بے نظیر بھٹو: کس کے ہاتھ پر تیرا لہو تلاش کریں


اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا تو وہ آج اپنی چونسٹھویں سالگرہ مناتیں۔

ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو کے قتل کو نو برس گزرگئے ہیں۔ نو سال قبل پاکستان کی دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی بے نظیر کو راولپنڈی میں انتخابی جلسے کے بعد ایک خودکش حملہ آور نے گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

بینظربھٹو کے قتل کا مقام راولپنڈی کا وہی بدنصیب کمپنی باغ ہے جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی ایک شخص نے ہلاک کیا تھا۔ یہ کمپنی باغ بعد میں مقتول وزیر اعظم کے نام پر لیاقت باغ قرار دے دیا گیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے بقول بے نظیر عین ایسے وقت میں قتل کی گئیں جب ملک کو ان جیسی ذی فہم سیاسی قائد کی ضرورت تھی۔

ُن کے قتل سے جڑے تجسس کا سلسلہ تاحال قائم ہے۔ مقامی تحقیقی اداروں کے علاوہ برطانیہ کے سکاٹ لینڈ یارڈ، امریکہ کی ایف بی آئی کے علاوہ اقوام متحدہ کے خصوصی تحقیقاتی کمیشن نے بھی سانحہ کی تفتیش میں حصہ لیا۔ ابتدائی طور پر واقعے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ملوث قرار دیا گیا تھا، تاہم حتمی طور پر واقعے کے اصل ذمہ داران کے نام تاحال سامنے نہیں آسکے ہیں۔

بے نظیر کے والد اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتہائی قد آورشخصیت کے حامل ذولفقار علی بھٹو کی موت بھی ایسے ہی سوگوار ماحول میں ہوئی تھی۔ بھٹو کو انیس سو ستتر میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت نے اقتدار سے الگ کرکے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا سنادی تھی جس پر عمل درآمد انیس سو اناسی میں کیا گیا تھا۔ آج تک پیپلز پارٹی کے حلقے اُس پھانسی کی سزا کو عدالتی قتل سے تعبیر کرتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو اندرون سیاسی حلقوں میں بی بی کے نام سے مقبول تھیں۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بے نظیر کے سحر کا آغاز اس وقت ہوا جب 1986ء میں جلا وطنی کے بعد وطن واپسی پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 1988ء میں بی بی نے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور اکثریت حاصل کرکے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 1990ءمیں سابق صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کردی لیکن 1993ءکے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ اس بار بھی محض تین سال بعد 1996ءمیں سابق صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ 1997ءکے الیکشن کے بعد انہیں اپنے بچوں کے ہمراہ جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔

اسی دوران انہوں نے لندن اور دبئی میں رہتے ہوے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے خاتمے میں بینظیر کی سیاسی بصیرت کو خاصا اہم تصور کیا جاتا ہے۔ 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی پر ایک مرتبہ پھر ان کا شاندار استقبال ہوا۔ ملک واپس پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد کراچی ایئرپورٹ سے بلاول ہاوس جاتے ہوے بی بی کے استقبال کے لئے آنے والی ریلی میں بم دھماکے کی وجہ سے درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوے۔ تاہم دوسری مرتبہ، راولپنڈی میں قسمت نے اُن کا ساتھ نہیں دیا اور وہ قاتلانہ حملے میں جان کی بازی ہار گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).