اسلام اور عمران کی محبت میں مبتلا سپر سٹار (1)۔


(مصنف: اکبر احمد / مترجم: عدنان خان کاکڑ)۔

بیس برس سے کچھ اوپر کی کرسٹیانا بیکر اپنی زندگی سے خوب لطف اٹھا رہی تھیں۔ وہ اپنے خوابوں کو پا چکی تھیں۔ وہ ایم ٹی وی یورپ کی میزبان تھیں اور مک جیگر اور بونو جیسی مشہور ہستیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی تھیں اور اس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا تھا۔ دور سے دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ انہیں وہ ہر شے مل چکی ہے جس کی انہوں نے کبھی بھی تمنا کی تھی۔ مگر وقتاً فوقتاً اندر ہی اندر ان کو دکھ اور بے چینی کا ایک احساس کھا جاتا تھا جس سے وہ پیچھا نہیں چھڑا پاتی تھیں۔

پھر ان کی ملاقات مشہور پاکستانی کرکٹر عمران خان سے ہوئی جو انہیں موسیقی کے راستے اسلام اور طمانیت کے ایک نئے احساس کی جانب لے آئے۔

’وہ میرے لئے اسلام کا تعارف تھے۔ میں کہا کرتی ہوں کہ میں تلاش نہیں کر رہی تھی بلکہ مجھے تلاش کر لیا گیا‘۔ کرسٹیانا نے عمران کے متعلق کہا۔

جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں پرورش پانے والی کرسٹیانا بیکر ہمیشہ سے فنون لطیفہ سے محبت کرتی تھیں۔ عمران خان سے ملنے کے لئے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ایک دن جب انہوں نے صوفی اسلام کی عقیدت سے بھرپور قوالی سنی تو وہ اس کی خوبصورتی سے مسحور ہو گئیں۔ ہر تان کے ساتھ انہوں نے ایک عجیب سے گہرائی محسوس کی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر تان محبت کی ایک ایسی صنف سے تعلق رکھتی ہے جو انسانوں کے درمیان محسوس نہیں کی جا سکتی ہے۔

کرسٹیانا بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ’موسیقی سے ہٹ کر، ان کو لوگوں کی انسانیت، میزبانی اور گرم جوشی نے متاثر کیا‘۔ ان سے جس کا بھی واسطہ پڑا، خواہ وہ امیر تھا یا غریب، وہ عمران خان کے کینسر ہسپتال کے لئے عطیات دینے کا خواہاں تھا۔

’ہم پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں رہنے والے نہایت غریب لوگوں سے ملے جنہوں نے ہمیں نہایت دریا دلی دکھاتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے نہایت غریب لوگ جن کے دانت تک غائب ہوتے تھے، ہسپتال کے لئے عمران کے ہاتھوں میں چند روپے پکڑا دیتے تھے۔ عورتوں نے اپنے زیورات اتار کر ہسپتال کے لئے عطیہ کر دیے‘۔

کرسٹیانا مبہوت ہو کر رہ گئیں۔ ان کو مغرب کی شو بزنس کی زندگی، خاص طور پر مغربی پوپ میوزک کی انڈسٹری میں لوگوں کے رویوں کے تجربات اور پاکستان میں دیکھی جانے والی روحانیت کے تجربے میں فرق نے دم بخود کر دیا۔

انہوں نے آخر کار تین برس بعد اسلام قبول کیا لیکن پاکستان کے اس دورے نے ان کے اندر ایک احساس کو جگا دیا تھا۔

کرسٹیانا نے اسلام کے متعلق تحقیق شروع کر دی۔ عمران خان کے ساتھ گزارے کئی دنوں نے کرسٹیانا کو ہر وقت عمران کے مذہب اور طریق زندگی کے بارے میں مسلسل جانکاری دی۔ کرسٹیانا نے بعد میں تسلیم کیا کہ اس سے ان میں روحانیت کا احساس جاگا اور انہوں نے ایک ایسی زندگی پائی جسے وہ اپنی شناخت قرار دے سکتیں۔

کرسٹیانا بتاتی ہیں کہ ’میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں اور میں نے جو جانا اس نے میرے ہوش اڑا دیے۔ میرے لئے یہ سب کچھ ایک نئی دنیا کی مانند تھا۔ میں نے جو پہلی کتاب پڑھی اسی نے مجھ میں ایک تجسس کو جگا دیا اور میں مزید پڑھنے کی خواہش مند ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ خدا ایک ہے اور ہم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں۔ نومولود بچے پاکیزہ پیدا ہوتے ہیں، گنہگار نہیں (ایک مسیحی عقیدے کے مطابق بچے پیدائش کے وقت گنہگار پیدا ہوتے ہیں: مدیر)۔ میں نے یہ سیکھا کہ کیسے قرآنی آیات روزمرہ زندگی میں میری مدد کر سکتی ہیں‘۔

’میں قائل ہو چکی تھی۔ میں نے اس لئے اسلام قبول کیا کہ میں اپنی زندگی میں خدا کو لانا چاہتی تھی۔ میں خود کو پاکیزہ کرنا چاہتی تھی تاکہ میں وہ روحانی ثمر پاؤں جس کے بارے میں میں پڑھ رہی تھی‘۔

لیکن جس وقت کرسٹیانا کی اسلام میں دلچسپی بڑھ رہی تھی تو ان کی زندگی میں ایک اور طوفان آ گیا۔ عمران، جس شخص سے وہ شادی کرنے کی امید باندھے بیٹھی تھیں، نے اچانک ان سے تعلق ختم کر دیا اور ایک اور عورت سے شادی کر لی۔

اس وقت بظاہر کرسٹیانا کے پاس اسلام کو سمجھنے کی کوئی ذاتی وجہ باقی نہیں بچی تھی۔ اگر وہ اس وقت عمران اور ان کے مذہب کے خلاف ہو جاتیں تو یہ بات سمجھ میں آتی۔ لیکن انہوں نے کسی جھجک کے بغیر اسلام قبول کر لیا۔

اسلام نے کرسٹیانا کو وہ حوصلہ اور طاقت دیے جن سے وہ ایک دوسری عورت سے عمران کی اس یکلخت اور بہت ہی مشہور قسم کی شادی کے دوران پروقار انداز اختیار کر پائیں۔ جاننے کا جو سفر ایک شخص کی محبت کے باعث شروع ہوا تھا، وہ انہیں خدا سے محبت کی طرف لے گیا۔

کرسٹیانا کا یہ نیا عقیدہ ہی تھا جس نے ان کو پوپ میوزک کی دنیا کی ایک مقبول شخصیت کے طور پر اپنی زندگی میں وہ مفاہمت دی جس سے وہ اس سے قبل محروم تھیں اور مغربی کلچر میں بھی ان کو ایک مقصدیت نصیب ہوئی۔ ان کی زندگی میں اب کالی گھٹائیں نہیں رہی تھیں بلکہ ان کا ذہنی انتشار اور بے چینی دور ہو چکے تھے۔

اب کرسٹیانا کی عمر 51 برس ہے۔ وہ جرمنی میں اسلام قبول کرنے والی مشہور ترین ہستیوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے ملک میں ہر ایک نے ان کے قبول اسلام کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کیا۔

’جب میرے اسلام قبول کرنے کی خبر پھیلی تو میرے خلاف ایک نہایت منفی اخباری مہم چلی۔ میں ایک ایوارڈ وننگ ٹی وی میزبان تھی۔ میں سات برس سے ایک مقبول شخصیت تھی۔ اور اب اچانک مجھ پر دہشت گردی کا حامی ہونے کا الزام چسپاں کر دیا گیا۔ چند دن بعد ہی مجھے میرے تمام ٹی وی پروگراموں سے نکال دیا گیا اور عملی طور پر جرمنی میں میرا شو بزنس کیرئیر ختم ہو کر رہ گیا‘۔

اس ردعمل نے کرسٹیانا کو حیرت زدہ کر دیا۔ وہ اسلامی طرز زندگی میں حیا کے ایک نئے احساس سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ انہوں نے اسلام کو عورت کو زبردستی برقع پہنانے یا عورت پر ظلم کے مغربی مفروضے پر مبنی نہیں پایا تھا۔

’پہلی چیز جو میں نے ذرا سی بدلی وہ میرے لباس پہننے کا انداز تھا۔ میں نے منی سکرٹ پہننا چھوڑ دیا۔ میں نے خود میں نسوانیت کا زیادہ احساس پایا۔ گلیوں میں خود پر سیٹیاں بجوانے کی بھلا کس کو ضرورت ہے؟‘

’میں اس انڈسٹری میں کام کر رہی تھی جس کا نعرہ ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی شے ہے تو اسے خوب دکھاؤ۔ لیکن اب میں اچانک ہی حیا کے بارے میں جاننے لگی تھی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ کیسے عورت کے لئے یہ بات زیادہ باعزت ہے کہ وہ اپنا بدن چھپائے اور اسے ہر شخص کو نہ دکھائے‘۔

لیکن دوسرے افراد ان کی شخصیت میں اچانک برپا ہونے والی اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ مسلم خواتین کے بارے میں یہ دوہرے معیار ان کی سمجھ سے باہر تھے۔

’ان کے لئے یہ بات قابل قبول ہے کہ آپ اپنا پیٹ عریاں کریں اور ناف چھدوا کر اس میں بالی پہن لیں اور بہت مختصر سی سکرٹ پہنیں، لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ آپ لمبے کپڑے پہنیں اور سر ڈھانپیں۔ ایسا رویہ غلط ہے‘۔

کرسٹیانا کے والدین کے بھی اسلام کے بارے میں یہی ناواجب تصورات تھے۔ گو کہ وہ کرسٹیانا کے قبول اسلام کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے، مگر اس بات کو نظرانداز کرنے کے لئے ان کو بہت کوشش کرنی پڑتی تھی۔

ان کو اسلام اور خاص طور پر مسلمان آدمیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کی بدگمانیاں تھیں جن کی عمران کے اس طرح یکلخت ہمارا تعلق توڑنے کے انداز نے گویا تصدیق کر دی۔ میں نے انہیں وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ میں نے یہ مذہب اپنی ذات کے لئے پایا ہے اور اسے اختیار کیا ہے۔ عمران نے محض میرے لئے یہ راستہ کھولا تھا۔ میرے والد نے وحدت الوجود کی اصطلاح بھی استعمال کی۔ ان کی رائے میں مسلمان تمام دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ آخر کار انہوں نے مجھے اسلام کے بارے میں گفتگو کرنے سے روک دیا اور یوں ہمارے گھر میں یہ لفظ ناقابل قبول قرار پایا۔

یہ ردعمل ان کو آج بھی مایوسی کا شکار کر دیتا ہے۔ کرسٹیانا کے تجربے کے مطابق جرمن شناخت اسلامی شناخت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ تو پھر ان کو دونوں میں سے ایک ہی کو کیوں منتخب کرنا ہو گا؟

کرسٹیانا کہتی ہیں کہ ’جرمن ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ بیئر پئیں اور قوم پرست بنیں۔ میں صدق دل سے یقین کرتی ہوں اور جانتی ہوں کہ اسلامی اقدار نہ صرف یہ کہ جرمن اقدار سے مطابقت رکھتی ہیں بلکہ عمومی طور پر یہ یورپی اقدار کے موافق ہیں۔ اسلام تمام وقتوں اور تمام خطوں کے لئے ہے۔ اس لئے یہ ہمارے زمانے کے یورپین افراد کے لئے بھی ہے‘۔

کرسٹیانا بتاتی ہیں کہ ان سے پہلے کے جرمن مفکرین ان کی اس کا ثبوت بھی ہیں۔ اسلام اور مشرقی تہذیب قبول کر کے وہ جوہان وولف گانگ گوئٹے، مارٹن ہائیڈیگر اور جوہان کرسٹوف فریڈرک فان شلر کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ یہ وہ جرمن مفکرین ہیں جو کہ مشرقی اور اسلامی فکر اور کتابوں سے متاثر ہوئے۔ ان متاثر کرنے والوں میں جلال الدین رومی اور حافظ شیرازی جیسے نام بھی ہیں۔

لیکن کرسٹیانا کا یہ ماننا ان کے ملک میں موجود احساس کو تبدیل نہیں کر پایا اور انہوں نے بہت سے جرمن دروازے اپنے لئے بند پائے۔ انہوں نے مستقل طور پر لندن منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایک براڈ کاسٹر کے طور پر کام کرتی رہیں۔


اگلا حصہ: اسلام اور عمران کی محبت میں مبتلا سپر سٹار (2)۔
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments