فیض صاحب کی چھ منفرد خوبیاں


عام طور پر شاعر حضرات کو زمانے کی ناقدری کا گلہ رہتا ہے لیکن فیض احمد فیض اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ وہ اپنی زندگی میں اتنا چاہے اور سراہے گئے،جس کی حد نہ تھی، اس لیے ہمیشہ شاد رہے۔ فیض بڑے شاعر تھے، اس میں کس کو کلام ہوسکتا ہے لیکن ان کے عہد میں اور بھی ممتاز شاعر گزرے،پر ان کے جتنی محبوبیت کسی کے حصے میں نہ آئی اور بزم جہاں سے ان کی رخصتی کے بعد بھی کوئی ایسا نہ اٹھا جو مقبولیت میں ان کی گرد کو پہنچ سکے۔ آپ سے آپ کسی شخص کے دل میں سما جانے کی بات صحیح مان لی جائے تب بھی یہ ضرور ہے کہ ایسی ہستیوں کی شخصیت میں ایسے گن ضرور ہوتے ہیں،جن کی بنا پر لوگ ان کی طرف کھنچتے چلے آتے ہیں، شخصی محاسن ان کے یہاں تشہیری انداز میں جلوہ نما نہیں ہوتے بلکہ جینے کا اسلوب بن جاتے ہیں۔ فیض نے جب یہ کہا کہ’ جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں‘، تو وہ خالی خولی سخن وری نہ تھی بلکہ یہ ان کی عملی زندگی کا گویا منشور تھا ۔

محبان فیض میں ایسی ہستیاں بھی شامل ہیں جو اپنی جگہ بھاری پتھر ہیں۔ ایسوں میں ایک نام ممتاز فکشن نگار راجندر سنگھ بیدی کا ہے۔ ان کو فیض سے کیا تعلق خاطر تھا، اس کا اندازہ، ان کے ایک انٹرویو کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:

’’ ایک ایسی شخصیت ہے جن سے میں بہت متاثر ہوا اور آج تک ہوں، وہ ہیں فیض احمد فیض۔ اتنے توازن اور متانت کے علاوہ فریفتہ کرنے والی معصوم مسکراہٹ جو میں نے ان میں دیکھی ہے کہ ہر حال میں وہ ایسے ہی رہتے ہیں حالاں کہ میں ایسی تبدیلی حالات میں گھبرا جاتا ہوں ۔ ہر آدمی کا ایکAlter ego  ہوتا ہے، وہ آدمی اسی طرح بننا چاہتا ہے لیکن بن نہیں پاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فیض احمد فیض جذباتی آدمی نہیں ہیں۔ ان میں جذبہ ہے اور بہت ہے، جو ان کے اشعار کے ریشمی تانوں بانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اظہار میں نے 1958ء میں ماسکو میں دیکھا جب وہ میرے سے رخصت ہوتے وقت گلے لگ کر روئے لیکن ساری باتوں کے باوجود وہ ایک مستحکم شخصیت کے مالک ہیں، ان سے بہت متاثر ہوں۔ ‘‘

فیض نے ایک بھرپور اور روشن زندگی گزاری جس میں بہت سے واقعات ان کی بڑائی کا پتا دیتے ہیں ۔ ہم نے نمونے کے طور پر چھ واقعات چنے ہیں، جن سے پڑھنے والے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔

دیانت داری ان کا شعار تھی

دہلی میں کرشن چندر ایک روز کتب خانہ علم وادب اردو بازار آئے اور شاہد احمد دہلوی سے کہا کہ اگر انھیں پیشگی ہزار روپیہ دیا جائے تو وہ ایک مہینے میں ناول لکھ کر ان کے حوالے کردیں گے۔ شاہد احمد دہلوی نے کرشن چندر کی بات مان لی۔ وہ کشمیر گئے اور ٹھیک مہینے بعد ناول کا مسودہ شاہد احمد دہلوی کے ہاتھ میں تھا۔ ساقی بک ڈپو نے ’’شکست ‘‘شائع کیا تو اسے بہت پذیرائی ملی، جس سے شہ پا کر اور بھی ادیبوں نے شاہد دہلوی سے پیشگی معاوضہ لے کر ناول لکھنے کی ہامی بھری، مگر وہ ذمہ داری پوری نہ کرسکے۔ فیض نے 600 روپیہ کی پیشگی رقم لی، ان سے بات بنی نہیں اورانھیں لگا کہ فکشن لکھنا ان کے بس کا روگ نہیں تو انھوں نے دیانت داری سے ساری رقم لوٹا دی، یہ کام کسی اور ادیب نے نہ کیا، سب نے ناول لکھا نہ ہی رقم واپس کی۔ ایسوں میں چراغ حسن حسرت بھی شامل تھے۔ شاہد احمد دہلوی کے بقول: ’’فیض صاحب کی تنہا مثال ہے کہ انھوں نے روپیہ واپس کر دیا ورنہ کم وبیش پندرہ ہزار روپیہ انہی پیشگیوں میں ڈوبا اور پاکستان آنے کے بعد تو میں نے پبلشنگ کے کام سے توبہ ہی کر لی۔ ‘‘

ماتحتوں کی عزت نفس ملحوظ رکھتے تھے

مولوی محمد سعید ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹررہے ۔ فیض احمد فیض جب اس اخبار کے چیف ایڈیٹرتھے، وہ نیوزایڈیٹرتھے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں فیض کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے جو ماتحتوں سے رویے کی ضمن میں مثال بن سکتا ہے۔ محمد سعید نے بتایا ہے کہ ’ ایک روز فیض نیوز روم میں آئے اورمجھے باہر بلایا، پھر تقریباً سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے کہ فلاں فلاں خبر کا ڈبل کالم لگنا نہ بنتا تھا، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ فیض صاحب آپ کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ مجھے نیوز روم میں ڈانٹ دیں ۔ ‘

مولوی محمد سعید کے بقول، ان کے ساتھی جمیل احمد کہا کرتے تھے کہ غلطی کرنے کے بعد فیض صاحب کا سامنا کرنا ہمیشہ بہت زیادہ  embarrassingہوتا کیونکہ وہ جس نرم لہجے میں گرفت کرتے ہیں لگتا ہے کہ جیسے آپ کی غلطی پر وہ معافی کے طلب گار ہوں۔

ہم نے دفتروں میں دیکھا ہے کہ باس حضرات کسی فروگزاشت پر ماتحت کی دوسروں کے سامنے گرفت کر کے، اسے شرمندہ کرتے ہیں، اور بعض تو ایسے سڑیل ہوتے ہیں کہ وہ اوروں کی موجودگی میں کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کر زیادہ خوش ہوتے ہیں، فیض کو اپنے ساتھیوں کی عزت نفس کا اس قدر خیال تھا کہ وہ چیف ایڈیٹر ہو کر بھی نیوز ایڈیٹر کو الگ سے بلا کر اس کی غلطی کی نشاندہی کررہے ہیں۔

مرتضیٰ بھٹو کو تشدد کی راہ پرچلنے سے منع کیا

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز نے مسلح جدوجہد کے لیے الذوالفقار کے نام سے تنظیم بنائی۔ تشدد کا رستہ کبھی برگ وبارنہیں لاتا اوریہ تباہی پر منتج ہوتا ہے، بھائیوں کے برعکس بینظیربھٹو نے سیاسی جدوجہد کی راہ چنی جو نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ بھٹو کے بیٹوں کے عمل نے پیپلز پارٹی کے خیر خواہوں کوبھی پریشان کیا اورانھوں نے ان کو صحیح راہ سجھانے کی کوشش کی، ایسوں میں فیض بھی شامل تھے جن کا خیال تھا کہ پسران بھٹو بڑی حماقت کر رہے ہیں اور سوویت یونین اور افغانستان نے اپنی سرزمین پرانھیں اپنی تنظیم قائم کرنے کی اجازت دے کردانش مندی کا ثبوت نہیں دیا۔ خالد حسن نے اپنے ایک واقف کار کے ذریعے فیض کا مسلح جدوجہد ترک کرنے کا مشورہ مرتضیٰ بھٹو تک پہنچایا بھی،جس پر ان نے کان نہ دھرے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ فیض کا مشورہ کس قدر صائب تھا ۔

اصول کی بات آئی تو غضبناک ہو گئے

’’ڈان ‘‘ کے سابق ایڈیٹر سلیم عاصمی نے فیض احمد فیض کا انٹرویو کیا تھا جو اب ان کی کتاب میں شامل ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنجاں مرنج فیض کو بھی ایک دفعہ غصہ آیا تھا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب 1959 میں مارشل لاء کے بعد پروگریسو پیپرز لمٹیڈ پر قبضے کے بعد وہ پولیس افسر جنھوں نے راولپنڈی سازش کیس میں فیض کو گرفتار کیا تھا، ان سے ملنے آئے اور بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’ امروز‘‘ کے چیف ایڈیٹر بن جائیں۔ اس پر فیض نے پولیس افسرسے کہا ’’دفع ہو جاؤ‘‘ فیض کے بقول، زندگی میں یہ پہلی مرتبہ تھا جب وہ کسی سے غیرشائستگی سے پیش آئے کیوں کہ وہ اس کی بات پر غضب ناک ہوگئے تھے۔ بھلا فیض جیسے بااصول آدمی کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ وہ اپنے اخباری ادارے پر قبضے کے بعد کسی منصب پربراجمان رہیں، آخر کو وہ فیض احمد فیض تھے، زیڈ اے سلہری تو نہ تھے۔

فکری انتہا پسندی انہیں گوارا نہ تھی

ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی تو اس نے علامہ اقبال کو نشانے پر رکھ لیا اور انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کسی نے انھیں فاشسٹ قرار دیا تو کسی کو وہ اقتدار پرست لگے ۔ کسی نے فرمایا کہ ان کی شاعری بے عملی اور بے حرکتی کی طرف لے جاتی ہے ۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ فیض کے بقول،  1949 میں اقبال کو باقاعدہ  demolish کرنے کا حکم صادر ہوا کیونکہ وہ ترقی پسندوں کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے تھے۔ فیض کا رویہ اپنے انتہا پسند نظریاتی ساتھیوں سے مختلف تھا، وہ ان کی لائن پر چلنے کو تیار نہ تھے۔ وہ اقبال کے خلاف مہم کا حصہ، اول تو اس لیے نہ بنے کہ وہ اسے انتہا پسندی سمجھتے تھے، دوسرے وہ اقبال کے ادبی مرتبہ کا صحیح فہم رکھتے تھے۔ ترقی پسندوں کی طرف سے اقبال کو گرانے کی کوششوں پر فیض اس قدر برافروختہ ہوئے کہ انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں جانا چھوڑ دیا۔ فیض کے بقول:

’’ ۔ ۔ ۔ پھر ایک روز مظہر علی خان کے گیراج میں انجمن کی میٹنگ ہوئی ۔ صفدر میر صدر تھے ۔ قاسمی صاحب نے علامہ اقبال کے خلاف ایک بھرپور مقالہ پڑھا ۔ ہمیں بہت رنج اور صدمہ ہوا ۔ ہم نے اعتراض کیا کہ یہ کیا تماشا ہے۔ آپ لوگ کیا کررہے ہیں۔ یہ تو سکہ بند قسم کی بے معنی انتہا پسندی ہے۔ ہماری نہ مانی گئی ۔ ہم بہت دل برداشتہ ہوئے ۔ اس کے بعد ہم انجمن کی محفلوں میں شریک نہیں ہوئے اور صرف پاکستان ٹائمز چلاتے رہے۔ ‘‘

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فکری انتہاپسندی کو کس قدر ناپسند کرتے تھے ۔ علامہ اقبال تو انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے دو برس بعد انتقال کر گئے، اس لیے اس کے ساتھ براہ راست ان کا ٹاکرا نہیں ہوا۔ محمد حسن عسکری تو ترقی پسند تحریک کے کٹرمخالف تھے، فیض کا رویہ ان کی جناب میں بھی احترام کا رہا، جس زمانے میں وہ ترقی پسندوں کے خلاف لکھ رہے تھے، ’’پاکستان ٹائمز ‘‘کے چیف ایڈیٹرکی حیثیت سے فیض کوحسن عسکری کے مضامین شائع کرنے میں عذر نہ تھا۔ ان کی کتاب ’’جدیدیت ‘‘کے مندرجات سے فیض نے جس شائستگی سے اختلاف کیا، وہ ان لوگوں کے لیے مثال کا کام دے سکتا ہے جو ذاتیات پراترنے اور فکری مخالف کو برا بھلا کہنے کو اپنی علمیت کی دلیل جانتے ہیں۔ اقبال سے فیض کی محبت کا اندازہ ان کی نظم ’’اقبال‘‘ سے بھی ہوتا ہے جو ’’نقشِ فریادی‘‘ میں شامل ہے ۔

عہدہ ان کے لیے کبھی اہم نہیں رہا

’’پاکستان ٹائمز‘‘ پرفوجی حکومت کے قبضے کے بعد فیض کے دوستوں نے انھیں برسرروزگارکرنے کے لیے اپنی سی کوشش کی۔ وزارت تعلیم کے سیکرٹری ایس ایم شریف، فیض کے قدردان تھے، انھوں نے گورنمنٹ کالج میں فیض کو انگریزی کا پروفیسربننے کی پیش کش کی مگر بقول ڈاکٹر آفتاب احمد ’’ فیض کی علمی دیانت داری دیکھیے کہ انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ انگریزی ادب سے ان کا رابطہ اب اس طرح کا نہیں کہ وہ ایم اے کی کلاسز کو پڑھا سکیں ۔ اس مضمون میں ان کا علم تازہ اور حاضرنہیں ۔ ہاں اگر اردو کی پروفیسری کا انتظام ہوسکے تو اور بات ہے کیوں کہ اس میں ان کے پاس کچھ کہنے کو ہوگا انگریزی میں تو وہ دوسروں کی کہی ہوئی باتیں ہی دہرائیں گے۔ ‘‘ فیض کی جگہ کوئی اور ہوتا تو جھٹ سے ذمہ داری قبول کرلیتا لیکن وہ تدریس کے پیشے کی اصل سے آگاہ تھے ۔ اس لیے ناں کردی، یہ بڑے ظرف کی بات ہے اور اس معاملے میں وہ یقیناً تہی دامن نہیں تھے۔

اس سیریز کے دیگر حصےفیض احمد فیض : روایت پرست باغی (3)۔فیض احمد فیض کی کتابوں کی اشاعت کے مختلف دلچسپ مرحلے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).