کرن جوہر کی دو ناکام محبتیں


آخرکار آج میں آزاد محسوس کر رہا ہوں۔ میں ویسے بھی وہ آدمی نہیں بننا چاہتا جو اصولوں میں بندھا ہو، وہ کوئی بھی اصول ہوں، اخلاقی، حقیقی یا معاشرتی مجھے ان میں گرفتار رہنا پسند نہیں ہے۔ صرف ایک معاملے پر میں ہمیشہ سختی سے خاموش رہنا پسند کرتا ہوں، وہ جنس کے متعلق میری ترجیحات کا معاملہ ہے۔ کیونکہ یہ میری ذاتی بات ہے۔ میں اس بارے میں کچھ بھی کہنا پسند نہیں کرتا۔ میری ذاتیات سے متعلق یہ واحد بات ہے جو مجھے یہ احساس دلاتی ہے کہ میں ایک پنجرے میں بند ہوں۔ اس کے علاوہ سب اوکے کی رپورٹ ہے۔

میں چوالیس سال کا ہوں اور نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔ نئے لوگوں سے ملنے کو تیار ہوں۔ بہت سی فضول چیزیں میں اپنی زندگی سے نکال سکتا ہوں۔ میں جب اپنے دفتر آتا ہوں تو میں بہت سے نئے کام لگاتار کر رہا ہوتا ہوں۔ مجھے بہت سی کامیابیاں ملیں لیکن یہ سب ایک دم نہیں ہو گیا، یہاں تک پہنچنے میں میری ساری زندگی لگی ہے۔

پچھلے دنوں کسی نے مجھ سے “اے دل ہے مشکل” کے بارے میں پوچھا تھا۔ میں سچ بولنا چاہتا تھا۔ یہ میری کہانی تھی۔ میری زندگی میں دو تکلیف دہ محبتیں آئیں، ایک جب میں عمر کے بیسویں برسوں میں تھا اور دوسری تیس کے آس پاس۔ جب میں نے کسی کو چاہا اور جواب میں مجھے پیار نہیں ملا۔ مجھے یاد ہے یہ کتنا تکلیف دہ تجربہ تھا۔ دانت کے درد سے بھی زیادہ اذیت ناک معاملہ تھا۔ اس سے بھی زیادہ برا کہ کسی کو برین ٹیومر ہو جائے۔ کوئی کہتا تھا یہ اینزائٹی ہے، کسی کو سانس کی خرابی لگتی تھی، لیکن بس یہ سب ایسا ہی تھا۔

دوسری مرتبہ یہ سب میرے ساتھ ہوا تو میں ایک سائیکیٹرسٹ کے پاس گیا اور باقاعدہ کچھ ماہ تک علاج کروایا۔ مجھے باقاعدہ ڈپریشن کے دورے پڑا کرتے تھے۔ اس زمانے میں پروفیشنل طور پر تو میری بہت ترقی ہو رہی تھی لیکن اس کے بھی اپنے مسائل تھے، چھتیس قسم کے تحفظات تھے، تو خالی باتوں سے، سپیچ تھیریپی سے کام نہیں بن رہا تھا۔ دوائیں میرے علاج کا حصہ بنیں اور کافی عرصے ڈاکٹر نے مجھے زیر نگرانی رکھا۔ پھر بعد میں آہستہ آہستہ ان سے میری جان چھوٹی۔

محبت ایک لطیف جذبہ ہے لیکن اس سے جان چھڑانے کو میں ہر ممکن کوشش پر مجبور تھا۔ میں اسے عقل کی کسوٹی پر بھی پرکھتا تھا، میں نے دوستوں سے سب کچھ شئیر کرنے کی بھی کوشش کی لیکن سب یہی کہتے تھے کہ میں احمق ہوں، بے وقوف ہوں، چغد ہوں یا نرا بے عقل ہوں۔ لیکن گزرنے والا ہی جانتا ہے کہ وہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔ جو واحد چیز اس محبت کے ہونے سے مجھے محسوس ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ میں زندہ ہوں۔ مجھے ان برسوں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے (بلکہ انہی کی وجہ سے میری ایک فلم بھی بن گئی)۔ اس فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے، “ایک طرفہ پیار کی طاقت ہی کچھ اور ہوتی ہے، اور رشتوں کی طرح یہ دو لوگوں میں نہیں بنٹتا” میں اس بات پر شدید یقین رکھتا ہوں۔ وہ میری محبت کی طاقت تھی۔ کسی سے پیار کا جذبہ ایسا طاقتور ہوتا ہے کہ اگر آپ کو جواب میں محبت نہ ملے تب بھی اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ ایک کمزوری بھی ہو سکتا ہے، اسے طاقت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کس نظر سے اسے دیکھتے ہیں۔

میں اپنے اس پیار کو ایک طاقت کے طور پر محسوس کرتا ہوں۔ اس سے مجھے انجانی سی توانائی ملتی ہے۔ ہاں میں بہت شدید ہرٹ ہوا تھا، میرا دل توڑا گیا لیکن اس سے بھی میں مزید مضبوط ہوا۔ مجھے زندگی کا احساس ہوا۔ مجھے کوئی پچھتاوا ہرگز نہیں ہے۔ اور دکھ بھی مجھے اس لیے ہوا کیونکہ مجھے کہا گیا تھا کہ ہمارا تعلق ہمیشہ رہے گا، اس میں کوئی تیسرا نہیں آ سکتا لیکن کوئی آ گیا۔ ایک تیسرے بندے نے پورا منظر بدل دیا۔ ہر جوڑا اسی لیے ٹوٹتا ہے کیونکہ کوئی تیسرا موجود ہوتا ہے۔ بھائی بہن تک شادی کے بعد بدل جاتے ہیں کیونکہ زندگی میں تیسرا آ چکا ہوتا ہے۔

آج میں بہت زیادہ گھٹا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ اپنے اندر سمٹا ہوا سا، یہ عجیب سی بات ہے۔ میں جان محفل ہوا کرتا تھا اور آج مجھ سے زیادہ کم گو کوئی نہیں ہو گا۔ مجھے اپنے آس پاس شور اب بے معنی لگتا ہے۔ بہت زیادہ لوگوں والی پارٹیاں مجھے پسند نہیں رہیں۔ میں اگر جاتا ہوں تو اس لیے کہ مجھے جانا پڑتا ہے۔ بہت کم لوگ اب میرے دوست رہ گئے ہیں۔ میں کہیں جانے کے بجائے ٹیرس پر بیٹھ کر اپنے انہیں ایک دو دوستوں کے ساتھ وائن پینا اور اپنی زندگیاں ڈسکس کرنے کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ مجھے اب پارٹیوں میں توجہ کا مرکز ہونا کچھ اہم نہیں لگتا۔ میں بور ہو جاتا ہوں، یہ سب میں پندرہ برس سے کر رہا ہوں۔ آپ اسے ڈی ٹیچمینٹ کہہ لیں، آدم بیزاری کہہ لیں یا صرف آزادی کا نام دے دیں، اب تو ایسا ہی ہے۔

کام کی طرف یہ توجہ تب بھی ہوتی ہے جب آپ کے بچے نہ ہوں، بیوی نہ ہو یا کوئی رومانی زندگی نہ ہو۔ مجھے بار بار پوچھا جاتا ہے، کیا آپ سیکس کرتے ہیں؟ کسی نہ کسی طرح لوگ فلم انڈسٹری کا تعلق سیکس سے جوڑ لیتے ہیں۔ لیکن میں یہ سب چاہتا ہی نہیں ہوں۔ اصل میں مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ میں ان میں سے نہیں ہوں جن کی تفریح کا ذریعہ ہر رات سونے سے پہلے پورن فلمیں دیکھنا ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کیوں کہ میں سفر بہت کرتا ہوں اس لیے مجھے سیکس کے بے شمار مواقع ملتے ہوں گے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ایک بورڈنگ پاس کوئی فری سیکس پاس نہیں ہوتا۔ مجھے اب کسی سے محبت نہیں رہی۔ میں محبت اور سیکس جیسے جذبات کھو چکا ہوں۔ میں اب کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہوں اور یہ طاقت مجھے میری ماں نے دی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں ان کے سامنے بھی جوابدہ نہیں ہوں۔ اب میں کسی کو بھی “نہ” کا لفظ بہت آسانی سے بول سکتا ہوں، بہت ہی زیادہ آرام سے اور “ہاں” کہنا اب میرے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا کبھی “نہ” کہنا تھا۔ اب کسی کو خوش رکھنے کی ضرورت باقی نہیں نظر آتی۔

تو اب میں ہوں کہاں؟ جیسا میں نے پہلے لکھا آزاد اور خوش ۔۔۔ اور باقی آدھی زندگی کے لیے تیار ۔۔۔ کچھ باتیں ضروری ہیں، کیا میں شادی کروں گا؟ نہیں، کیا میں کبھی اس ملک سے باہر جاؤں گا؟ نہیں، کیا میں اکیلا رہ جاؤں گا؟ شاید ہاں، بہت سی چیزیں واضح نہیں ہیں لیکن بہرحال میں خود دیکھ سکتا ہوں کہ کیا ہو گا۔ کیا کوئی میری زندگی میں آئے گا اور میرے پاؤں ناچتے ناچتے دھرتی سے دوبارہ اٹھ جائیں، کیا مجھے پھر سے محبت ہو گی؟ معلوم نہیں، شاید یہ ہو سکتا ہو، حالانکہ اب میں بہت خبطی ہو چکا ہوں اور ایسا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ مجھے اب زیادہ تر لوگ برے لگتے ہیں اور میں کسی سے اپنا بیڈروم شئیر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب تو کوئی آ بھی گیا تو ہمیں شاید سونے کے لیے دو بیڈرومز کی ضرورت ہو۔ اور ہاں، میں کسی کے کمرے میں شفٹ نہیں ہونے والا، جسے آنا ہو گا یہیں آئےاور ویسے ہی رہنا ہو گا جیسے میں چاہوں گا۔ کیا میں پیسے کے بل پر رفاقت کا آرزو مند ہوں گا؟ شاید، بھئی مجھے اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیا میں دوبارہ اسی شدت سے کسی کو چاہ سکوں گا؟ نہ، یہ ممکن نہیں ہے۔ میں اب کافی عمر گزار چکا، پیار محبت کے کھیل مجھے پسند ہیں لیکن اب ان میں کوئی کشش باقی نہیں رہ گئی۔ ویسے بھی مجھے لگتا ہے اس شدت سے آپ ایک دو بار ہی کسی کو چاہ سکتے ہیں اس سے زیادہ ایک زندگی میں ناممکن ہے۔ تیسری بار اگر کچھ ہو تو نری شادی ہوتی ہے۔

میں تو اب ٹیکسٹ میسجز کا جواب دینے میں بھی انتہائی کاہل ہو چکا ہوں۔ ایک زمانے میں یہ سب کام پھرتیوں سے کرتا تھا۔ اب تو دل کرتا ہے کہ اپنا نمبر ہی بدل لوں۔ ویسے مجھے لگتا ہے پچاس کا ہونے تک میں بالکل سٹھیا جاؤں گا، ایک دم اکیلا رہ چکا ہوں گا، اور یہ میرے اپنے لیے بھی کافی تکلیف دہ ہو گا۔

مجھے لگتا ہے میرے لیے زندگی کے اگلے مرحلے کا ایک دروازہ کھل رہا ہے اور میں اس میں داخل ہو رہا ہوں۔ وہاں کافی ہلچل ہو گی، بہت زیادہ ڈرامائی موڑ ہوں گے لیکن وہاں خاموشی بھی ہو گی، خاموشی جسے میں انجوائے کروں گا!

این ان سوٹیبل بوائے، کرن جوہر

دیباچے کی تلخیص و ترجمہ، حسنین جمال

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain