ڈی ایچ اے، لاہور میں آنگن کی تلاش


یہ بات ہے 2010کی کہ جب پاکستان کے سب سے بڑے ہاؤسنگ ڈویلپر نے ڈی ایچ اے سٹی کے نام سے لاہور میں ایک سکیم کا آغار کیا۔ ساکھ پر اعتبار تھا لہذا ہم نے اس میں دس مرلے کے پلاٹ کے لئے اپلائی کردیا۔ کنفرمڈ بکنک کرانے پر یکمشت کم و بیش چھ لاکھ ڈی ایچ اے کے حوالے کردئے اور سوچا کہ اب اپنا گھر چند سال کی دوری پر ہے۔

ڈی ایچ اے نے اب تک سوسائیٹی کی جگہ مختص نہ کی تھی، فقط اتنا بتایا کہ لاہور میں EMEسیکٹر کے تین کلومیٹر کے مدار میں سوسائیٹی بنائی جا رہی ہے، خیر چونکہ یقین تھا کہ ڈویلپر کوئی غیر مقبول نام نہیں لہذا اقساط باقائدگی سے ادا کرتے رہے اور پھر 2014میں وہ دن بھی آیا کہ جب پلاٹ کی قیمت مکمل ادا کردی گئی۔

اب بھی ڈی ایچ اے نے کوئی زمین مختص نہ کی مگر مرتے کیا نہ کرتے پندرہ ہزار سے زائد فائل ہولڈر ساکھ پر اعتبار کرتے ہوئے یہ آس لئے بیٹھے رہے کہ پلاٹ جلد ان کے حوالے کئے جائیں گے۔

مگرپھر ایک دن فائل ہولڈر تک یہ ہولناک خبر پہنچی کے ان کی تمام رقم جو انہوں نے ڈی ایچ اے کے حوالے کی تھی کے عوض ان کو پلاٹ نہیں مل سکتا۔

بد ترین نا اہلی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ڈی ایچ اے نے ایک کنٹریکٹر کو زمین خریدنے کے لئے رقم آگے ٹرانسفر کردی تھی، مگر اس تیسرے فریق نے ڈی ایچ اے سے غبن کر لیا لہذا اب فائل ہولڈر کہ جنہوں نے پانچ مرلے کے عوض دس لاکھ، دس مرلے کے عوض بیس لاکھ اور ایک کنال کے عوض سینتیس لاکھ ڈی ایچ اے کو دیا تھا، اپنے پلاٹ کے لئے غیر معینہ مدت تک انتظار فرمائیں۔

جب متاثرین نے ڈی ایچ اے سے مطالبہ کرنا چاہا کہ ان کے پلاٹ وعدے کے مطابق فراہم کئے جائیں تو انتظامیہ نے کندھے اچکائے اور کہا: ہم تو خود لٹ گئے ہیں اور نیب میں تیسرے فریق،حماد ارشد کے خلاف درخواست گزار بن کر گئے ہیں۔

سوال کئی ہیں مگر جواب ندارد، کیا ڈی ایچ اے اتنا معصوم ہے کہ ایک سویلین اسے پندرہ ارب کا دھوکہ دے گیا۔

کیا ڈی ایچ اے نے سکیم کے اجراءکے وقت عوام کو یہ بتایا کہ سکیم تیسرے فریق کی مدد سے بنائی جا رہی ہے، لہذا صرف ڈی ایچ اے کی ساکھ پر اعتبا ر نہ کیا جائے

سکیم 2010میں شروع ہوئی اور ڈی ایچ اے نے عوام کے پیسے کا استعمال کیا مگر تا حال ایک انچ زمین بھی فراہم نہ کی گئی

عوام الناس نے ڈی ایچ اے کی ساکھ پر اعتبا ر کیا، انہیں ڈی ایچ اے کی اگلے فریق سے معاملات سے کیا غرض

سات سال ہونے کو ہیں مگر فائل ہولڈر کو کسی قسم کا ریلیف فراہم نہیں کیا گیا، حتی کہ اب بھی ایک انچ زمین کا قطعہ روئے زمین پر موجود نہیں

ڈی ایچ اے ایک طرف تو ایک سویلین سے لٹنے کا ڈرامہ کر رہا ہے مگر دوسری جانب ملتان اور بہاولپور میں نئے فیز کا اغاز کر رہا ہے۔

ان سب باتوں کے علاوہ ایک خوفناک حقیقت یہ ہے کہ اس سکیم میں شہداءکے خاندانوں کے لئے بھی پلاٹ مختص تھے، وہ بھی فراہم نہیں کئے گئے۔

عوام جو پہلے ہی مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں مارے ہوئے ہیں جب ایسی نا انصافی دیکھتے ہیں تو کئی سوال پوچھتے ہیں مگر جواب ندارد

کیا ان کیڑے مکوڑوں کی اتنی اوقات ہے کہ ان سے پیسے لے کے کسی نا قابل اعتبا ر شخص کے حوالے کر دئے جائیں اور انہیں کہا جائے کہ اب چونکہ غبن ڈی ایچ اے کے ساتھ ہوگیا ہے لہذا پلاٹ کو بھول جائیں، اس پر طرہ یہ کہ ملتان اور بہاولپور میں نئے فیز، متاثرین کو منہ چڑائیں۔

سوال کئی ہیں مگر جواب ندارد

کیا رقم کی موجودگی بھی اب پاکستان میں گھر بنانے کی ضمانت نہیں اور کیا ڈی ایچ اے سے زیادہ قابل اعتبارادارہ موجود ہے، نہیں مگر اب یہ اعتبار بھی چھلنی ہورہا ہے۔ کیس جس نیب کے حوالے ہے اس سے امید رکھنے کے لئے اپنی تمام تر عقل و دانائی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).