لنچنگ رپبلک آف انڈیا


 جمعے کی نصف شب سری نگر کی جامع مسجد کے باہر ایک پولیس افسر محمد ایوب پنڈت کو مار مار کر ہلاک کرنے کا بہیمانہ واقعہ سامنے آیا۔ اس طرح کے ہجومی تشدد کا شورش زدہ وادی میں یہ پہلا واقعہ تھا۔

چونکہ یہ کشمیر کا معاملہ تھا اس لیے ٹی وی چینلوں نے ’لنچنگ‘ کی خبر ملتے ہی ہر زاویے سے اس واقعے پر یلغار کر دی۔ ان چینلوں پر ہجومی حملے کے کچھ ویڈیو مناظر بھی دکھائے گئے۔ پولیس نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے اس بہیمانہ حملے میں مبینہ طور پر ملوث 12 افراد کی شناخت کر لی ہے اور اب تک پانچ ملزموں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ سبھی سیاسی جماعتوں اور کئی وزرا نے اس واقعے کی مذمت کی اور بحث و مباحثے میں حصہ لیا۔

کل رمضان کا آخری جمعہ تھا۔ ہریانہ کے کچھ مسلمان لڑکے عید کی خریداری کے لیے دلی آئے۔ واپسی میں جب وہ ٹرین پر بیٹھے تو کچھ مسافروں کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر ان کے مسلمان ہونے پر طنزیہ فقرے کسنا شروع کیا۔ بات بڑھتی گئی ۔ مسافروں کے اس گروپ نے ان مسلمان لڑکوں کو بری طرح مارا اور ان کا سٹیشن جب آیا تو ان میں سے تین کو چاقو مار دیا۔ ان میں سے ایک 15 سال کے لڑکے جنید خان کی وہیں موت ہو گئی۔ دو لڑکے ابھی ہسپتال میں ہیں جن میں سے ایک کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ اس خطرناک واقعے کے بارے میں عموماً خاموشی چھائی رہی ہے۔ ریلوے پولیس یا مسافروں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔

مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے لنچنگ یا ہجومی تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملک کے سرکردہ مسلمان دانشوروں، مذہبی تنظیموں اور اہم شخصیات نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ ہے وہ عید کے روز کالی پٹی باندھ کر ہجومی تشدد سے تحفظ نہ دینے پر حکومت کے خلاف احتجاج کریں۔

ملک میں اس وقت مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ گروپ روزانہ مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنے والی ویڈیوز اور پیغامات پوسٹ کرتے ہیں۔ جو کروڑوں لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز بھی قوم پرستی کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ملک کے سرکردہ صحافی سدھارتھ وردا راجن نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ’ کوئی غیر معمولی قسم کا یہ فتنہ لگ رہا ہے ۔ بعض سرکردہ ٹی وی چینلز اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدگی کے ساتھ نفرت پھیلا رہے ہیں ۔‘

مسلمانوں کو پہلے گائے کے گوشت پر پابندی کے نام پر نشانہ بنایا گیا۔ پھر غیر قانونی سلاٹر ہاؤسز کے نام پر بھینس اور بکرے کے گوشت کا کاروبار محدود کر دیا گیا۔ مویشیوں اور گوشت کا کاروبار کرنے والے لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے خلاف بیانات بھی آتے رہے اور ہجومی حملے بھی وقتاً فوقتاً ہوتے رہے۔ انڈیا میں ملک کی تقسیم کے بعد مسلمانوں میں غالباً پہلی بار اس طرح کا خوف اور ڈر پیدا ہوا ہے۔ اس خوف کا سبب یہ بھی ہے کہ ایک طرف ایک ایسی حکومت ہے جسے عموماً مسلمان اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور دوسرے ملک میں اس وقت کوئی موثر اپوزیشن بھی نہیں ہے جو حکومت کو چیلنج کر سکے۔

یہ ڈر صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بھارتی سماج کے بہت سے حلقوں میں ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی تین برس کی کارکردگی ایسی کوئی خاص نہیں رہی ہے جسے ماضی کی حکومتوں سے الگ کیا جا سکے۔ معیشت اس وقت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت نوکریاں نہیں بنا پا رہی ہے۔ کسانوں کو تباہی کا سامنا ہے۔ متوسط طبقہ کو بڑی امیدیں تھیں لیکن انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو ا بلکہ اضافی ٹیکس اور گرانی کی مار ان پر بڑھ گئی ہے۔

لیکن ان سب حالات کے باوجود وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہے ۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ قوم پرستی کے اس دور میں میڈیا نے ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں پہلے سے ہی دبی ہوئی اجتماعی نفرت کو ابھار دیا ہے ۔ میڈیا، بالخصوص ٹی وی چینلز پوری طرح حکومت نواز بن چکے ہیں۔ ایک طرف ٹی وی چینلز حکومت کا پراپیگنڈا کرنے میں لگے ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں سے بڑھتی ہوئی نفرت کا بھی فائدہ مودی کو ہو رہا ہے۔

دانشوروں اور اپوزیشن کے کئی سیاسی رہنماؤں کو اندیشہ ہے کہ مودی اگر 2019 کا بھی پارلیمانی انتخاب جیت گئے تو وہ آر ایس ایس کے ہندو راشٹر بنانے کے خواب کو پورا کریں گے۔ پارلیمانی انتخاب میں تو ابھی دو برس باقی ہیں۔ لیکن مودی کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن کمزور اور منتشر ہے۔

دوسری جانب ہجومی تشدد، صحافت پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور اظہار کی آزادی پر طرح طرح کی رکاوٹوں کے خلاف اب آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں۔ سرکردہ صحافی، دانشور اور مبصرین موجودہ صورتحال پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ ہجومی تشدد کے خلاف انڈیا کے مسلمان عید کے روز کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کریں گے۔

ملک کے نوجوان نسل کے رہنماؤں کا ایک گروپ ہجومی تشدد کو روکنے کے لیے وزیراعظم مودی کو ایک قانون کا مسودہ دینے والا ہے۔ اگر اس طرح کا کوئی قانون منظور نہ ہوا تو ان رہنماؤں کا ملک گیر تحریک چلانے کا ارادہ ہے۔ ادھر دلتوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف گجرات اور اترپریش میں جولائی کے دوسرے ہفتے میں دلت تنطیموں نے ’فریڈم مارچ ‘ نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی سطح پر اپوزیشن تو منتشر ہے لیکن سماجی قوتیں رفتہ رفتہ حکومت کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔

(شکیل اختر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp