ریمنڈ ڈیوس کیس اخباری سرخیوں کی روشنی میں


ریمنڈ ڈیوس بلا آخر تقریباً چھ برس بعد ایک ایسی کتاب لکھنے میں کامیاب ہو گئے جس نے دنیا میں کہیں تہلکہ مچایا ہو یا نہ ہو پاکستان میں ضرور ہلچل پیدا کر دی ہے، کتاب کے مندرجات پر یقین کرنا، اُن کو من و عن ماننا بہر حال ضروری نہیں کہ صاحب کتاب کا کردار امریکا پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسے سیکورٹی ٹھیکے دار کا رہا ہے جو اپنا ٹھیکہ بچانے کے لیے ہر اخلاقی حد کو پھلانگنا جائز سمجھتا ہے۔ اپنے ملک کے قانون اور اخلاقی ضابطوں کے مطابق ڈیوس ایک محب وطن امریکی ہو سکتے ہیں مگر پاکستان میں اُن کا کردار بہر حال ایک جاسوس اور قاتل کے طور پر سامنے آیا۔

27 جنوری 2011، ڈیوس کے لیے بے شک ایک تکلیف سے پھرپور دن ہو گا مگر پاکستان میں بسنے والے کچھ خاندان کے لیے یہ قیامت کا دن تھا، کیا سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ڈیوس نے اپنی کتاب میں بیان کیا، کتاب میں تضاد ہو یا نہ ہو، پوری کارروائی کے دوران ڈیوس کے بیانات میں کئی جگہ تضاد سامنے آیا، جو کہ اس زمانے میں چلنے والی خبروں سے صاف ظاہر تھا۔ ڈیوس نے لکھا کہ اُن پر گن تانی گئی اور اس سے پہلے کہ وہ قتل ہوتے انہوں نے اپنے دفاع میں دو نوجوانوں کو قتل کر دیا، اُن کا کہنا تھا کہ دونوں نوجوان ڈکیت تھے اور، اُن پر پہلے بھی کئی مقدمات درج تھے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق، ایسا کچھ ثابت نہیں ہوا، موٹر سائکل پر سوار نوجوانوں کے پاس پستول تھی مگر کوئی بھی گولی چیمبر میں نہیں تھی، تقریباً بیس سے زائد عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ نوجوانوں نے گن نہیں تانی، الٹا، ڈیوس کے پاس جو اسلحہ تھا وہ غیر قانونی تھا اور جو گاڑی ڈیوس کو بچانے کے لیے آئی اس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی نکلی۔

ستائیس جنوری سے کے آغاز سے ہی ریمنڈ ڈیوس کیس پورے ملک میں ایک ایسا کیس بن گیا جس کی بازگشت طاقت کے ایوانوں سے لے کر گلیوں تک گونجنے لگی، حکومت، اپوزیشن، سیاست دان، میڈیا، عدلیہ اور فوج یہ سب کا امتحان تھا، کیس بہت سادہ اور آسان تھا مگر انصاف ناممکن لگ رہا تھا، مدعی کمزور تھا، ملزم بے پناہ طاقتور، صرف چھیالیس دن چلنے والے اس مقدمے نے پاکستان کے ہر ادارے کا دم خم عوام پر ظاہر کر دیا، شاہ سے بڑھ کر شاہ کے مصاحبوں نے اس کیس میں اہم کردار ادا کیا۔

آصف علی زرداری بحر حال اس کیس کے حوالے سے زیادہ پریشان نہیں تھے، کیوں کے وہ جانتے تھے کہ اس کیس سے جڑا ہر ملبہ یا تو پنجاب حکومت پر گرے گا یا پھر فوج پر، جنرل اشفاق کیانی (ر) جو اس وقت آرمی چیف تھے اور جنرل شجاع پاشا جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے کیس کے حوالے سے بظاہر خاموش تھے، آصف علی زرداری نے کیس کی نوعیت کو اول دن ہی بھانپ لیا تھا اور اُن کی پالیسی تھی کے ابھی جیسا چل رہا ہے چلنے دو، اور معاملہ عدلیہ پر چھوڑ دو۔ فرحت اللہ بابر جو اس وقت صدارتی ترجمان تھے ایک بیان جاری کیا، ہم کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے، سفارتی استثنٰی سے متعلق درخواست پر فیصلہ بھی عدلیہ کی صوابدید پر ہے

اُدھر ابھی تک یہ طے نہیں ہو پا رہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس، کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے یا نہیں، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ بڑھ چڑھ کر عوامی امنگوں کے مطابق بیان دے رہے تھے، انھوں نے ریمنڈ ڈیوس پر جاسوس ہونے کا الزام بھی عاید کیا، ریمنڈ ڈیوس کے کیمرے سے کئی حساس مقامات کی تصاویر بھی نکلی تھی اور اس کا بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس نے کئی مدارس کا بھی دورہ کیا ہے۔


وزیر اعلی پنجاب، جناب شہباز شریف کچلے جانے والے نوجوان عباد الرحمن کو قوم کا بیٹا قرار دے چکے تھے اور اعلان کیا تھا کہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، امریکا کو مگر یقین تھا کہ ریمنڈ ایلن ڈیوس کو رہا کر دیا جائے گا، سوال مگر یہ ہے کہ اُس کو یہ یقین دہانی کس نے کروائی؟ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دو جیسے احتجاج جگہ جگہ ہونے لگے، جس کا مقصد کہیں انصاف کو یقینی بنانا تھا اور کہیں دباؤ بڑھانا۔

تین فروری تک میڈیا میں بے تحاشا شور مچایا گیا اور قوم کو یہ یقین دلا دیا گیا گے انصاف مہیا کیا جائے گا، لاہور ہائی کورٹ نے ریمنڈ کو امریکا کے حوالے کرنے سے روک دیا، جس کے بعد امریکا نے بے پناہ دباؤ ڈالنا شروع کیا، اور شاید یہ ہی وہ وقت تھا جب اس دباؤ کے عوض بہت کچھ لیا جا سکتا تھا یا لیا گیا، حکومت اپوزیشن بظاہر پر عزم تھے کہ اس کیس کو دباؤ قبول کیے بنا حل کیا جائے گا، سفارتی دباؤ اور امریکا کی جانب سے امداد روکنے کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔

گھنٹی بج چکی تھی، صدر اوباما نے ایک بیان جاری کیا کہ پاکستان ریمنڈ کو سفارت کار مان کر رہا کرے، رحمن ملک نے کیس سے متعلق فائل اپنے قبضے میں لے لی اور بیان دیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا سفارتی پاسپورٹ پنجاب حکومت کے پاس ہے جب کہ ریمنڈ ڈیوس کے ویزے کی درخواست ایجنسیوں کے بعد خود انہوں نے منظور کی، ادھر پراسیکوٹر پنجاب نے سفارش کی کہ ملزم پر جاسوسی کا مقدمہ بھی چلایا جایا، ادھر 5 فروری کے بعد دفتر خارجہ نے بھی میڈیا کو کسی بھی قسم کی تفصیلات دینے سے نکار کر دیا، ہوا کا رُخ بدل رہا تھا۔

ہوا بدل چکی تھی، ناجائز اسلحہ کیس ایف آئی آر نمبر 11/49 میں ریمنڈ ڈیوس کی ایک لاکھ روپے کےعوض ضمانت منظور کر لی گئی، ، ملزم کو عدالت میں وقت سے پہلے پیش کیا گیا، جب کے مدعی کے وکیل منظور بٹ، ضیا انصاری اور اظہر صدیق کے پہنچنے سے پہلے ہی پولیس ملزم کو لے جا چکی تھی۔

مطلق العنان حکمران سر جوڑ کر بیٹھے تھے اب فکر یہ تھی کے کس طرح ریمنڈ ڈیوس سے جان چڑائی جائے، رحمن ملک اس کام کے لیے موزوں نہیں تھے اس لیے کہا یہ جاتا ہے کہ اس کام کا بیڑہ جنرل پاشا نے اُٹھایا، جن کی مدت ملازمت 18 مارچ 2011 میں ختم ہو رہی تھی۔ جنرل پاشا، سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور عمران خان کے دھرنوں کے حوالے سے آپ کا نام دبے دبے الفاظ میں لیا جاتا تھا، میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے بھی جنرل پاشا پر کئی سوالیہ نشان تھے۔

جنرل پاشا، امریکی سفیر کمیرون منٹر، کارمیلا کونرائے، صدر زرداری، جان کیری، ہلیری کلنٹن، رحمان ملک، جنرل کیانی، رانا ثنا اللہ، شہباز شریف اور نواز شریف یہ ریمنڈ ڈیوس کیس کے اہم کردار تھے ڈوریاں انہی کے کہنے پر ہلنی تھیں۔

9 فروری 2011 کو مقتول فہیم کی بیوہ نے گولیاں کھا کر خود کشی کر لی، مرنے سے پہلے اس نے کہا خون کا بدلہ خون ہے۔ دباؤ پھر بڑھ گیا، جس کے بعد آرمی چیف، وزیر اعظم اور صدر کی ملاقات ہوئی، اور ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ریمنڈ کا فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے گا، مگر در پردہ کچھ اور ہی چل رہا تھا،

18 فروری سے سیاسی ماحول گرم ہونا شروع ہو گیا، پنجاب حکومت سے پیلپز پارٹی کے وزرا فارغ کر دیے گئے، دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آنے لگی، ججز کی توسیع والے معاملے پر بھی گرما گرمی بڑھ گئی۔ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق آرمی چیف خلیجی ریاستوں کے دورے پر چلے گئے۔ یہ کہا گیا کہ وہاں ان کی ملاقات امریکی ہم منصب سے ہوئی مگر اس بات کی تردید یا توثیق کسی بھی سرکاری ذریعے سے نہ ہو سکی، شاید یہ افواہ تھی!

چار مارچ 2011 کو ثبوت نہ ملنے پر ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی استثنی کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ مگر ریمنڈ ڈیوس پریشان نہیں تھے اور اس کا اظہار وہ اپنے رویہ سے ظاہر کرتے رہتے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کا رویہ جیل حکام کے ساتھ بہت بدتمیزی والا تھا، کھانے کے حوالے سے جو بیان انہوں نے اپنی کتاب میں دیا ہے وہ اس وقت کے بیانات اور خبروں سے کسی بھی صورت مماثلت نہیں رکھتا، جن کے مطابق اسے اکثر فائیو اسٹار ہوٹلز سے کھانا منگوا کر دیا جاتا تھا۔

ریمنڈ ڈیوس کیس کو اسلامی قوانین دیت اور قصاص کے مطابق حل کرنے کے حوالے سے کام شروع ہوا مگر اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مقتولین کے وارث تھے جو اس بات پر رضامند نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کے اُن پر دباؤ ڈال کر انہیں دیت کے لیے راضی کیا گیا۔ سوال یہ ہے کے اگر کسی پر دباؤ ڈال کر اسے خون بہا کے لیے رضا مند کیا جائے تو کیا یہ خود انصاف کے خون کے مترادف نہ ہو گا؟ ڈیوس کی رہائی کے بعد بیرسٹر ظفر اللہ نے ریمنڈ ڈیوس کو بری کرنے والے دونوں ججز سیشن جج یوسف اوجلہ اور مجسٹریٹ انیق انور چوہدری کے خلاف توہین عدالت کے حوالے سے درخواست دائر کی۔ اُن کا موقف تھا کہ دیت کے قانون میں ورثا کی پہچان کے لیے 15 دن کا وقت درکار ہوتا ہے اور اس نکتے کا خیال نہیں رکھا گیا، جب کے ریمنڈ کا ایک کیس سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت تھا۔

ریمنڈ کی رہائی سے ایک روز قبل ہی نواز شریف دل کی کی تکلیف کے باعث لندن روانہ ہو چکے تھے اور اُن کے بھائی شہباز شریف اُن کی عیادت کے لیے بعد میں پہنچے، مقدمے کی سماعت کے دروان میڈیا کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی جنرل پاشا دوران سماعت کمرہ عدالت میں رہے اور مسلسل اپنے موبائل پر مصروف نظر آئے، سیشن جج یوسف اوجلہ نے مقتولین کے ورثا سے سوال کیا کہ کیا وہ دیت پر بنا کسی دباؤ کے رضامند ہیں، اثبات میں جواب پا کر انہوں نے دیت کی رقم ادا کی جو تقریباً 20 کروڑ سے زائد تھی، ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا گیا، دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہلیری کلنٹن نے بیان دیا کے دیت کی رقم امریکا نے ادا نہیں کی۔ انہوں نے پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

ریمنڈ ایلن ڈیوس پاکستان میں رہا ہو گئے، (نوٹ، اکتوبر 2011 میں اپنی غصیل طعبیت کے باعث امریکا کی ریاست ڈینور میں تلخ کلامی اور جھگڑے کے ایک مقدمے میں پھنس گئے، جس پر انہیں بعد میں دو سال کی سزا سنائی گئی اور انہیں غصے پر قابو پانے والی تربیتی کلاس لینے کا بھی کہا گیا)۔ مجھے نہیں معلوم اس مقدمے انصاف کے کتنے تقاضوں کو پورا کیا گیا، ہاں یہ ضرور یاد ہے کے اس کے فوراً بعد شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملہ ضرور ہوا، جنرل پاشا کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی، جون میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں دفاع کے حوالے سے اضافہ کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کے اس مقدمے میں انصاف کی روح کے مطابق انصاف نہیں کیا جا سکا، کئی سوال ہیں جنہوں نے اس مقدمے کے دوران جنم لیا جیسے

عدالتی کارروائی وقت سے پہلے کیوں شروع ہوئی؟
مقتولین کے وکلا کو کن عوامل کی بنیاد پر دور رکھا گیا؟
مقتولین کے ورثا کو جیل میں کیوں روکا گیا؟
آئی ایس ائی کے اہلکار کن عوامل کی بنیاد پر مقتولین کے ورثا سے بار بار ملے؟
مقتولین کے ورثا کو چار گھنٹے تک جیل میں کس کے ایما پر محبوس رکھا گیا؟
وکیل منظور بٹ کے مطابق دیت پر جبراً دستخط کروائے گئے کیوں اور کس کے ایما پر؟
سیشن جج یوسف اوجلہ فیصلہ سناتے ہی کیوں چھٹیوں پر چلے گئے؟
نواز شریف اور شہباز شریف کو ہمیشہ کسی اہم مو قع پر ہی لندن کیوں یاد آجاتا ہے؟
جنرل کیانی جنرل مائیک مولن سے بیرون ملک دورے کے دوران کیوں ملے ؟
دیت کی رقم کس نے ادا کی؟
دیت کی رقم اگر پاکستان نے ادا کی تو کیوں؟
اس مقدمے کے دوران عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟
ریمنڈ ڈیوس پر جاسوسی کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟
ریمنڈ ڈیوس کس خفیہ مشن پر تھے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب شاید معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم ہیں!

میرے خیال سے ریمنڈ ڈیوس کا مقدمہ ایک ناکامی تھا اور اس کی پوری ذمے داری اس وقت کے صدر جناب آصف علی زرداری، وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی، جنرل کیانی اور جنرل پاشا پر عائد ہوتی ہے۔ پھر بہت سے اگر مگر قومی مفادات کو ایک آڑ بنا کر ذاتی مفادات کی خاطر حکمرانوں کو جھکنے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔

شاید قومی مفاد کے حوالے سے کسی دباؤ کے آگے جھک جانے میں کوئی حرج نہیں، جھک جانے سے مگرغیرت پر حرف ضرور آتا ہے، چاہیے پانچ سال بعد کسی کتاب کی صورت ہی کیوں نہ ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).