جب چینی سرمایہ کار پاکستان آئیں گے تو یہاں کی مقامی صنعتوں پر کیا بیتے گی؟


ایک سوال جو پاکستان میں تقریباً ہر شخص پوچھ رہا ہے وہ یہ کہ جب چینی سرمایہ کار پاکستان آئیں گے اور اپنا کوئی کارخانہ لگائیں گے یا یہاں آ کر کوئی چیز بیچیں گے تو ہماری مقامی مارکیٹ اور ملکی پیداوار پر کیا بیتے گی؟ کیا وہ ساری مارکیٹ پر قبضہ کر لیں گے اور اپنی مناپلی قائم کر لیں گے؟ یا وہ مارکیٹ میں صحت مند اور برابری کا مقابلہ کریں گے اور جتنی ان کی مقامی صنعتوں میں پیداوار اور صلاحیت کے اعتبار سے کنٹری بیوشن ہو گی اتنا ہی کمائیں گے؟ جب چینی مصنوعات جو قیمتوں میں مقامی مصنوعات کی نسبت بہت سستی ہیں، ہماری مارکیٹ میں آئیں گی تو ہمارے مقامی صنعت کاروں کا کاروبار ٹھپ تو نہیں ہو جائے گا؟

میرے خیالات میں ان سوالات کے شافی و کافی جوابات کے لئے ہمیں بنیادی درجے کی معاشیات کی طرف متوجہ ہونا ہو گا جس کی رو سے درج ذیل نکات نہایت اہم ہیں۔

کیا امپورٹ ہماری سوسائٹی کے لئے اچھی چیز ہے یا بری؟

اس سوال کا جواب اول تو ہمارے اس فہم پر انحصار کرتا ہے کہ آیا ہمارے نزدیک ایک پروڈکٹ یا سروس کے لئے اچھے یا برے ہونے کا معیار کیا ہے؟ ہمیں کسی بھی شے میں قیمت سے لے کر کوالٹی اور دیگر فیچرز کے اعتبار سے کیا خصوصیات مطلوب ہیں؟ تب ہی ہم فیصلہ کر پائیں گے کہ فلاں چیز اچھی ہے یا بری؟ کیا یہ پاکستانیوں کا معیار زندگی ہے جو ہمارے لئے زیادہ اہم ہے یا وہ قومی غرور جو ہمارے سینے کے ساتھ ساتھ پھول جاتا ہے جب ہم ”Made in Pakistan“ مصنوعات دیکھتے ہیں؟

میری رائے میں یہ معیار زندگی ہی ہے جو سب سے اہم ہے اور معاشیات کا مطلوب و مقصود بھی۔ جب شہری خوشحال ہوں گے تب ہی قابل فخر صورتحال پائی جائے گی۔ جب شہریوں کو کم قیمت پر اشیاء دستیاب ہوتی ہیں تو اس سے ان کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میرے پاس بیس روپے ہیں جنہیں میں اپنی ضروریات زندگی پر خرچ کر سکتا ہوں۔ مجھے روٹی خریدنا ہے۔ اگر ایک روٹی کی قیمت چار روپے ہو گی تو میں با آسانی پانچ روٹیاں خرید سکوں گا۔ اب فرض کیا کہ روٹی کی مارکیٹ میں قیمت بڑھ کر سات روپے ہو جاتی ہے تو میں مجبوراً صرف تین روٹیاں خرید سکوں گا۔ یوں میرا معیار زندگی گر جائے گا۔ اس طرح اگر ایک روٹی کی قیمت کم ہو کر دو روپے ہو جاتی ہے تو میں بیس روپے میں دس روپے پانچ روٹیوں کی خریداری پر خرچ کروں گا جبکہ باقی دس روپے سے میں اپنی ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء خرید سکوں گا۔ یہ ہماری روز مرہ زندگی کی اکنامکس ہے جو بتاتی ہے کہ قیمتوں میں کمی سے ہمارا معیار زندگی بڑھ جاتا ہے۔

جب ہم کم خرچ کریں گے تو زیادہ بچا سکیں گے جس سے قومی بچت اور انویسٹمنٹ میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح اگر میں بچت نہیں بھی کرنا چاہتا تب بھی میں اس قابل ہو سکوں گا کہ اپنی ضروریات زندگی پر کم خرچ کروں اور پر تعیش اشیاء پر زیادہ۔ دونوں صورتوں میں معیار زندگی میں اضافہ ناگزیر ہے۔

کیا غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ملک کی معیشت کے لئے اچھی چیز ہے یا بری؟

غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ملک کی معیشت کے لئے انتہائی مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی پالیسیوں میں سر فہرست ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ہنر مند افراد کو اپنے ملک کی طرف راغب کیا جائے تاکہ وہ آئیں اور یہاں کام کریں۔ اس سے ایک ملک میں ٹیکنالوجی اور ترقی پسند علم کا نفوز ہوتا ہے۔ سوسائٹی کاروبار کی سائنس اور اشیاء و خدمات کی پیداوار کے نئے ہنر سیکھتی ہے۔ صنعتی اشیاء کی تیاری کا مکمل علم و ہنر کتابوں اور یونیورسٹیوں کی نسبت ورکرز کی اپنی مخصوص سرگرمیوں کو بار بار دہرانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے وہ سیکھتے ہیں اور ان کی کام پر گرفت بڑھتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے ایک معیشت میں جدت (Innovation) اور کار جوئی (Entrepreneurship) کو فروغ ملتا ہے۔

جب کوئی غیر ملکی فرم نیا آئیڈیا، پروڈکٹ، ہنر اور ٹکنالوجی کو مارکیٹ میں متعارف کرواتی ہے تو اس کے ملازمین نئی چیز سے سیکھتے ہیں۔ ان کا یہ سیکھنا ان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو شروع کریں یوں کار جوئی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ہمیشہ کسی بھی انڈسٹری میں کامیاب کارجو (Entrepreneur) وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس انڈسٹری کا تجربہ ہوتا ہے جو انہوں نے برسوں کی محنت اور ذہانت سے کمایا ہوتا ہے۔ اس پورے معاملے کو مشہور معیشت دان ریکارڈو ہاسمین ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

”ترقی کے لئے بنیادی چیز وہ علم ہے جو ہم صنعتوں میں بار بار کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو بنانا، اس کی مکمل تفصیل اور بہترین عملی طریقہ کار کتابوں میں نہیں بلکہ ان لوگوں کے اذہان میں محفوظ ہوتا ہے جو اس پورے پیداواری عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ نئی کمپنیاں عموماً اس وقت وجود میں آتی ہیں جب ایک کامیاب کمپنی کے ملازمین اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کرتے ہیں جو انہوں نے محنت اور ذہانت سے سیکھا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایک سرگرمی کو بار بار سر انجام دینے سے ہی اسے مکمل طور پر سیکھ پاتے ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو یونیورسٹیوں کی کتابوں سے زیادہ کارآمد ہے“

یاد رہے کہ مقامی کاروبار غیر ملکی کاروباری کمپنیوں سے زیادہ مسابقتی برتری رکھتے ہیں کیونکہ انہیں مقامی صورتحال کی زیادہ سمجھ (Know how ) ہوتی ہے۔ جس کی بہترین مثال بنگلہ دیش ہے جہاں ریڈی میڈ ملبوسات کی صنعت جنوبی کوریا کی ایک کمپنی نے شروع کی تھی۔ جلد ہی مقامی ملازمین نے نہ صرف یہ ہنر سیکھا بلکہ یہ بھی سکھ لیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں سے کیسے ڈیل کرنی ہوتی ہے اور کیسے اپنی مصنوعات بیچی جاتی ہیں۔ آج بنگلہ دیش کا ٹیکسٹائل سیکٹر پاکستان اور انڈیا سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری ہماری پروڈکٹوٹی یعنی پیداواری صلاحیتوں میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ اس سے نئے کاروبار اور نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جن کا شہریوں کے معیار زندگی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

زیادہ سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ معیشت کا دائرہ پھیلے گا۔ معیشت ایک محدود اور مقرر روٹی کے ٹکڑے کی طرح نہیں کہ بیرونی سرمایہ کار آکر یہاں ہم سے چھین لیں گے۔ معشیت ایک Fixed۔ Pie نہیں ہے۔ جب چینی شہری ہماری معیشت میں داخل ہوں گے تو ان امکانات کو تلاش کریں گے جن میں وہ مسابقتی برتری رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مقامی سرمایہ کار بھی ان مواقع کو تلاش کریں گے جن میں ان کی مسابقتی برتری قائم ہے۔ معیشت کے پھیلنے سے سینکڑوں مواقع پیدا ہوں گے اور قومی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اعتماد رکھئے کہ ہماری بزنس کمیونٹی میں اتنی صلاحیت ہے کہ اپنے ہی ملک میں وہ بین الاقو امی مقابلہ کا سامنا کر سکیں۔ اس میں ہم سب کا فائدہ ہے۔

اہم چیز جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہیے وہ بین الاقو امی مسابقت نہیں بلکہ سی پیک کے تحت ہونے والے معاہدے اور ان کی شرائط ہیں کہ آیا کہیں چینی سرمایہ کاروں کو کوئی خاص مراعات یا اجارہ داری تو نہیں عطا کی جا رہی؟ ہمیں ان شرائط پر توجہ رکھنی چاہیے جن کی رو سے چینی سرمایہ کاروں کو خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں۔ اگر تو وہ اسی طرح آ رہے ہیں جس طرح دیگر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں آتے اور کاروبار کرتے ہیں تو ہمیں انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اور اگر وہ اجارہ داری سے لطف اندوز ہونے کے لئے آ رہے ہیں تو ہمیں مزاحمت کرنی ہو گی۔ مساوات کا تقاضا ہے کہ کسی بھی کمپنی کو چاہے وہ مقامی ہے یا بین الملکی، امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اجارہ داری عطا کی جائے، یہی صحت مند مقابلہ کا تقاضا ہے۔ کسی بھی قسم کی مناپلی ہماری معیشت کو تباہ کر دے گی اور ہماری سیاست و سوسائٹی کے تانے بانے ادھیڑ کر رکھ دے گی یوں ہم کسی نئی مصیبت میں گرفتار ہوں گے۔ ہمیں محتاط اور ہوشیار رہنا ہو گا اور حکومت سے مشکل مگر ضروری سوالات کرنے ہوں گے۔ اسی میں ہی ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan