کتے چلے گئے، ہم پارٹی کررہے ہیں!


ایک اچھی لڑکی نے میرے چھوٹے بھائی کو تلاش کرلیا، انہوں‌ نے شادی کرلی اور گھر خرید لیا ہماری خوش نصیبی ہے۔ پہلے ان کے گھر گئی، بہت خوبصورت اچھا گھر۔ میرے دونوں‌ بچے بہت خوش ہوئے کہ ماموں‌ کے نئے گھر میں‌ سوئمنگ پول ہے، دونوں‌ نے جاتے ہی اس میں‌ چھلانگ ماردی۔ میرے دونوں‌ بچے مچھلی کی طرح‌ تیر سکتے ہیں، ان کو تین سال کی عمر سے سکھانا شروع کردیا تھا۔ کیا لڑکی دریا میں‌ گر گئی تو وہ نہیں‌ ڈوبے گی؟ لڑکیوں‌ کو بھی تیرنا آنا چاہئیے۔ پھر میں‌ امی کے گھر گئی تو وہ بڑی خوش نظر آرہی تھیں۔ کہنے لگیں، کتے چلے گئے، ہم پارٹی کررہے ہیں۔ میرا زور کا قہقہہ نکل گیا۔

میری امی کتوں‌ سے بہت ڈرتی ہیں۔ آنکھیں‌ بند کرلیں گی اور مٹھیاں بھینچ کر چلائیں‌ گی کہ کتا مجھ سے دور کرلو۔ سارے خاندان میں ملا کر پانچ کتے ہیں، ایک ہمارا، دو میری بہن کے اور دو میرے بھائی کے۔ کتے بھی ہمارے بچوں‌ جیسے ہیں، معصوم اور وفادار۔ ان کی ذہانت دو سال کے بچے کے برابر ہوتی ہے اور وہ دو سو الفاظ سیکھ سکتے ہیں۔ میں‌ نے کہا آپ کیسی امی ہیں، لڑکی بیٹا لے گئی اور آپ پارٹی کررہی‌ ہیں؟ کسی اور دیسی گھر میں‌ تو بالی وڈ مووی کی طرح‌ سوگ پڑا ہوتا۔ نہیں‌ نہیں‌ ہم بڑے خوش ہیں۔ پھر کہنے لگیں، تم پیسے چھوڑ گئی تھیں ناں، ان سے یہ خریدا ہے، سیمسونائٹ کا سفید پہیوں‌ والا بیگ۔ یہ لے کر میں‌ کازمیل میکسیکو جاؤں‌ گی۔ وہاں‌ ہم ساحل پر گھومیں گے۔ اور فلانے ڈیزائنر کے کپڑے نکلے ہیں، میں‌ وزن کم کروں‌ گی پھر وہ خرید کر پہنوں‌ گی۔ امی کی اسٹوری میں‌ یہ سبق ہے کہ جن لوگوں‌ کی اپنی زندگی ہوتی ہے جس میں‌ وہ خوش ہوں‌ تو وہ اپنے بچوں‌ کی زندگی خود گزارنے کی کوشش نہیں‌ کرتے۔

میری امی کی مثال ان آنٹیوں‌ کے لئے ہے جو نہ خود اپنے بچوں‌ کے بالوں‌ میں‌ سے نکلتی ہیں نہ ان کو اپنے بالوں‌ میں‌ سے نکلنے دیتی ہیں۔ آپ لوگ جئیں‌ اور جینے دیں۔ ہائی اسکول میں‌ جو انکل آپ کو پسند تھے ان کے ساتھ بھاگ جائیں۔ آپ کب تک ایسے معاشرے کا حصہ بنے رہیں‌ گے جس میں‌ بوڑھے جوانوں‌ کو اور جوان بوڑھوں‌ کو جینے نہیں‌ دے رہے۔ میں سمجھتی ہوں‌ کہ کچھ ساؤتھ ایشین کلچر ہے اور کافی ساری چیزیں‌ ہیں‌ جو ہزاروں سالوں‌ سے چلتی آرہی ہیں جن کا تعلق صرف تنخواہ سے ہے۔ ایک تھیوری ہے کہ ہمارے دادا پردادا کوئی فرشتے نہیں‌ تھے، اگر دادی پردادی کی اپنی نوکری اور گاڑی ہوتی تو وہ بھی دادا پردادا کو چھوڑ گئی ہوتیں۔ جیسے بیواؤں‌ کو آشرم میں‌ بھیجنا، بیواؤں‌ کو ستی کردینا، ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیوی ہونا اور ساس بہو اور بھابی نند کے جھگڑے، ان سب باتوں کا تعلق ان پیسوں‌ سے ہے جن سے آپ اپنے پیٹ بھر سکیں‌ اور اپنے بچے پال سکیں اور ان کو کالج بھیج سکیں۔

آج میری امی کو پتا ہے کہ ان کا اپنا گھر ہے اور پانچ کماؤ بچے ہیں، کل کی کوئی فکر نہیں‌ تو بیٹا قابو میں رکھنے کی یا مٹھی میں‌ رکھنے کی ان کو کوئی چنتا نہیں۔ اگر صرف یہی ایک لڑکا ہوتا اور ہم سب بہنیں‌ اپنی امی کے ساتھ اس پر بوجھ بنی ہوئی ہوتیں‌ تو شاید خاندان کی سیاست کا کچھ اور ڈھنگ ہوتا۔ اس طرح‌ کی زندگی ہمارے رشتے دار انڈیا میں‌ گزار رہے ہیں۔ آپ شاید پڑھیں اور آپ کو برا لگے لیکن یہی سچائی ہے اور یہی اصلی دنیا ہے۔ آپ لوگ اپنے حالات خود ٹھیک کریں اور وہ آپ کی سوچ سے شروع ہوگا۔ اپنے بیٹوں‌ پر آپ لوگوں‌ نے ان کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈالا ہوا ہے اور اپنی بیٹیوں‌ کو ان کی صلاحیتوں‌ کے ساتھ مقید کیا ہوا ہے۔ ہر فرد کا اپنے پیروں‌ پر کھڑا ہونا ضروری ہے۔ معلوم نہیں‌ آپ لوگ کیا سمجھ رہے ہیں‌ کہ کیا ہوجائے گا؟ لڑکی کسی کو پسند نہ کرلے اور ایسی ہی خرافات۔ ہمارے ہاں سب لڑکیوں‌ نے اپنی اپنی پسند سے شادیاں کی ہیں۔ کتنے لوگوں‌ نے کالوں، گوروں، میکسیکن، جاپانی اور انڈین لوگوں‌ سے شادیاں‌ کیں۔ کیا ہوا؟ کیا زمین رک گئی یا آسمان گر پڑا۔ ایسا کچھ نہیں‌ ہوتا۔ دنیا چلتی رہتی ہے۔

نذیر نے اپنے بھائی کو ڈاکٹر بنا دیا اور بھی بہت انہوں‌ نے اپنے خاندان کے لئے کیا۔ اگر میرے پاس اپنا کیرئیر اور پے چیک نہ ہوتا اور بے کار کی باتیں‌ سوچنے کے لئے ڈھیر سارا ٹائم بھی تو میں‌ بھی منگل کی دوپہریں‌ سوپ آپرا دیکھ کر گزارتی اور ہر وقت نظر رکھتی کہ نذیر نے اپنے خاندان کو کیا دے دیا جو میرے بچوں‌ کو یا مجھے دینا چاہئیے تھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں‌ بلکہ جب بھی ان کو اپنے خاندان سے ملنے جانا ہو تو میں‌ سب لڑکیوں‌ کے لئے وہ ساری چیزیں‌ بھیجتی ہوں‌ جن کی مجھے ان کی عمر میں‌ ضرورت تھی۔ ہر انسان کے تعلیم حاصل کرنے سے اور اپنے پیروں‌ پر کھڑے ہونے سے کس طرح معاشرتی اقدار بدل گئیں‌ اور ہم لوگ کس طرح‌ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ایک دوسرے کا بھلا چاہنے لگے وہ سمجھانا مشکل ہے۔

جب میرے انکل نے فون کرکے کہا کہ ان کے پڑوسی نے میری کزن کا رشتہ مانگا ہے اور وہ میکسیکن ہے تو میں‌ نے ان سے کہا کہ تو کیا ہوگیا کہ وہ میکسیکن ہے، اگر وہ ایک اچھا انسان ہے تو آپ کو ہاں‌ کہنی چاہیے۔ دیسی آنٹیاں‌ تو ویسے ہی مجھے کچھ کھسکی ہوئی لگتی ہیں، سب 16 سال کی ایشوریا رائے ڈھونڈ رہی ہیں جس نے ایم بی بی ایس کیا ہوا ہو اور صبح میں‌ ان کے لئے پھلکے پکائے۔ کزن کی شادی ہوئی بڑی دھوم دھام سے، ہم سب گئے۔ جب دیکھو تو وہ دنیا گھومنے نکلے ہوتے ہیں، کبھی کہیں کبھی کہیں۔ وہ ریکھا کی طرح پھولوں‌ میں‌ پوز مار کر بیٹھی تصویریں کھنچوا رہی ہوتی ہے۔ لوگ اتنی نسلوں‌ سے اپنے گرد دیواریں‌ بناتے رہے کہ ان کو پتا بھی نہیں چلا کہ کب ان دیواروں‌ نے ان کو اندر قیدی بنا لیا ہے اور باقی دنیا ان دیواروں کے باہر چل رہی ہے، گر رہی ہے، سنبھل رہی ہے، سیکھ رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے۔

بعض لوگ بارہ سال کے نارمل بچے مار کر پوچھتے ہیں‌ کہ اگر آپ کے بچے ایسا کرلیں تو؟ تو کیا بھئی، ان کو بتا دیا ہے کہ یہ سامنے والا دروازہ ہے، جو بھی آپ کو پسند ہو اس میں‌ سے اندر لاؤ اور ہمارے ساتھ مہذب انسانوں‌ کی طرح‌ ٹیبل پر بیٹھ کر ڈنر کرو۔ اس کے بعد ہماری جو بھی رائے ہو گی بتا دیں گے۔ 18 سال کی عمر تک جو بھی ویلیوز ہمیں‌ بتانی تھیں وہ بتا دیں، اب آپ بھی اس ملک کے ہمارے برابر کے شہری ہیں اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے حقدار ہیں۔ بیٹا جہاں رہو، خوش رہو، پوسٹ کارڈ بھیجتے رہنا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).