عارف خٹک متعصب شخص نہیں ہے


عارف خٹک کے پارا چنار پر مضامین پر جس طرح سے انہیں مطعون کیا جا رہا ہے اور ذاتی حملے کیے جا رہے ہیں وہ مناسب نہیں ہے۔ یہ عدم برداشت کے اسی سلسلے کی کڑی ہے جس نے ہمارے ملک میں زندگی کو ارزاں کر دیا ہے اور اپنی بات کہنا ناممکن بنا دیا ہے۔ فریق مخالف کی بات اگر مزاج کو ناگوار گزر رہی ہے تو اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اگر بہت ہی غلط لکھا ہے تو پھر آپ اس کی تحریر میں موجود سقم کی نشاندہی کر کے تاریخ درست کر دیں۔ مگر یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ رائٹر کے خلاف ایک منظم مہم چلا دی جائے اور اسے غلط القاب سے یاد کیا جائے۔

کیا ہمارے لئے یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ تمام تر دیانت داری کے باوجود ایک لکھاری کی معلومات غلط بھی ہو سکتی ہیں جن کی جھلک اس کی تحریر میں آ سکتی ہے۔ سو فیصد درست معلومات کا حصول وحی الہی کے بغیر ناممکن سمجھا جانا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ہم جس کتاب یا جریدے یا معتبر شخصیت کے توسط سے معلومات حاصل کر رہے ہوں، اس میں بھی کوئی غلطی ہو اور یہ ماخذ اپنے تئیں تو درست بات بتا رہا ہو مگر درحقیقت اس میں اشتباہ کا پہلو موجود ہو۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جو اس نے لکھا ہو وہ درست ہو لیکن ہماری اپنی معلومات غلط ہوں اور اس وجہ سے ہمیں یہ تحریر جھوٹ لگتی ہو۔

آپ کو اس تحریر نے اتنا پریشان کر دیا ہے تو اس کا جواب لکھیں اور فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑ دیں کہ کون ٹھیک لکھ رہا ہے اور کون غلط ۔ لیکن یہ بات بھی سوچنی چاہیے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کی اپنی تحریر میں بھی واقعاتی غلطیاں موجود ہوں؟ کیا اعتراض کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ معصوم من الخطا ہیں؟ عارف خٹک کی تحریر سو فیصد نہ سہی، نوے فیصد تو درست ہو گی؟ یا ایسا بھی نہیں ہے؟

عارف خٹک نے پارا چنار کی تاریخ کے بارے میں لکھا ہے۔ ہمارا اس موضوع پر اتنا علم نہیں ہے کہ جانچ سکیں کہ وہ غلط کہہ رہا ہے یا درست۔ اسی وجہ سے پارا چنار میں پے در پے ہونے والی خونریزی پر غمزدہ ہونے کے باوجود ہم نے اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس پر کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ کے قتل عام پر ہم نے لکھا ہے۔ جنوری کی یخ بستہ رات میں کھلے آسمان کے نیچے ہزارہ برادری کے خاموش احتجاج کو کون صاحب دل فراموش کر سکتا ہے جبکہ اس میں وہ دو معصوم بچیاں بھی شامل ہوں جن کی تصویر کو ہم نے اس وقت سے اپنے پاس محفوظ کر رکھا ہے اور کوئٹہ کے ہر سانحے پر اسے دیکھتے ہیں۔ ان بچیوں کے دکھ میں شامل ہونے کے لئے ہمیں بہت زیادہ معلومات کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پارا چنار کا معاملہ ہمیں کسی وجہ سے پیچیدہ محسوس ہوتا ہے اور ہم یہی مناسب سمجھتے ہیں کہ اس پر اس علاقے کا حال جاننے والے مصنف ہی قلم اٹھائیں تو تحریر کے ساتھ انصاف ہو گا اور درست صورت حال سامنے آئے گی۔

ہر انسان کی ظالمانہ موت پر ہم غمزدہ ہوتے ہیں۔ پیرس اور لندن کی دہشت گردی تک پر ہم نے دکھ محسوس کیا ہے تو اپنے وطن میں ہونے والی ہر موت پر کیوں نہ ہو گا۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں خواہ شیعہ مرے یا سنی، مسلم مرے یا غیر مسلم، اس کے پسماندگان کا دکھ ہمارا اپنا دکھ ہے۔ وہ سب سے پہلے ایک انسان اور پھر پاکستانی ہیں۔ ان مظلوموں کی موت کو مسلک اور عقیدے کی عینک سے دیکھنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔

عارف خٹک ہم سے الگ تو نہیں ہے۔ وہ ہم جیسا ہی ہے۔ وہ ان موتوں پر غمزدہ کیوں نہیں ہو گا؟ وہ اپنی بساط اور معلومات کے مطابق تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پارا چنار کی اس دہشت گردی کی کیا وجہ ہے۔ اگر آپ کا اعتراض یہ ہے کہ ایک بڑی فین فالوونگ رکھنے والا شخص غلط تاریخ لکھ رہا ہے، تو بات وہی آ جاتی ہے کہ وہ اپنی معلومات کے مطابق لکھ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی معلومات درست ہوں اور ہماری غلط ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔ اسے جتنا علم ہے وہ لکھ رہا ہے۔ کیا آپ اس کی آزادی اظہار کو سلب کرنا چاہتے ہیں؟ جہاں تک فین فالوونگ کی بات ہے، تو وہ کسی سبب سے ہی بنی ہو گی۔ عارف خٹک میں کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ اس کی اتنی بڑی فین فالوونگ ہے۔ آخر آپ جیسے عظیم آدمی بھی تو اسے پڑھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اگر وہ اتنا ہی کچرا ہوتا تو اسے پڑھنے والوں میں آپ کا نام تو نہ ہوتا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ناشائستہ الفاظ استعمال کرنے والے اپنے بڑوں اور اساتذہ کے نام کو ہی بٹہ لگاتے ہیں۔

عارف خٹک سب کچھ ہو سکتا ہے مگر وہ متعصب شخص نہیں ہے۔ اس کی سیریز مکمل ہونے دیں۔ اس کے بعد اس کی تعریف کریں یا اس کا رد لکھ کر اس کی غلطیاں آشکار کر دیں۔ مگر اختلاف مہذب رہ کر کریں تو آپ کے اپنے شخصی تاثر کے لئے مناسب ہو گا۔ انجیل مقدس میں مرقوم ہے کہ جو تلوار کے بل پر جیتا ہے وہ تلوار کے گھاٹ اترتا ہے۔ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جو کیچڑ اچھالتا ہے وہ خود کیچڑ میں لت پت ہو جاتا ہے۔

عارف خٹک کی تحریر پڑھ کر اور سوشل میڈیا پر بعض لڑاکا فطرت افراد کے ساتھ اس کا رویہ دیکھ کر ہمیں ایک طویل عرصے تک یہی گمان رہا تھا کہ وہ ایک اکھڑ اور مغرور انسان ہے۔ لاہور میں ایک پانچ منٹ کی ملاقات ہوئی۔ ہمارا گمان تھا کہ خود کو ’ہم سب‘ کی حریف ویب سائٹ سمجھنے والوں کا ایک اہم رائٹر ہونے کی وجہ سے وہ کچھ اکھڑ پن کا مظاہرہ کرے گا۔ اپنے غلط تاثر پر بجز شرمندگی کے ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ کیا ہی لاجواب شخص ہے۔ وہ اتھلی شخصیت والا انسان نہیں ہے۔  سراپا انکسار، مجسم محبت، بات کہے تو لبوں سے پھول جھڑیں، گلے لگے تو ایسے جیسے اپنے سگے بھائی سے مل رہا ہو، تبادلہ خیال کرے تو علم ہو کہ اس نے کابل سے کراچی تک ہر خطے کا پانی پیا ہے اور وہاں کے بابوں کی دانش سے خوشہ چینی کی ہے۔

اور آپ مجھے یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عارف خٹک ایک متعصب اور جاہل شخص ہے؟

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar