروس میں جانے کا خواہشمند تھا۔ مجھے پاپا کے افسر دوستوں کی زندگی بہت اچھی لگتی تھی۔ جینے کے لئے درکار سہولتوں کے ساتھ ساتھ انہیں شعروادب کے لئے بھی وقت میسر تھا۔ پھر بیرون ملک سرکاری دورے اور تعیناتی الگ۔ لیکن جیسے جیسے شعروادب کے ساتھ میرا لگاﺅ بڑھتا گیا مجھ پر انکشاف ہونے لگا کہ یہ کام میرے اندازے سے زیادہ وقت طلب تھا۔ سرکاری ملازمتیں لکھنے پڑھنے کے لئے مطلوبہ فرصت فراہم نہیں کرتیں۔ اب صرف کالج میں پڑھانا ہی ایسا کام نظر آیا جس میں نہ صرف بقدر ضرورت فرصت ملنے کا امکان تھا بلکہ مطالعہ اس پیشہ میں ایک بنیادی ذمہ داری تھی۔ سو، مذہبِ عشق اختیار کیا۔ شعبہ تدریس سے منسلک ہوتے وقت میں نے اس بات کو قبول کر لیا تھا کہ مجھے ’اعلی‘ سرکاری ملازمتوں والی سہولتیں اور ترقیاں نہیں ملیں گی، البتہ یہ خواہش ضرور تھی کہ اپنے شعبے میں کوئی منفرد کام کرنے کی کوشش کروں۔ میرے مضمون، انگریزی ادب، میں اس وقت پاکستان میں ایم فِل یا پی ایچ ڈی کرنے کی سہولت میسر نہیں تھی۔ انگریزی کے اساتذہ کو، دیگر کچھ مضامین کے اساتذہ کی طرح، مزید تعلیم کے لئے برطانیہ اور امریکہ جانے کے لئے وظائف میسر تھے۔ سو میں نے بھی اس کے لئے کوشش شروع کر دی۔ دوباربرٹش کونسل کے سکالرشپ کے لئے سول سیکرٹیریٹ میں انٹرویو دیئے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ پھر سنٹرل اوورسیز سکالرشپ کے لئے درخواست دی اور نتیجے کا انتظار کرنے لگا۔ یہی میری غلطی تھی۔ ایک روز، کلاس سے نکلتے ہوئے، میرے شعبے کے قاصد، مراد، نے بتایا کہ وائس پرنسپل پروفیسر آر اے خان صاحب مجھے تلاش کروا رہے تھے اور کچھ ناراض لگ رہے تھے۔ میں خان صاحب سے ملا تو انہوں نے کہا: ”بھائی، ڈپٹی ڈائریکٹر سندھیلہ صاحب کا فون آیا تھا کہ آپ کے لیکچرر کیسے ہیں، سکالرشپ کے لئے درخواست دیتے ہیں لیکن منتخب ہو جاتے ہیں تو رپورٹ نہیں کرتے۔“

”سر، مجھے تو کوئی اطلاع نہیں ملی۔“

”خط بھیجا گیا تھا آپ کو۔“

”نہیں ملا۔ نہ گھر کے پتے پر نہ کالج کے۔“

جلدی جاﺅ۔ پتا کرو۔“

سندھیلہ صاحب نے بتایا کہ میری نامزدگی کا خط سیکرٹیریٹ سے موصول ہوا تھا، میری طرف سے جواب نہ ملنے پر واپس بھیج دیا گیا۔ میں سیکرٹیریٹ پہنچا تو متعلقہ سیکشن افسر، اظہار الحسن، نے سرکاری خط نکال کے مجھے دکھایا جس میں پہلا نام میرا تھا ، دوسرا ، میرے سینئر، راﺅ جلیل کا۔ اتفاق سے راﺅصاحب وہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایڈنبرا یونیورسٹی جا رہے تھے۔

میں نے کچھ دوستوں کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا۔ اسد اللہ غالب مجھے ایڈشنل سیکرٹری ظہورالحق شیخ کے پاس لے گیا جو اس کے بہت اچھے دوست تھے۔ ان کے پی اے نے کہا:

ُ ”صاحب اس وقت بہت غصے میں ہیں۔ دو ایم پی اے آئے ہوئے ہیں۔ بحث ہو رہی ہے۔ آپ ان کی آوازیں سن رہے ہیں؟ آپ کسی کام کے سلسلے میں آئے ہیں تو اس کے لئے یہ بڑا ناموافق موقع ہے۔“

”بھائی، کام کے لئے تو کوئی موقع بھی موافق نہیں ہوتا۔“ اسد نے جواب دیا۔

بعد از انتطار بسیار ہماری باری آئی تو صاحب کا موڈ ہنوز خراب تھا۔ بڑے روکھے انداز میں میری بات سنی، ایک مختصر سا لیکن سخت انٹرویو لیا، اور جب مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ اب وہ سوری کہیں گے، انہوں اُسی سیکشن افسر کو بلایا اورہدایت دی کہ مجھے اگلے برس کے برٹش کونسل ٹیکنیکل ٹریننگ سکالرشپ کے لئے نامزد کر دیا جائے۔ میرا جو سکالرشپ ضائع ہوا تھا وہ تین سال کے لئے تھا ااور جو ملنے کا دلاسا دیا جا رہا تھا وہ ایک سال کا تھا۔ خیر، میں نے سوچا، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے، اگر ہو جائے۔ میں نے بعد میں اظہار سے پوچھا کہ اب آگے کیا کارrوائی ہو گی تو اس نے کہا، ”پتا کرتے رہیں۔“ سو میں پتا کرتا رہا، اور اسد اللہ غالب بھی۔

حاضری کے واسطے سرکار کا دفتر کھلا

اتنے چکر کاٹنے کے بعد یہ چکر کھلا

آخر ایک دن اس نے نوید سنائی کہ میں سامان باندھ لوں۔ میں نے کہا کہ باندھنے کے لئے تھا کیا، البتہ وہ جو ہم رکھتے تھے اک حسرت تعلیم سو تھی۔

حتمی کاغذات میں اپنا نام دیکھ کے مجھے کامیابی کا یقین سا ہو چلا تھا کہ جاوید اقبال اعوان نے، جو منصوبہ بندی کا ڈپٹی سیکرٹری تھا، تقریباً پرسا دینے والے انداز میں اطلاع دی کہ اس کے کولیگ جاوید اسلم نے اسے بتایا ہے کہ باصر سے کہو زیادہ امید نہ رکھے، اُسے پرنسپل امیدوار کی جگہ متبادل امیدوار بنا دیا گیا ہے۔ اب جو پرنسپل امیدوار ہے، وہ نہ گئی تو باصر جائے گا۔ بھلا پرنسپل امیدوار کیوں نہ جاتی۔ اور میں؟

پھر اس کے در پہ نظر آرہے ہو باصر آج

تمہارا کام ابھی تک ہوا نہیں؟ افسوس

جس عرصے میں میرا لپٹا ہوا بستر کھل رہا تھا جاوید اعوان مجھے اپنے ایڈیشنل سیکرٹری ، عبد الرؤف چوہدری، کے پاس لے گیا اور سکالرشپ کے لئے میری بارہ سالہ جدوجہد کا احوال سنایا۔ اس ہمدرد انسان نے جاوید سے کہا کہ اگلے سال اگر ایک بھی لیکچرر بیرون ملک بھیجا گیا تو وہ آپ کا دوست ہو گا۔ انہوں نے یہ جملہ کچھ ایسے کہا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ کام ہو گیا تھا۔ وہ ایک خاص لمحہ تھا۔

اب ہمارا کام صرف ان راستوں پر پہرے بٹھانا تھا جہاں سے کوئی سفارش میری سفارش کو تہ وبالا (یعنی اوپر سے نیچے) کرنے کے لئے آسکتی تھی۔ ڈپٹی سکریٹری سکالرشپ رضوان (غالباً یہی نام تھا اس مہربان کا) جاوید فیض کے ساتھ زیر تربیت اسسٹنٹ کمشنر رہ چکا تھا، جب جاوید فیض اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ سو اسے بھی خاص خیال رکھنے کو کہہ دیا گیا۔ اور اس نے واقعی خیال رکھا۔

 مزید تعلیم کی غرض سے بیرون ملک جانے کی تگ ودوو میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد میں تقریباً مایوس ہو چکا تھا۔ ایک دن اپنی ایڑی پہ نگاہ پڑتے ہی مجھے خیال آیا کہ اقبال کو” فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں“ نظر آیا شاید اسی طرح قسمت کا حال بتانے والی خاتون کو پاﺅں کے تل میں سمندر دکھائی دیا ہو گا۔ میں نے ہنستے ہوئے باجی سے کہا کہ جی چاہتا ہے اس تل کو کھرچ دوں۔ باجی قطعی محظوظ نہیں ہوئیں۔ کچھ دیر بعد ہمارے دور کے ایک عزیز تشریف لائے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے دعوی کیا کہ وہ دست شناسی میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ میں نے کہا کہ نجومی ہاتھ دیکھتے نہیں، ہاتھ دکھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا : ”جملہ مزے کا ہے۔ اسی بات پہ ہاتھ لاﺅ۔“ باجی نے پوچھا، ”یہ بتاﺅ، یہ باہر کب جائے گا؟“ وہ میرا ہاتھ دیکھتے ہوئے کچھ دیر بعد مجھ سے مخاطب ہوئے:

”جس دن آپ کی امی آپ کو دل سے اجازت دیں گی، تب۔“

”میں تو ہر روز اس لئے دعا کرتی ہوں۔“ باجی نے کہا۔

جس دن پورے دل سے کریں گی، قبول ہو جائے گی۔“ انہوں نے جواب دیا۔

شاید یہ بات باجی کے دل میں اتر گئی اور اسی لمحے انہوں نے قبول کر لیا کہ انہیں کچھ عرصہ بیٹے سے دوری برداشت کرنی پڑے گی۔

(زیر طبع کتاب، ’ایک شاعر کی سیاسی یادیں‘ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).