آسکر اٹھائیں گے، بندوق نہیں


\"ramish\"آج کی تاریخ میں صبح سے اب تک تین فون ملے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چپ رہیں ورنہ کوئی اپنے جنون کا نشانہ بنا ڈالے گا۔ ذرا باہر جانثاروں کا طوفانِ بدتمیزی دیکھیں اور عقل سے کام لیں۔

وہ کیا ہے کہ آج تک چپ رہ کے حیاتِ خضر نصیب ہوتی نہیں دیکھی کسی کو۔

جو چپ رہے وہ بھی مر گئے، تو جو بولیں گے وہ بھی مر گئے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہو گی تاریخ میں۔

مثال دیتے ہیں کہ ایک راشد رحمان کے بعد کوئی نہیں جو یہاں بے کسوں کی سنے۔ یونہی خیال آیا اگر راشد رحمان بھی نہ ہوتے؟ اگر وہ بھی چپ رہتے؟ اگر وہ بھی بے کسوں کی سننے سے انکاری ہوتے تو ہم اہل ملتان کے پاس کیا سرمایہ تھا؟ کون تھا جو ہم سب کی بزدلی پہ مہر لگنے سے روکتا؟ کون تھا جو جنید حفیظ کی بات سنے جانے پہ زور دیتا؟ کیا کہتا زمانہ کہ کوئی در ایسا نہیں اتنے بڑے شہر میں کہ جو ان کی سنے جن کی کہیں بھی نہیں سنی جاتی؟

اگر آسیہ بی بی کے پاس سلمان تاثیر نہ جاتے تو ہم کہاں کہاں شرمندہ ہوئے پھرتے کہ عورت تو چلو کم عقل ہے لیکن مرد بزدل ہیں کہ موت کے خوف سے کسی لاچار کے حق میں آواز بھی نہیں اٹھا سکتے۔

اگر سبین محمود نہ ہوتی تو کیا مثال لاتے آپ بہادری کی؟ اگر پروین رحمان کا نام نکال دیں تو اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کس دماغ نے سوچنا تھا؟اگر بے نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہ ہوتی تو آپ ہم ایک بے نظیر انسان سے محروم ہی رہ جاتے۔

جہاں سب چپ رہیں کیا وہ بستی سلامت رہتی ہے؟ کیا وہاں سب کی عمریں ہزاروں سال کی ہیں؟ ارے میرا قریبی دوست پچیس سال کی عمر تک پہنچنے سے ایک ماہ پہلے وہاں گیا جہاں سے بس ایک ہی خبر آتی ہے کہ کینسر جیتا اور زندگی ہار گئی۔ میری ایک سہیلی ڈاکٹر بننے سے دو ماہ پہلے اس دنیا سے چلی گئی۔موت تو آنی ہی تھی اور آ گئی۔ موت نے نہیں دیکھا کہ ان دو لوگوں کی شرافت اور زندہ دلی کی مثال دی جا سکتی تھی لیکن پھر بھی موت کو رحم نہیں آیا۔ ہاں گولی مقدر نہیں تھی لیکن موت سے فرار بھی ممکن نہیں، چاہے چپ رہیں چاہے بول لیں۔

نواب محمد مصطفی خان شیفتہ کا شعر ہے

ناصحو ! یوں بھی تو مر جاتے ہیں
عشق سے مجھ کو ڈراتے کیوں ہو

ہر ظلم اور ناانصافی پہ چپ رہنے والے اپنے سانس لینے کو ہی جینا تصور کرتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ چپ رہنے سے گھٹن کے ہاتھوں مرنا بھی کوئی اچھا متبادل نہیں۔سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تو مجھے قتل کا افسوس تھا اور میں بھی یہی سوچتی تھی کہ اگر چپ رہتا تو کچھ سال اور جی لیتا۔ لیکن اگر وہ بھی چپ رہتے تو اقلیتوں کے سامنے ہم شرم سے ڈوب بھی مرتے تو کم ہوتا کہ کہ مملکتِ خداداد میں ایک بھی انسان سچ کا ساتھ دینے پہ تیار نہیں۔

کچھ باتوں پہ واضح مو¿قف اپنانا ضروری ہوتا ہے کہ ہر عدالت سے بڑی ضمیر کی عدالت ہے۔ وہاں سے سرخرو نکلیں، باقی خیر ہے۔ اگر یہ تسلی ہو کہ سوئے دار تھا یا کوئے یا، کہیں اپنی ذات کے آگے شرمسار ہونے کی نوبت نہیں آئی، کہیں اپیلیں نہیں کر رہے، کہیں معافیاں نہیں مانگ رہے۔

اک آخری بات مفتی نعیم مضاربی کو تمام اہل وطن کی جانب سے آسکر کی دلی مبارک کہ شرمین نے آئینہ دکھایا تو مملکتِ خداداد کے باسی برا مان گئے لیکن آسکر وصول کرتے ہوئے شرمین کی تقریر سنی آپ نے؟

صرف ایک ہمارے وجود کو تسلیم کریں پھر یہ کم عقل ، جذباتی عورت کامیابیوں کی جس معراج کو بھی پہنچے گی یہ بات نہیں بھولے گی کہ آپ نے ہمیں بھی اپنا جیسا ایک فرد تسلیم کیا ، ایک جیسے مواقع فراہم کرتے رہے اور فیصلے کا اختیار دیا۔

بس یہی فرق ہے کہ اختلاف پہ ہم کبھی بندوق نہیں اٹھائیں گے کہ شرمین کے ہاتھوں میں آسکر ہی جچتا ہے، بندوق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments