محترمہ شرمین عبید چنائے – نہ نوری نہ ناری


\"usman

باکمال جرمن ڈرامہ نویس برتھولڈ بریخت کے مشہور کھیل گلیلیو کا ایک مکالمہ یاد آتا ہے ، جس میں گلیلیو کا شاگرد آندرے اسے کہتا ہے ، ’افسوس ہے ایسی قوم پر، جو ہیرو پیدا کرنے بند کر دے\”. گلیلیو جواب دیتا ہے ، \”افسوس ہے اس قوم پر جسے ہر دم ہیروز کی ضرورت پڑے‘۔ ماننا پڑے گا کہ علامہ اقبال کے افکار کو درپیش مفروضہ خطرے کے خدشات میں دبلی ہوتی ہوئی قوم علامہ کے اس ارشاد کو یکسر فراموش کیے ہوۓ ہے کہ، ’مینار دل پہ اپنے، خدا کا نزول دیکھ۔۔ یہ انتظار مہدی و عیسی بھی چھوڑ دے‘۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس شخص کو ہیرو ماننے کا چلن پڑ جائے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہماری حسرتوں کی پیداوار تمام صفات پر پورا اترے۔ مثلاً قائد اعظم کو آٹھوں گانٹھ کمیت، با عمل سنی مسلمان نہ ماننے والے پر غداری کا الزام لگانا۔ دوسری جانب جس شخص یا طبقے کے بارے میں منفی تاثر قائم کر لیا جائے، اس کی خوبیاں ہیچ البتہ جہان بھر کی خامیاں اس میں مرتکز گردانی جائیں، مثلا ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنسی خدمات کی اہمیت کو، ان کے مذہبی عقائد کے سبب، گھٹانے کی کوشش کرنا۔ خادم کی رائے میں یہ بقول علامہ اقبال انسان کے ’خوگر پیکر محسوس‘ ہونے کا مظہر ہے کہ ہم کسی شخص کی ایک، دو یا کئی اداؤں سے متاثر ہو کر اسے مکمل خیر یا مجسم شر گرداننے لگتے ہیں۔

اس ہفتے کی ایک اہم خبر پاکستانی فلم ساز، محترمہ شرمین عبید چنائے کا، دوسری مرتبہ عالمی سطح پر وقیع ترین اعزاز آسکر ایوارڈ جیتنا ہے۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد، حسب توقع، ایک طبقے نے فوراً ان کی بنائی گئی فلموں کے حساس موضوعات کی روشنی میں انہیں لبرلزم کی نمائندہ، چنانچہ پاکستان کا نام بدنام کرنے کی سازش کا حصہ سمجھنا شروع کر دیا۔ دوسری جانب کچھ لبرل حضرات کو ان کی \"Sharmeen-Obaid-Chinoy-Oscar\"شکل میں اپنی آئیڈیل لبرل ہیروئن دکھائی دینے لگی۔ اول الذکر طبقے نے محترمہ شرمین چنائے کے پیشے، ان کے موضوعات کے انتخاب، ان کی مفروضہ فرقہ وارانہ شناخت، ہر چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیے اور نظریہ سازش کی رو سے انہیں اور وزیر اعظم پاکستان کو اس ملک میں ’لبرل ازم‘ کے بزور نفاذ کے ’مغربی پلان‘ کے مہرے قرار دینا شروع کر دیا۔ اس رنگا رنگ نظریاتی دھنک کے مخالف سرے پر براجمان دوستوں کی نظر میں وہ البتہ مثبت تبدیلی، رواداری، صنفی مساوات وغیرہ کے آدرشوں کی اہم ترین نمائندہ ٹھہریں۔ خادم کی رائے میں افراط و تفریط پر مبنی یہ دونوں رویے ہماری مذکورہ بالا اجتماعی نفسیاتی بیماری، یعنی ہیرو کی تلاش کے شاخسانے ہیں۔

خادم کی نظر میں محترمہ چنائے نے اپنی انعام یافتہ فلموں کے لئے جن مسائل کا انتخاب کیا ہے، وہ انتہائی اہم ہیں اور چاہے انہیں مذہبی نقطۂ نظر سے پرکھا جائے، چاہے کسی اور نظریے کی عینک لگا کر دیکھا جائے، ان کی دردناکی مسلم ہے۔ خادم کو اعتراف ہے کہ خواتین کے بنیادی حقوق کی پائمالی خادم کو پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ نظر آئی اور اکثر مقامات پر قدیم فرسودہ رواجات کی بیڑیوں کو دور از کار اور جعلی مذہبی روغن چڑھا کر قابل قبول بنانے کی سعی رائیگاں بھی۔۔۔۔ تیزاب پھینکنے، کارو کاری، سوارہ، ونی جیسی غیر انسانی، غیر مذہبی اور قبیح ترین بیماریوں کے خلاف جہاد میں محترمہ کے کردار کا خادم دل سے معترف ہے۔ ہاں، ان مسائل پر آگہی بڑھانے کے کار خیر میں شمولیت کسی کے لبرل، جمہوریت پسند یا روشن فکر ہونے کی واحد اور کافی نشانی نہیں۔ کچھ دوست محترمہ کے قبائلی علاقہ جات سے بے گھر ہونے والوں کے باقی ملک میں داخلے پر پابندی کے موقف کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو کچھ گزشتہ فوجی آمریت کے حق میں ان کے رطب اللسان ہونے پر نالاں ہیں۔ اس حوالے سے یہ غریب شہر چند سخن ہائے گفتنی رکھتا ہے۔ اول، محترمہ شرمین عبید چنائے کی بنیادی مہارت کا میدان فلم سازی ہے۔ خادم اس میدان میں کورا ہے مگر اتنا وقیع اعزاز دو بار جیتنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ سو اس حوالے سے خادم انہیں سلام پیش کرنے میں لبرل حلقوں کا ہم نوا ہے۔ پھر انہوں نے جن موضوعات کا انتخاب فلم سازی کے لئے کیا ہے وہ خادم کے دل کے قریب ہیں، سو یہاں بھی آفرین۔۔۔ جو میدان ان کی مہارت کے نہیں ہیں، وہاں البتہ خادم سخت اختلاف کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اگر محترمہ کی ذاتی ذہنی سطح سے ذرا سا ہٹ کر، پاکستانی معاشرے کے شہری درمیانے طبقے کی سوچ کے رخ کو دیکھا جائے، تو بہت سوں کی رائے، بلا لحاظ نظریاتی میلان، اس قسم کے الجھاؤ کا شکار ملے گی۔ طرز حیات میں یک گونہ آزادہ روی پر عامل دوست ہوں یا مذہبی شعار کا دم بھرنے والے، ان کی آراء میں اکثر و بیشتر ان کے طبقاتی، تہذیبی اور دیگر ماحول کا اثر جھلکتا ہے۔ قبائلی علاقہ جات سے بے گھر ہونے والوں کا مسئلہ ہی لے لیجئے۔ خادم نے، بہ استثنائے چند، درمیانے اور بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے دوستوں کو ان مظلوموں کے بارے میں چند در چند غلط فہمیوں کا شکار دیکھا ہے، اور اس میں قومیت، میلان طبع اور صوبائیت کا چنداں فرق نہیں پایا۔ اسی طرح، صارفیت کے بے ہنگم سیلاب کی پیدا کردہ عافیت کوشی نے بہت پڑھے لکھے دوستوں کی فکر کو بھی جمہوریت کے بارے میں خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ محترمہ چنائے بھی اسی معاشرے کی فرد ہیں اور وہ سماجی عالم، سیاسی کارکن یا دانشور ہونے کی دعوے دار بھی نہیں ہیں۔ سو، ’خذ ما صفا، دع ما کدر‘ کے عربی مقولے (کسی بھی چیز کے اچھے پہلوؤں کو اختیار کرو اور برے عناصر سے دور رہو) پر عمل کرتے ہوۓ مکرر عرض ہے کہ جہاں تو محترمہ چنائے نے، بطور ایک باکمال ہنر مند، انسانیت، تہذیب اور معاشرت کے حوالے سے اصلاح طلب پہلوؤں کو، اپنے اصل میدان یعنی فلم سازی کی راہ سے، اجاگر کیا ہے وہاں ان کی کاوشیں قابل تحسین و لائق توجہ ہیں۔ جہاں انہوں نے اپنی ذاتی آراء اپنی تخصیص کے میدان سے باہر کے موضوعات پر ظاہر کی ہیں، انہیں مولانا عبدالماجد دریا بادی کے الفاظ میں ان کی ’بھولی ٹھولی‘ گردان کر نظر انداز کرنا ہی احسن ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments