کوئی بھی پاکستانی جاہل اور جنونی نہیں ہو سکتا


یہود و نصاری کی جانب سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک پاکستانی خواہ ان پڑھ ہو یا پی ایچ ڈی، عمومی معاشرتی رویے میں وہ جہالت کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتا ہے۔ صیہونی میڈیا کے زیر اثر ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے کہ سڑک پر مہنگی ترین گاڑی بھی اسی بدنظمی سے چلتی ہے جس طرح پیدل شخص اور اپنے تین سیکنڈ بچانے کی دھن میں دوسرے کا راستہ ایسے روکتے ہیں کہ تین گھنٹے کے لئے ٹریفک جام کر ڈالتے ہیں۔ کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو محض تماش بینی کی خاطر ارد گرد مجمع لگا کر ریسکیو کی کوششوں میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ جون میں عید کے دن بپھری لہروں سے جان کے خطرے کے سبب سمندر میں نہانے پر پابندی ہے مگر لوگ سمندر میں نہا رہے ہیں۔ سڑکوں پر ایسے نوجوان بھی دکھائی دے رہے ہیں جو ون ویلنگ کر رہے ہیں اور دوسروں کی اور اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ میچ جیتنے پر یا خوشی کے موقعے پر بے تحاشا ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی زمینی جان چلی جاتی ہے۔ ہم آپ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ سب درحقیقت ہالی ووڈ کے فلمی سیٹ پر کی گئی فلمبندی ہے جس میں بھارتی باشندوں کو پاکستانی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی پاکستانی نام نمود وغیرہ کے لئے ایسی بہادرانہ جہالت دکھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ یہ تو محض حب الوطنی دکھانے کی خاطر اپنا سر ہتھیلی پر رکھنے کا جذبہ ہے جو یہ کام کراتا ہے تاکہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہم سے خوف کھا کر اپنی اوقات میں رہے۔

مغربی میڈیا میں اتنی شدت سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پاکستانی افراد آسانی سے جنونیت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ خود ہمارے ہم وطن اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو مغربی میڈیا اچھالتا رہتا ہے جن میں ہجوم کے ہاتھوں کسی معصوم کے بے رحمانہ قتل کو یوں پیش کیا جاتا ہے جیسے پاکستانی تو جنون کا شکار ہونے کو تلے بیٹھے ہوتے ہیں اور اپنے ہاتھ میں قانون لیتے ہوئے حقیقت جانے بغیر انسانی زندگی لے لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو پولیس کی موجودگی میں جس بے رحمی سے مارا گیا تھا وہ جنونیت کی ایک مثال ہے۔ گوجرانوالہ کے حافظ قرآن کو زندہ جلا ڈالنے کا واقعہ بھی ہمیں سنایا جاتا ہے۔ کوٹ رادھا کشن میں شہزاد اور شمع نامی جوڑے کو بے رحمی سے مارنے اور پھر اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دینے کا واقعہ بھی طعنے کے طور پر ہمیں سنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں مشال خان کو کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے پر بلاسفیمی کے جھوٹے الزام میں نہایت ہی بے رحمی سے قتل کر دینے کے واقعے کا ذکر کیا جانے لگا ہے۔ گوجرہ اور لاہور میں بادامی باغ کی مسیحی بستی جلا دینے کی بات بار بار سامنے لائی جاتی ہے۔ لاہور کے یوحنا آباد کی مسیحی بستی میں چند مسلم نوجوانوں کو زندہ جلا ڈالنے پر ہمیں مطعون کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کے بارے میں یہود و ہنود سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ کیا ان کے ممالک میں اتفاقی حادثات پیش نہیں آتے ہیں جو وہ پاکستانیوں پر جنونیت کا شکار ہونے کا الزام لگا رہے ہیں؟ ایسا تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ یا یہ بات غلط ہے؟

ہم نے اپنے ان تین مضامین میں یہود و ہنود و نصاری کے پاکستانیوں کو بدنام کرنے کی خاطر تسلسل سے کیے جانے والے بے بنیاد پروپیگنڈے کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کے ذہن میں اگر صیہونی میڈیا کے زیر اثر اگر کہیں شائبہ پیدا ہوا ہو گا تو وہ اب دور ہو گیا ہو گا اور آپ صدق دل سے یہ بات مان گئے ہوں گے کہ کوئی بھی پاکستانی لالچی، کرپٹ اور جاہل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہم حقیقی زندگی میں انہیں اپنے ارد گرد پاتے ہیں۔


اسی بارے میں
کوئی بھی پاکستانی لالچی نہیں ہو سکتا
کوئی بھی پاکستانی کرپٹ نہیں ہو سکتا
کوئی بھی پاکستانی جاہل اور جنونی نہیں ہو سکتا

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments