سمجھ آتے آتے وقت لگتا ہے


چھوٹا تھا، کوئی تیسری جماعت میں پڑھتا تھا میں۔ ٹھیک سے یاد تو نہیں پر شاید تیسری جماعت کی ہی بات ہو گی۔ بابا نے پجارو لی تھی۔ بچپن حیدر آباد سے تیس کلو میٹر دور ٹنڈو محمد خان نامی قصبے نما شہر میں گزرا ہے۔ ا س دور میں ہمارے اس شہر میں شاید میرے والد صاحب کے پاس ہی یہ فائیو ڈور پجارو ہوا کرتی تھی۔ ہم تینوں بہن بھائی بڑے ٹھاٹ سے اس نئی فائیو ڈور پجارو میں صبح سویرے اسکول جایا کرتے تھے۔ غضب کی ٹھنڈ ہوا کرتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی انگلیوں میں موٹے دستانے، لیدر کی ٹوپی جو کان بھی ڈھانپ سکے اور اس کے ساتھ ہاتھ میں پکڑا ُبلا ہوا انڈا جو کہ میں اکثر گاڑی میں اس کے لیے کھاتا ہوا جاتا تھا کہ اکثر اسکول کے لیے تیار ہونے میں دیر کر دیا کرتا تھا، یا شاید جان بوجھ کر دیر کرتا تھا تاکہ ابلا ہوا انڈر گاڑی میں کھا سکوں۔ اب اس ابلے ہوئے انڈے کو گاڑی میں کھانے کی کیا منطق تھی یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا۔

اس دور کہ دھندلی یادوں میں اب بھی وہ سرد دھندلا راستہ یونہی یاد ہے، دھند سے ڈھکا سارا منظر، پیڑوں کے پتوں سے ٹپکتی شبنم، گیلی گھاس اور سانس لو تو منہ سے نکلتی ہوئی بھاپ جسے ہم دھواں کہا کرتے تھے۔ ماما گل، اللہ جنت نصیب کرے، ہمارے ڈرائیور بڑے پیارے انسان تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ہڈیاں بھی یوں چبا کر پلیٹ میں ڈالتے تھے کہ اگر ا ن کے کھانے کے بعد ان کی پلیٹ میری نظر کے سامنے آجائے تو میں یہ سمجھ کر ہڈیاں اُٹھا کر منہ میں ڈالنے لگتا کہ یہ کوئی نئی شکل کی سفید مٹھائی پلیٹ میں سجائی گئی ہے ۔ ابھی مٹھائی منہ میں جا ہی رہی ہوتی کہ ماسی بتول چیخ کر کہتیں تھوک، تھوک انہیں ہڈیاں ہیں ہڈیاں۔ ماما گل اکثر صبح سویرے ہمیں اسکول چھوڑنے سے پہلے ہم سب بچوں کی پلٹن کے ساتھ گاڑی میں ڈیزل ڈلواتے تھے۔ ان کی اس عادت سے میرے کچے پکے ذہن نے یہ بات طے کر لی کہ ہر پہیے والی گاڑی میں کوئی نہ کوئی چیز ایسی ضرور ڈلتی ہے جس سے پہیہ گھومے گا۔

کچھ عرصے بعد بابا نے ہم بہن بھائیوں کو سائیکلیں لے دیں۔ ملنے پر تو سائیکل مل گئی اور میں باقی بچوں کی طرح خوش بھی تھا۔ نئی عالی شان سہراب سائیکل۔ مگر ایک الجھن ذہن پر سوار ہوگئی۔ اس الجھن کی وجہ سے میں اپنے بھائی کے ساتھ سائیکل چلانے سے گریز کرتا۔ اکثر کپڑا لے کر سائیکل کے پہیے ہی صاف کرتا رہتا۔ بھائی سمجھتا کہ میں سائیکل کی محبت میں گرفتار ہوں اور پوچھنے پر میں وجہ بھی یہی بتاتا کہ سائیکل نئی ہے زیادہ چلا لی تو خراب ہوجائے گی۔ حقیقت کچھ یوں تھی کہ دماغ کو ایک سوال نے چوک کردیا تھا۔ دن رات اسی سوال کے گرد گھومتے۔ زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ مانو جینے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ دن کا چین، راتوں کی نیند سب حرام۔ کیسے بھی کر کہ اس سوال کا جواب چاہیے۔ مگر سوال کیسے کریں؟ کانفڈینس جس چڑیا کا نام ہے وہ تو ہمیں دور سے بھی چھو کر نہیں گزرا اور اگر سوال کر بھی لیا تو لوگ کیا کہیں گے کہ کتنا بے وقوف ہے اسے اتنا بھی علم نہیں ہے۔ ہنسیں گے سب۔ چپ چاپ بیٹھے رہو اور جاسوسی کرو باقی سب کی آخر یہ بھی تو کچھ نا کچھ کرتے ہوں گے؟ ایک نا ایک دن تو پتہ چل ہی جائے گا۔

مسئلہ کچھ یوں تھا کہ اس سائیکل میں وہ چیز جسے ماما گل ڈیزل کہا کرتے ہیں ڈلے گی کہاں؟ سوراخ کہاں ہے جس میں ڈیزل ڈلے گا؟ اور سوراخ مل بھی گیا تو آیا ڈیزل ہی ڈلے گا یا کوئی اور شے۔ وہ شے کیا ہے اور کہاں سے ملے گی؟ اس سوال کا جواب زندگی کا مقصد بن گیا۔ جب بھائی سائیکل چلایا کرتا تو سائیکل کے پہیے سڑک پر نہیں میرے دل پر چلتے۔ ہر سائیکل سوار سے نفرت ہو چلی تھی۔ دل کرتا کہ کوئی قدرتی آفت آجائے اور یہ سب حرام خور ایک بار زمین دھنس جائیں یا سب کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں۔ کیسے بے حیائی سے دانت نکال کر سائیکل چلا رہے ہیں کوئی ہاتھ چھوڑ کر چلا رہا ہے تو کوئی ایک ہاتھ سے جیسےسائیکل نہ ہوئی کوئی خلا میں جہاز اڑا رہا ہو۔ میرے لیے تو جہاز ہی تھا اور ہر سائیکل سوار اس کا پائلٹ۔ میں حیرت، رشک اور غصے کے بیک وقت ابھرتے جذبات کے ساتھ کئی دن یہ منظر سڑک کے کنارے ایک ہاتھ میں کپڑا اور دوسرے میں لال سائیکل کا ہینڈل پکڑے دیکھتا رہا۔

ایک دن اچانک گھر سے کچھ فاصلے پر موجود کریانے کی دکان سے لوٹ رہا تھا کہ کونے میں ایک دکان پر نظر پڑی۔ بے ساختہ قدم اس دکان کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ سائیکلوں کی مرمت کی دکان۔ عجیب منظر تھا۔ کسی سائیکل کا پہیہ نکلا ہوا ہے تو کسی کا ہینڈل۔ کسی کا ٹائر دیوار پر ٹنگا ہوا ہے تو کسی کی گھنٹی کوئی کاریگر سائیکل کے پہیے کو پانی میں غوطہ کھلا رہا ہے تو کوئی ہتھوڑی سے سائیکل کی کمر سیدھی کر رہا ہے۔ اس وقت مجھے ایسا لگا کہ زمین پر کہیں جنت ہے تو اسی دکان میں ہے۔ یہ سارے کاریگر فرشتے ہیں۔ خدا جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کے دیتا ہے۔ میری دعائیں قبول ہوئیں۔ چند لمحے بعد ایک صاحب سائیکل پر آئے اور بڑے شان سے ایک کاریگر کو بلایا۔ میری نظر میں وہ کاریگر ایک ٹنکی لے کر آیا۔ ٹنکی کے منہ سے ایک پائپ نکل رہا تھا جو کہ اس نے سائیکل کے پہیے سے نکلتی ایک نلکی میں ٹھونس دیا۔ اپنی قمیص کا دامن منہ میں لیا اور ٹنکی سے نکلتے ایک ہینڈل کو پمپ کرنے لگا۔ آپ سوچ کر دیکھیے تو یہ منظر کافی بیہودہ سا معلوم ہوگا۔ گندی بنیان میں کاریگر لال پیلے رنگ کا ناڑا ، بندر کی طرح اوپر نیچے اچھلتا ہوا اس کا جسم۔ پر میرے لیے نہ تو دنیا میں اس سے حسین کوئی منظر تھا نہ اس کاریگر سے خوبصورت کوئی شخص۔ مسئلہ حل ہو گیا۔ بھاگ کر کریانے کی دکان پر گیا ۔ ٹافیاں واپس کرائیں ، دس روپئے لیے ، گھر پہنچا، سائیکل کو کانوں سے پکڑا اور سائیکل والے کے پاس آ پہنچا۔ پہنچ تو گیا مگر کہوں کیا؟ کاریگر میری طرف آیا، مجھ سے سوال کیا، کیا چاہیے؟ میں نے کہا وہ جو تم ابھی ، وہ نہیں ابھی بندہ آیا تھا سائیکل پر تم اس کی سائیکل کے پہیے میں جو ڈال رہے تھے اچھل اچھل کر۔ مسکراتے ہوئے بھلے مانس نے کہا، ہوا ڈلوانی ہے؟ میں نے کہا ہاں، ہوا ڈلوانی ہے۔ کاریگر پمپ لایا اور وہی سارا منظر دوبارہ میری آنکھوں کے آگے ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی آکسیجن سلنڈر ہے اور یہ شخص دنیا کا بہترین ڈاکٹر۔ چند لمحے بعد کاریگر بولا، ہو گیا۔ میں نے جیب سے دس رو پئے نکالے اور اسے دے دیے۔ نجانے کیوں اس فرشتہ صفت انسان کے منہ پر ایک عجیب سے مسکراہٹ ابھری اس نے دس روپئے لیے یہاں وہاں دیکھا اور جیب میں ڈال دیے، مجھ سے بولا دیکھو روز صبح سویرے اس میں ہوا ڈلوانے آ جانا، ویسے تو کافی مہنگی ڈلتی ہے مگر تمہارے لیے دس روپئے میں ہی ہوجائے گا۔ اور ہاں بھولنا نہیں روز صبح آ جانا ورنہ سائیکل خراب ہوجائے گی۔ میں نے پھر سے اس کا شکر یہ ادا کیا اور پہلی بار بڑی شان و شوکت سے سائیکل کی سیٹ پر اکڑ کر بیٹھ کر سائیکل چلائی۔ ساری دنیا کے سائیکل سوار میری نظر میں کیڑے مکوڑے بن چکے تھے۔ کوئی سامنے نہ ہو تو بھی میں گھنٹی بجاتا تاکہ سڑک پر کھڑے لوگ میری طرف متوجہ تو ہوں آخر کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی سائیکل تھی تو بس میری لال سائیکل اور سائیکل سوار تھا تو میں۔ صرف اور صرف میں۔

اگلے دن میں سائیکل اور دس روپئے لے کر صبح سویرے دکان پر پہنچ گیا۔ کاریگر آیا، چہرے پر وہی مسکراہٹ، وہی سائیکل کا پمپ، وہی نلکی، وہی میں اور وہی جادوئی ہوا جو دنیا کے سب سائیکل سوار مہنگے داموں اپنی سائیکل میں روز صبح سویرے ڈلواتے ہیں مگر یہ فرشتہ مجھے فقط دس روپئے میں یہ نایاب ہوا دے رہا ہے۔ دس روپئے دیے اور میں چلتا بنا۔ جاتے جاتے پھر سے بھلے مانس نے مجھے تاکید کی کہ دیکھو کل ٹھیک وقت پر آجانا ورنہ۔ یہ کیسا انسان ہے خدایا؟ سائیکل میری مگر پریشانی اس فرشتے کو ہے۔ میرے سگے بھی میرے لیے یہ سب نہ کرتے جو یہ خدا کا فرشتہ کر رہا ہے۔ اوپر والے کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ وہ سب کی سنتا ہے۔ میری بھی سن لی۔

میں کئی دن یہ فرض انجام دیتا رہا۔ اب حالت یہ تھی کہ گھر میں کوئی کیک یا مٹھائی وغیرہ آتے تو میں چھپا کر اپنے محسن کے لیے صبح کو لے جاتا۔ دوستی پکی تھی۔ دس روپئے کے بدلے نایاب اور بیش قیمتی ہوا۔ مجھے میرے محسن نے یہ تاکید کی تھی کہ یہ راز ہم دونوں کے درمیان ہی رہنا چاہیے ورنہ سارے شہر کو دس روپئے کے عیوض ہوا دینی پڑے گی۔ اب بھلا مجھے پاگل کتے نے کاٹا تھا جو میں کسی سے یہ راز کی بات کہتا؟

کئی دن بیت گئے۔ بلا ناغہ میں فرض انجام دیتا رہا۔ ایک دن اتفاق سے میں اور میرا بھائی سائیکل چلاتے ہوئے شام کے وقت اسی سائیکل کی دکان کے پاس سے گزر رہے تھے۔ بھائی نے اچانک سائیکل روک کر دکان کے پاس کھڑی کر دی میں نے بھی اپنی سائیکل اس کے برابر میں ایک ٹانگ سائکل پر دوسری زمین پر رکھتے ہوئے کھڑی کر دی۔ چند لمحے بعد وہی شخص آیا مگر اس کے چہرے پر خلاف توقع مسکراہٹ کے بجائے گھبراہٹ تھی۔ مجھے بھی اس کے لیے پریشانی لاحق ہوگئی۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ ضرور کسی تکلیف میں ہے مگر میں بعد میں آ کر اپنے دوست اور محسن سے دریافت کرتا ہوں ابھی بھائی کو ہوا ڈلوانے دو۔ چند لمحے گزرے، ہوا ڈل چکی اب پیسے دینے کی باری تھی، دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اتنی زیادہ ہوا کے ضرور پچاس یا سو روپئے تو ہوں گے مگر یہ کیا؟ بھائی نے کہا چلیں؟ چلیں!، کہاں چلیں بھائی؟ پیسے تو دو۔ بھائی نے کہا پیسے؟ کس چیز کے پیسے؟ میں نے کہا یہ جو تم نے ابھی ابھی اتنی ساری ہوا ڈلوائی پیسے تو دو۔ بھائی نے کہا پاگل ہوگئے ہو کیا؟ سائیکل میں ہوا ڈلوانے کے پیسے تھوڑی ہوتے ہیں یہ تو مفت میں ڈلتی ہے۔ ایک خوف ناک چیخ کے ساتھ میرے منہ سے یہ لفظ نکلا۔ کیا؟ سائیکل میں ہوا مفت میں ڈلتی ہے؟ ہاں بھئی مفت میں ڈلتی ہے۔ اب چلیں؟ ایک منٹ ایک منٹ روز مفت میں ڈلتی ہے؟ بھائی نے کہا، روز؟ روز کیوں ہوا ڈلی گی جب کم ہوگی تب ڈلے گی۔ اب میرے آخری سوال کی باری تھی۔ تو سائیکل چلتی کیسے ہے؟ سائیکل کیسے چلتے ہے سے کیا مطلب ہے؟ ویسے ہی چلتی ہے جیسے تم چلاتے ہو، پیڈل پر پاؤں مارو اور سائیکل چلاؤ۔ اس میں کچھ بھی نہیں ڈلے گا گاڑی کی طرح؟ کیا بیوقوفوں والی باتیں کر رہے ہو سائیکل ہے کوئی گاڑی تھوڑی ہے جس میں ڈیزل ڈلے۔ میں نے دوسری ٹانگ سائیکل سے اتاری سامنے سے آدھی اینٹ اُٹھائی اور اس زمانے کے لحاظ سے جو بھی کتے، کمینے، حرام خور ٹائپ کی گالیاں مجھے آتی تھیں با آواز بلند ان کے ورد کے ساتھ دکان میں گھس گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).