وزیراعظم صاحب، میں غلام ابن غلام حاضر ہوں


جناب محترم وزیراعظم نواز شریف صاحب، میں آپ کے دربار میں جھک کر سلام عرض کرتا ہوں۔ میں غلام ابن غلام آج آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

محترم وزیراعظم صاحب، میرے والد محترم عطا اللہ محروم سکنہ نوشہرہ ورکاں آپ کے والد اور آپ کے چاہنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے مرتے دم تک صرف اور صرف آپ کی جماعت کو ووٹ ڈالا اور میرے خاندان کے سارے افراد ابھی تک آپ کی جماعت مسلم لیگ نون کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔

ہم سیاسی لحاظ سے آپ کے اور آپ کی جماعت کے غلام ابن غلام ہیں۔ ہماری طرح پاکستان کا ہر غریب آدمی کسی نہ کسی جماعت کا سیاسی غلام ہے لیکن میں آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
جناب والا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ہر سیاسی غلام اور غریب شخص نے ایک لقمہ اچار کے ساتھ بھی کھایا تو ان سے ٹیکس لیا گیا، ایک پاؤ چینی بھی خریدی تو اس پر بھی ٹیکس دیا، ماچس کی ایک ڈبیہ بھی خریدی تو چند پیسے سرکاری خزانے میں بطور ٹیکس جمع کروائے، منہ دھونے کے لیے سستا ترین صابن بھی خریدا تو اس پر بھی ٹیکس جاتا تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان غلاموں، اس سسکتی بلکتی غریب عوام کو اس ٹیکس کے بدلے میں کیا ملا؟

میرے والد کی طرح کروڑوں مزدوروں نے کبھی آپ اور کبھی اقتدار میں آنے والے دیگر شعبدہ بازوں کو ووٹ ڈالے کیوں کہ انہیں امید تھی کہ آپ ان کے اولاد کو بہتر مستقبل دیں گے لیکن حضور روشن مستقبل تو وزیروں، مشیروں، جاگیرداروں، طاقتوروں اور امیروں کی اولاد کو ملا۔

جناب وزیراعظم صاحب یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ اور آپ کے اقتدار میں شریک اونچی حویلیوں والوں کی اولاد تو بیرون ملک اعلی درجے کے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتی رہی اور آپ سے محبت کرنے والے ووٹروں کی اولاد کے حصے میں بغیر چھتوں والے پرائمری اسکول آئے؟

یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ کو سر دردر بھی ہو تو گولیاں لندن سے منگوائی جائیں لیکن آپ کی محبت میں مرنے والے ووٹروں کو ٹی بی کی مرض بھی لگے تو انہیں سرکاری ہسپتال سے دیسی اور دو نمبر دوائیاں بھی نہ ملیں؟

یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ پر جان نثار کرنے والے ووٹروں کی وفات پر پر کھانا بھی ان کے اہلخانہ قرض لے کر پکائیں اور آپ کے دستر خوان پر چھ چھ ملکوں کی بیس بیس کھانے سجائے جائیں؟
یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ کی دختر نیک کے اربوں ڈالر بیرون ملک کی آف شور کمپنیوں سے نکل آتے ہیں اور آپ کے لیے دن رات دعائیں مانگنے والے ووٹر کی بیٹی کی شادی پچاس ہزار کے جہیز کی وجہ سے نہیں ہوتی؟

میں آپ پر قربان، یہ کیسے ہو گیا کہ آپ کے ووٹروں کے بیٹے پاکستان میں روزگار نہ ملنے کہ وجہ سے پردیس کاٹیں، عربوں اور انگریزوں کے بیت الخلاء صاف کریں اور اپنی کمائی کا ایک ایک پیسہ پاکستان بھیجںیں لیکن اس مملکت خداداد میں جمہور اور ان غلاموں کی خوشحالی کے لیے، جو بھی حکمران آئے وہ پاکستان سے پیسہ اور سرمایہ بیرون ملک لے جائے؟ یہ کیسے ہو گیا؟
یہ کیسے ہو گیا کہ محترمہ مریم نواز عدالت میں بھی امپورٹڈ پرفیوم، امپورٹڈ میک اپ، امپورٹڈ پرس اور بہترین کولنگ کرنے والی جرمن بی ایم ڈبلیو پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ حاضر ہوں اور آپ کے ووٹروں کی استاد بیٹیاں اسکول جاتے ہوئے کچے پکے راستوں کی دھول پھانکتے مر جائیں۔

جناب وزیراعظم صاحب یہ آپ کی پاکستان اور پاکستانی عوام سے کیسی محبت ہے کہ آپ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ہمیں ٹیکس دینے کے لیے کہتے ہیں جبکہ خود آپ پر اور آپ کے وزیر خزانہ پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگ جاتے ہیں۔

یہ پاکستان سے کیسی محبت ہے کہ آپ بیرونی دنیا سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا کہیں لیکن خود آپ یا آپ کی اولاد اپنی فیکڑیاں جدہ میں لگائیں اور کاروبار لندن میں کریں۔

یہ کیسی محبت ہے کہ آپ اپنے ووٹروں سے تو دال خریدنے پر بھی ٹیکس لیں لیکن آپ کے اپنے ایم این ایز اور وزیر ٹیکس چوری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔

جناب وزیر اعظم صاحب مجھے غلام ابن غلام کو بس اس بات کا جواب دے دیں کہ آپ پر اور آپ کے اہلخانہ پر اس وقت کرپشن کے الزامات ہیں تو اس غلام ابن غلام کو کیوں آپ کا اور آپ کی اولاد کا ساتھ دینا چاہیے؟

کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی بیٹی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

میرے منہ میں خاک، اگر خدانخواستہ آئندہ ہفتے یا چند دنوں بعد آپ کی حکومت نہیں رہتی تو مجھ غلام ابن غلام پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟

کیا میرے بیرون ملک پڑھنے والے بچوں کی تعلیم ختم ہو جائے گی؟ کیا میرے دستر خواں پر جو بیس بیس کھانے پکتے ہیں، وہ نہیں پکیں گے؟ کیا میں وزیراعظم نہیں رہوں گا؟ کیا میرے لیے لندن سے آنے والی ادویات بند ہو جائیں گی؟ کیا میری بی ایم ڈبلیو بک جائے گی؟

کیا میرا پروٹوکول ختم ہو جائے گا؟ کیا میں ایم پی ایز اور وزیروں کی طرح کرپشن نہیں کر سکوں گا؟ کیا میں مقامی ایم این اے کی طرح نوے مربعے زمین نہیں بنا سکوں گا؟
جہاں پناہ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ میرا ماضی بتاتا ہے کہ میں غلام ابن غلام ہوں اور غلام ابن غلام ہی رہوں گا۔

پاکستان میں اقتدار کے یہ سارے مسائل ان جاگیرداروں، وڈیروں، وزیروں اور مشیروں کے مسائل ہیں، جو پارلیمان میں صرف دولت اور طاقت اور اقتدار کے مزے اڑانے کے لیے جاتے ہیں۔
ان غریب غلاموں کو تو بس سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ ان کی اوقات نہیں ہے۔

پاکستان کے ان غلاموں اور غریبوں کے مسائل تو دو وقت کی روٹی ہے، بخار میں درد کی ایک گولی ہے، عید پر جوتوں کا ایک نیا جوڑا ہے، بیٹی کا جہیز ہے، گلیوں میں کھڑا گندہ پانی ہے، بارش میں ٹپکتی چھت ہے اور ایسے ہی کبھی کبھار گوشت سے روٹی کھانے کی معصوم سی خواہش ہے۔ لیکن ان غلاموں کے یہ مسائل تو کسی نے حل نہیں کیے۔ پھر کیوں کسی لیڈر کا ساتھ دیا جائے؟
کئی حکومتیں آئیں، کئی گئیں، کئی بوٹ والے آئے، کئی گئے، کئی زر والے آئے اور زر بھی ساتھ بیرون ملک لے گئے لیکن غلام ابن غلام جیسے پچاس برس پہلے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔

محترم وزیراعظم صاحب اب صرف آپ ہی نہیں، کوئی بھی آئے یا جائے ان غلاموں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

فرق پڑتا ہے تو حضور والا آپ کو، آپ کی آل اولاد کو، آپ کے مشیروں کو اور آپ کے وزیروں کو پڑتا ہے۔

میں جان کی امان پاوں تو میری شہباز شریف صاحب سے بھی ایک گزارش ہے۔ حضور آپ کا اقبال بلند ہو، آپ مزید ترقی کریں، ہو سکتا ہے آپ چند دنوں بعد وزیراعظم بن جائیں لیکن براہ مہربانی آپ خود کو خادم اعلیٰ نہ کہا کریں۔ پاکستان کے غریبوں کے پاس آخری جائیداد بچی ہے، خادم اعلی کا لقب ان غلاموں کی آخری متاع حیات ہے، یہ ان کا آخری سرمایہ ہے، یہ ان سے مت چھینیے۔

خدارہ اپنی ذات عالی اور اپنے خاندان کو ان عملی طور پر شودروں، اچھوتوں اور غلاموں سے مت ملائیے۔
ہم خادم، ہم نوکر، ہم غلام ابن غلام حاضر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).