عمران خان کی اخلاقی اور نواز شریف کی قانونی فتح کا امکان


پاناما کیس میں عمران خان صاحب نے میاں نواز شریف صاحب کو ایک برس تک خوب رگیدا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کی قیادت کا ویسا ہی سیاسی امیج بن چکا ہے جو وہ بڑی محنت سے جناب آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دوسرے لیڈروں کا بناتی رہی ہے اور یوں عمران خان صاحب نے ایک بڑی سیاسی اور اخلاقی فتح حاصل کی ہے۔ مگر ہماری ناقص رائے میں حالات ایسے ہیں کہ قانونی فتح میاں نواز شریف صاحب ہی کی ہو گی اور وہ اپنی مدت پوری کریں گے۔

جناب نواز شریف کے سیاسی مخالفین نہایت شد و مد سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور اب دوبارہ نظریہ ضرورت کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ تاثر دینے والوں کو یہ جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت والا سپریم کورٹ دکھائی دیتا ہے یا موجودہ آزاد سپریم کورٹ؟ یہ تاثر بھی موجود ہے کہ دو ججوں نے تو صاف صاف چور قرار دے دیا ہے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد بقیہ تین کا بھی یہی فیصلہ ہو گا۔ مگر اس نظریے میں دو تین مسائل ہیں۔

پہلی بات یہ کہ کیا قانونی طور پر میاں نواز شریف صاحب کو ان کے والد کے کاروبار یا منی ٹریل سے لنک کیا جا سکتا ہے؟ چلیں ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی جائے مگر اس کے بعد چند مزید بڑے مسائل دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ایران، سعودی عرب، افغانستان اور انڈیا سے تعلقات نہایت پیچیدگی کا شکار ہیں۔ ادھر امریکہ میں صدر ٹرمپ کے متعلق کچھ پیش گوئی کرنا نہایت مشکل ہے کہ ان کی پاکستان کے متعلق خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔ جو آثار ابھی تک دکھائی دے رہے ہیں، وہ اچھے نہیں ہیں اور یہی لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ہماری بھارتی، افغان اور اب کچھ حد تک ایرانی سرحد بھی گرم ہے اور فوج کو دہشت گردی کے خلاف داخلی جنگ کے ساتھ ساتھ ان پر بھی توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی ہے۔

کیا ایسے میں واقعی یہ ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے مقبول ترین لیڈر کے خلاف کوئی ویسی کارروائی کرے جیسی کارروائیاں نوے کی دہائی میں کی جاتی رہی ہیں؟ ہماری رائے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو مزید خلفشار کا شکار کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔ اس اندازے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی ماضی کی شہرت ایک غیر سیاسی جنرل کی رہی ہے اور آرمی چیف بننے کے بعد سے بھی انہوں نے ملک کے سیاسی منظرنامے میں مداخلت کی کوشش نہیں کی ہے۔ حتی کہ ڈان لیکس والے معاملے میں بھی انہوں نے ٹویٹ واپس لینے کا جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے جو ’ایک غیر مقبول مگر درست فیصلہ‘ قرار پایا تھا۔

دوسری بات یہ کہ بفرض محال اس وقت مارشل لا لگ جاتا ہے تو خارجہ محاذ پر صورت حال کیا ہو گی؟ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تو میاں نواز شریف صاحب نے اپنے خاندان پر تمام تر سعودی احسانات کے باوجود معاملہ پارلیمان کے سپرد کر کے اپنی جان چھڑا لی تھی۔ مگر جب مطلق العنان جنرل پرویز مشرف حکمران تھے تو ان کے پاس ایسی کوئی آڑ نہیں تھی اور انہیں امریکی صدر بش کے مطالبے کو بغیر کسی حیل و حجت کے ماننا پڑا تھا۔ اب بین الاقوامی صورت حال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور ایسے میں ایک تجربہ کار سیاسی قیادت کی موجودگی پاکستان کے لئے ضروری ہے جو طریقے سے ”نہ“ کہہ سکے۔

میاں صاحب کی رخصتی کے بعد ایک تو ایسا سیاسی خلا پیدا ہو گا جو پر کرنے کے لئے کوئی دوسرا لیڈر موجود نہیں ہے، اور دوسرے نمبر پر ڈیڑھ کروڑ ووٹر اور ان کے اہل خانہ بھی شدید بے چینی کا شکار ہو سکتے ہیں اور ملکی داخلی صورت حال خراب ہونے کا خدشہ ہے جو نہ تو ملکی اور نہ ہی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لئے خوشگوار صورت حال ہو گی۔ فوج کا پاور بیس پنجاب ہے اور پنجاب کے ایک مقبول ترین لیڈر کو ہٹانے کی صورت میں اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں درکار عوامی سپورٹ سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف صاحب کو سازش کے ذریعے ہٹایا جانا مقصود ہوتا تو اس کام کے لئے چار برس انتظار نہ کیا جاتا بلکہ دو ڈھائی برس میں ہی یہ کام کر دیا جاتا۔ بفرض محال اب ان کو ہٹانا مقصود بھی ہوا تو چپ چاپ آئندہ مئی تک انتظار کر کے بیلٹ بکسوں کے کھیل کے ذریعے ان کو ہٹایا جانا زیادہ آسان ہو گا۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ الیکشن کے سال میں غیر جمہوری طریقے سے ہٹائے جانے سے زیادہ بڑی بھلائی میاں نواز شریف کے ساتھ کوئی دوسری نہیں ہو گی۔ وہ سیاسی شہید بن کر ووٹ مانگیں گے اور پائیں گے۔ ان کے چار برس کے تمام کرتوتوں کو یہ ایک غیر جمہوری قدم دھو ڈالے گا اور یوں وہ خود یا ان کے اہل خانہ میں سے کوئی دوسرا آئندہ پانچ برسوں کے لئے دوبارہ حکمران بن جائے گا۔ اگر نواز شریف صاحب کو سچ مچ پھنسانا مقصود ہوتا تو پاناما کی بجائے ماڈل ٹاؤن کیس یا اصغر خان کیس کی فائلیں نکالی جاتیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق اور اسحاق ڈار صاحبان کی پریشانیوں اور بدحواسیوں کو کیسے دیکھا جانا چاہیے؟ وہ کیوں ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جیسے وہ اب گئے کہ تب گئے؟ ہماری رائے میں مسلم لیگ کی قیادت کو اپنی بریت کا یقین ہے اور یہ حضرات صرف یہ تاثر دینے کے لئے ڈرامہ بازی کر رہے ہیں کہ ان کو جے آئی ٹی اور کورٹ نہایت مشکل سے دوچار کیے ہوئے ہیں تاکہ فیصلہ ان کے حق میں آنے کی صورت میں انہیں ایک اور دھرنے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب چار انتخابی حلقوں کے کیس میں ہمیں میڈیا یہ دکھا رہا تھا کہ ووٹوں کے تھیلے بری حالت میں ہیں، ان میں موجود فارمز کا معاملہ نہایت مشتبہ ہے اور عمران خان کی قانونی فتح یقینی ہے، تو کورٹ نے دستیاب حقائق کی روشنی میں چار حلقوں میں جو فیصلے کیے ان سے میاں نواز شریف کی قانونی اور عمران خان صاحب کی اخلاقی فتح ہی ہوئی ہے۔ پاناما کیس میں بھی یہی آثار دکھائی دے رہے ہیں۔

ویسے بفرض محال اگر میاں نواز شریف صاحب کی حکومت چلی بھی گئی تو عمران خان کو بھی نااہلی کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ غیر ملکی فنڈنگ وغیرہ کے کیس تو چلیں جیسے بھِی ہیں اور متعلقہ ادارے اس پر جو بھی فیصلہ دیتے ہیں، مگر امریکی عدالت میں ٹیریان وائٹ کے کیس کا فیصلہ ہی عمران خان کو باسٹھ تریسٹھ کی سولی پر چڑھا دے گا۔ اس صورت میں پھر سب ہمارے اگلے وزیراعظم جناب آصف علی زرداری صاحب کے استقبال کے لئے تیار رہیں۔ سیاسی لڑائی اگر سیاسی میدان میں نہ لڑی جائے تو ایک تیتر کی چونچ اور دوسرے کی دم چلی جاتی ہے اور فائدہ بلے کا ہوتا ہے۔

لیکن سپریم کورٹ کو اپنے تئیں ’ایک غیر مقبول مگر درست فیصلہ‘ کرنے کی صورت میں سوشل میڈیا پر اسی ردعمل کا شکار ہونے کے لئے تیار رہنا ہو گا جس کا سامنا جنرل قمر باجوہ کو کرنا پڑا تھا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar