حسین شاہد۔۔۔ جو کسی کا غلام نہ تھا


میں ایک ذاتی بکھیڑے کے حوالے سے اسلام آباد گیا، واپس آیا تو شام ہو رہی تھی، میں نے اپنے پوتوں کے چہرے دیکھے تو طویل سفر کی تھکن اتر گئی، میں حسب معمول اپنی سٹڈی میں جا کر لکھنے میں محو ہو گیا، میری بیوی خاموشی سے اندر آئی ’’ایک بری خبر ہے۔۔۔ حسین شاہد فوت ہو گیا ہے‘‘۔

حسین شاہد، پنجابی زبان کا ایک مہان لکھاری، کہانی کار، نقاد، شاعر۔۔۔ افضل احسن رندھاوا، انور علی، اکبر لاہوری اور نجم حسین سید کا ہم عصر اور ہم پلہ۔۔۔ اور اکثر اپنی پُراثر نثر سے بیشتر لکھاریوں سے برتر ہوتا۔۔۔ اردو اور پنجابی ادب سے دیوانگی کی حد تک جُڑا ہوا، ادب اُس کی زندگی تھا اور زندگی اُس کے لئے ادب کے سوا کچھ نہ تھی۔ وہ ادب کے لئے جیا اور ادب کے لئے مر گیا۔۔۔ ماں باپ نے اُس کا نام غلام حسین رکھا، شعور کو پہنچا تو اپنا نام حسین شاہد اختیار کر لیا کہ بقول اُس کے اُسے کسی کی بھی غلامی قبول نہ تھی، حسین کی بھی نہیں۔۔۔ اُس کی خصلت میں بغاوت اور احتجاج کی آتش بھڑکتی تھی۔۔۔ کسٹم کے محکمے میں نوکری مل گئی، بہت بااختیار اور راتوں رات آسودہ اور متمول کر دینے والی، بے شک ان دنوں ایک نیا ملامتی فیشن چل نکلا ہے، کسی کی تضحیک تصور ہو تو اُسے روشن خیال، لبرل یا سیکولر وغیرہ قرار دے کر خوب لعن طعن کی جاتی ہے لیکن اُن زمانوں میں جو بھی پڑھے لکھے اور باشعور تھے اُن میں سے بیشتر اسی لعنتی کیٹیگری میں آتے تھے۔۔۔

حسین شاہد بھی ان میں سے ایک تھا۔ وہ ایک تاریک خیال کیسے ہو سکتا تھا۔ چنانچہ کسٹم کے محکمے میں بااختیار ہونے کے باوجود اپنی روشن خیالی سے مجبور اُس نے تقریباً عُسرت کی زندگی بسر کی۔۔۔ میری اہلیہ میمونہ کے بھائی آفتاب، سفید ریش اتنے کہ اُن پر فادر کرسمس کا گمان ہوتا ہے۔۔۔ میں تو نہیں بہت سے لوگ اُن کی دعاؤں کی اثرانگیزی کے معترف ہیں، ایک مناسب صنعت کار بھی ہیں۔۔۔ شادی کے بعد جب اُنہیں معلوم ہوا کہ حسین شاہد میرے عزیز دوستوں میں سے ہیں تو قدرے حیران ہوئے، شاہد صاحب میری فیکٹری میں کسٹم قوانین کی پابندی کے حوالے سے آتے تھے، چائے کا ایک کپ بھی نہیں پیتے تھے۔ اُن جیسے ایماندار شخص ایسے محکمے میں کم ہوتے ہیں۔ یہ وہ زمانے تھے جب مجھے اور فخر زمان کو گمان تک نہ تھا کہ یہ لکھنا لکھانا کیا ہوتا ہے، ادب تخلیق کرنا کس چڑیا کا نام ہے جب حسین شاہد ایک کہانی کار کے طور پر مانا جا چکا تھا۔۔۔ وہ میرا راہنما بھی ہوا، مجھے احمد ندیم قاسمی تک لے گیا ’’فنون‘‘ کیا ہے ’’اوراق‘‘ کہاں ہے یہ حسین شاہد نے مجھے بتایا۔۔۔ وہ مجھے ادب کی گلیوں میں لے کر گیا۔۔۔ فخر زمان نے اُس سے متاثر ہو کر پنجابی میں لکھنا شروع کیا۔ ہم دونوں مانیں یا نہ مانیں وہ ہمارا پِیر استاد تھا، اس لئے بھی کہ عمر میں وہ ہم سے سات آٹھ برس بڑاتھا۔

اُسے سٹیج اور فلم کی لَت بھی تھی۔۔۔ ’’امروز‘‘ کے عزیز اثری جو ایک اور ترقی پسند صحافی تھے اور خاصے غریب تھے۔۔۔ اُنہوں نے بچوں کے لئے ایک یادگار ناول ’’عالی پر کیا گزری‘‘ لکھا۔۔۔ وہ بچوں کے بارے میں ایک فلم بنانا چاہتے تھے، اُن کے بہت سے خواب تھے اور حسین شاہد کے بھی کچھ خواب تھے چنانچہ اُس نے اپنی کُل جمع پونجی اس فلم پروجیکٹ کے داؤ پر لگا دی۔۔۔ عزیز اثری اور حسین شاہد کے درمیان جو رسمی معاہدہ ہوا، گواہ کے طور پر اُس پر میرے دستخط تھے۔ فلم کا یہ خواب فلاپ ہو گیا اور عزیز اثری اور حسین شاہد مزید کنگال ہو گئے۔ ازاں بعد فخر زمان جب خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے میں ایک افسر ہوا تو اُس نے باغ جناح کے اوپن ایئر تھیٹر میں خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لئے ایک ڈرامے کا اہتمام کیا جس میں بصد شوق حسین شاہد نے شاید ایک بوڑھے حکیم کا کردار ادا کیا اور ناظرین نے خوب داد دی۔

حسین شاہد، مجھے اور فخر کو اپنے محبوب قرار دیتا تھا لیکن ہمیشہ کہتا تھا ’’تم نمبڑ وَن ہو‘‘

پھر سیالکوٹ کے ایک بہت بڑے صنعت کار نے اُس کی ایمانداری سے متاثر ہو کر پیشکش کی۔۔۔ کسٹم کی نوکری دفع کرو۔۔۔ ایران اور یورپ میں میری سرجیکل اوزار کی کمپنی کے نمائندہ ہو جاؤ۔
حسین شاہد نے بہت برس ایران میں گزارے اور ایک پُرتاثیر اردو سفرنامہ ’’گرتے پتّے‘‘ لکھا۔۔۔ پھر یورپ کوچ کر گیا اور بقیہ زندگی ہالینڈ میں بسر کی ۔۔۔ ایک آسودہ نہیں، بمشکل گزراوقات کرنے والی، اولڈ ایج پنشن پر گزارہ کرنے والی زندگی لیکن وہاں ایک خاتون اُس کی گرویدہ ہوئی، اُس نے اپنے آپ کو حسین شاہد کے لئے وقف کر دیا۔۔۔ اُن زمانوں میں حسین شاہد نے سب رابطے اور سب رشتے اور ساری دوستیاں منقطع کر دیں، صرف قلم کے ساتھ رشتہ استوار رکھا۔۔۔ اُس کے اندر ایک کڑواہٹ اور بیزاری نے جنم لیا۔ اُس کی کسی نے کچھ قدر نہ کی تھی۔۔۔ مسخرے شاعر اور سرکاری دانشور راج کرتے تھے۔۔۔ جب آج کے سیکرٹری امورِ خارجہ اعزاز چوہدری نے ہالینڈ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت میں مجھے وہاں مدعو کیا تو میں نے پہلا ٹیلی فون حسین شاہد کو کیا۔ وہ بیمار تھا مجھ سے ملنے کے لئے ہیگ نہ آ سکتا تھا۔۔۔ اور اُس نے کچھ اشتیاق بھی ظاہر نہ کیا کہ تم مجھ سے آ ملو۔

تقریباً تیرہ ماہ پیشتر وہ پاکستان آ گیا۔ اُس کی مہربان خاتون کو کینسر ہو گیا تو وہ حسین شاہد کے بارے میں فکر مند ہو گئی کہ میری موت کے بعد اس کی دیکھ بھال کون کرے گا۔۔۔ اُسے واپس پاکستان بھیج دیا اور دوچار ماہ کے بعد مر گئی۔۔۔ وہ گلبرگ والے گھر میں ٹٹولتا، بھٹکتا، مجھ سے ملنے کے لئے آ گیا کہ اُس کی بینائی کم ہو رہی تھی اور وہ نابینا ہو رہا تھا۔

’’تم اب بھی میرے نمبڑ وَن ہو‘‘ وہ مسکرا رہا تھا ’’مجھے دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔ صرف ہیولے سے آنکھوں میں سیاہ تصویریں ہوتے ہیں‘‘۔

اُس کی بیٹی مُنتہا اور داماد آرکی ٹیکٹ افضال نے اُس کا بہت خیال رکھا۔۔۔ اُس کی بیوی صفیہ نے بھی اُس کے سب گناہوں کو معاف کر دیا۔۔۔ میں نے ایک دوپہر اُس کے ساتھ گزاری ’’سب چلے گئے ہیں، میرے سارے یار اور دلدار چلے گئے ہیں، حمید اختر، شفقت تنویر مرزا، انور علی، سبط الحسن ضیغم، سب کے سب۔۔۔ میں بھی جانا چاہتا ہوں‘‘۔

’’ایک بُری خبر ہے۔۔۔ حسین شاہد فوت ہو گیا ہے‘‘
’’جنازہ کتنے بجے اُٹھے گا‘‘
’’وہ اٹھ چکا۔۔۔ ‘‘میری بیوی نے کہا‘‘ آج دوپہر اُس کو دفن کر دیا گیا‘‘

ہیلو حسین شاہد۔۔۔ جو تم کبھی کسی کے غلام نہ ہوئے، کیا تم سُن رہے ہو۔۔۔ اگر سُن رہے ہو تو عبداللہ حسین اور انتظار حسین کی مانند تم جواب کیوں نہیں دیتے کہ تم بھی تو ایک حسین تھے۔۔۔ حسین شاہد!

April 19, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar