کھیل کو کھیل ھی رھنے دیں


پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے وہ کر دکھایا جو کسی کے وھم و گمان میں بھِی نہیں تھا۔ ٹورنامنٹ میں سب سے نچلے درجے کی ٹیم کے طور پر شامل ہوئی اور فاتح بن کر نکلی۔اپنے سے کہیں طاقتور اور تجربہ کار ٹیموں کو شکست دی۔ ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔

“بھارت کو شرمناک شکست” ایک اخبار نے سرخی لگائی۔ “پاکستان چیمپئین، بھارت کو روند ڈالا” دوسرا بولا۔ “بھارت ٹھاہ:پاکستان چیمپیئینز کا چیمپیئن” تیسرے اخبار نے اپنا ماتھا سجایا۔ “پاکستان بھارت کو دھول چٹا کر چیمپیئینز کا چیمپیئن بن گیا” چوتھا کیونکر پیچھے رہتا۔ یہ صورتحال کم و بیش سارے ذرائع ابلاغ میں رہی۔ اینکر حضرات نے بھی خوب اپنا سودا بیچا۔

میچ جیتتے ہی پاکستان میں جشن برپا ہو گیا۔ اچھی خبر کو ترسی ہوئی قوم اس خوش خبری پر نہال ہو گی۔ شہر شہر قریہ قریہ لوگ سڑکوں پر آ گئے اور ڈھول ڈھمکا شروع ہو گیا۔ مٹھائیاں بٹنے لگیں، نعرے لگنے لگے۔ اک عید کا سا سماں تھا۔

اب خیال رہے اس شور شرابے میں ہماری عقل و دانش ہی نہ دب جائے، ہم تہذیب کا دامن ہی نہ چھوڑ بیٹھیں۔

ھندوستانی بھی ہماری طرح کرکٹ کے دیوانے ہیں بلکہ شاید کچھ بڑٰھ کر ہی ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایک روزہ میچ میں بھی سٹیڈیم بھرنا مشکل ہوتا تھا اور ان کی طرف ٹیسٹ میچ کے لئے بھی کھچاکھچ بھر جاتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کو تو انہوں نے با قا عدہ دیوتا کا درجہ دے رکھا تھا۔ آئی سی سی بھی سب سے زیادہ پیسے ان کے ہاں ہی سے کماتی ہے۔

پھر ان کی ٹیم بہترین ٹیموں میں سے تھی، ٹورنامنٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن فائنل میں دباو کا شکار ہو کر شکست سے دوچار ہو گئی۔

پورا ہندوستان غم میں ڈوب گیا۔ بہت سی جگہوں پر اس غم نے غصہ کی جگہ لے لی۔ مظاہرے ہوئے، نعرے لگے، پتلے جلے، ٹی وی ٹوٹے۔ کروڑوں کے اس دیس میں ، کوئی بعید نہیں، غم کی شدت سے بہت سے جاں سے بھی گئے ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ ہم خوشی کیسے منائیں؟

ہم اپنی خوشی کچھ اس طرح سے منائیں کہ کسی اور کے زخموں پہ نمک پاشی نہ ہو پائے۔

یہاں بہت سے لوگوں کا موئقف ہو گا کہ ہندوستان جیتتا تو ہم سے اس سے بھی بری کرتا۔ کوئی کہے گا ہندوستان نے پہل کی تھی اس روایت کے ڈالنے میں۔ دلیل کے طور پر “موقع، موقع” گانے کا بھی حوالہ دیا جائے گا۔

اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں: چاہیں تو “ایسے کو تیسا” یا “ادلے کا بدلہ” کے مصداق ان کا تمسخربھی اڑا سکتے ہیں، چاہیں تو اعلی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہو ئے تہذیب اور شائستگی کو بھی روا رکھ سکتے ہیں۔

ہماری اصل فتح تو یہ ہو گی کہ ہم دنیا پر ثابت کریں کہ ہم ٹیم ہی نہیں، قوم بھی ان سے بہتر ہیں۔

ملک کے مختلف کونے کھدروں سے ہوائی فائرنگ کے نتیجہ میں لوگوں کے زخمی ہونے اور مرنے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ اب کوئی کراچی کی اس ماں سے پوچھے جس کا پندرہ سالہ بچہ اندھی گولی کی بھینٹ چڑھ گیا یا پشاور کی اس ماں کی آ نکھوں میں آنکھیں ملائے جس کا چھٹی میں پڑھتا بچہ کسی کی ادا کی نذر ہو گیا۔کوئی ان ظالموں کو بتائے پاکستان کی کرکٹ میں ایسی سینکڑوں فتوحات بھی ایک ایسی جان کے سامنے ہیچ ہوتی ہیں۔

میڈیا بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک کرے۔ میچ کو کفر و باطل یا ہندوستان پاکستان کی جنگ کے بجاِے محض میچ کے طور پر ہی پیش کرے۔ جذبات کو بھڑکانے کے بجائے اپنے دیکھنے والوں کی اخلاقی تربیت کرے۔ ایسے اشتہارات اور پیغامات سے گریز کرے جس سے ہمارے غرور یا ہندوستانیوں کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔ خبردار رہیں جو ٹشو پیپر ایک اشتہار میں انہیں تمسخرانہ انداز میں پیش کئے جا رہے ہیں، وہ ایک روز اسے بھی کسی اشتہار کی صورت میں ہمیں لوٹانےآئیں گے کہ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے اور کوئی سدا فاتح کے مرتبے پر فائز نہیں رہتا۔

ٹویٹر اور فیس بک استعمال کرنے والے بھی مذاق کرتے ہوئے شاَستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

اگر دھونی نے سرفراز کے بیٹے کو گود میں اٹھا کر پیار کیا تھا تو ہم بھی دھونی کے بیٹے کے جذبات کا خیال رکھیں۔

کہنا یہ ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں۔ نفرت کے بیج مت بوئیں، اس سے انتہاپسندی کی فصل اگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).