غربت اور غلامی۔ خاتمہ کیسے ہو


میرا مطالعہ کوئی خاص وسیع نہیں کسی زمانے میں اردو ادب سے بہت دلچسپی تھی اور تمام نمایاں لکھاریوں کو پڑھ رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ چند ا ایسے مصنفوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا کہ جن کا میدان عمل ادب نہیں بلکہ تاریخ، مذہبیات، سماجیات، عمرانیات اور سوشلزم وغیرہ تھے۔ مگر ان کی تحریریوں میں وہ ادبی چاشنی اور دلکشی تھی جو ان بظاہر مشکل موضوعات کو بھی دلچسپ بنا دیتی تھی۔ ان میں سید سبطِ حسن، علی عباس جلالپوری اور نیاز فتح پوری جیسے علماء شامل تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اردو کا دامن ایسے اصحاب علم سے خالی ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ میری دلچسپی بھی اردو کی تحریریوں میں ختم ہوتی گئی۔ جب انگریزی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو ان کا اعلیٰ تحقیقی اور عملی معیار دیکھ کر تو یہ خیال آنا شروع ہوا کہ شاید ہمارے اندر وہ پتہ مارنے اور تحقیق کا جذبہ ہی نہیں جو اس معیار کی اعلیٰ پائے کی علمی تحریروں کو جنم دے سکے۔ اسی لئے اپنے چند سٹودنٹس کو یہ مشورہ دینا شروع کر دیا کہ اب اردو میں کتابیں پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ سیکھنا ہے اور زمانے کے ساتھ چلنا ہے تو انگریزی میں اچھی دسترس پیدا کریں اور صرف انگریزی کتب پڑھیں۔

عین اس وقت جب جب کہ یہ خیال پختہ ہو ہی رھا تھا تو ذیشان ہاشم کی ’غربت اورغلامی خاتمہ کییسے ہو‘ پڑھنے کا موقع ملا اور امید کی جو شمع گل ہونے کے قریب تھی دوبارہ جل اٹھی۔ کیونکہ بہت عرصے کے بعد اردو میں ایسی کتاب پڑھنے کا موقع ملا جس میں اعلیٰ پائے کے علمی مباحث، معیاری تحقیق، مضبوط دلائل اور اسلوب کی سلاست ایک ساتھ دکھائی دیے۔

آج کی دنیا میں اقوام اور ممالک کے درمیان معاشی تفاوت اتنا بڑھ چکا ہے کہ جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ خوشحال ممالک اور پسماندہ ممالک میں تمام میدانوں میں فرق اتنا زیادہ ہے کہ بظاہر اس کو پاٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ ایسے میں جب سماجی حرکیات سے نابلد نوجوان تعصبات کی عینک لگا کر اس فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں اس میں اغیار کی مسلماںوں کے خلاف سازشیں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ ان کے ذہن کی وہ تربیت ہی نہیں ہوئی کہ جو ایک منطقی انداز میں اسباب و عوامل کا تجزیہ کرکے ان عوامل کی نشاندہی کر سکے کہ جو ان کی خوشحالی اور ہماری پسماندگی کا باعث ہیں۔ ذیشان نے اپنی اس کتاب میں بہت سادہ اور عام فہم انداز میں ان اسباب کی نشاندہی بھی ہے اور ان کی وضاحت بھی۔ یہ وہ بینادی شرائط ہیں کہ جن پر عمل کیے بغیر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا صرف خواب بھی دیکھا جس سکتا ہے مگر ان کی تعبیر نہیں پائی جا سکتی۔

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میرا مطالعہ محدود ہے اس لئے مجھے علم نہیں کہ اردو میں شاید اس سے پہلے بھی کسی نے انفرادی آزادی، حق انتخاب اور آزادی رائے کے ترقی اور خوشحالی کے ساتھ تعلق پر اتنی جامع بحث کی ہو مگر میرے لئے آسان اردو میں یہ مباحث پڑہنے کا یہ پہلا موقع تھا اور ایک خوشگوار حیرت کا باعث بھی کہ اتنی کم عمری میں اتنی پختگی اور واضح فکر کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔

کسی زمانے میں جب میں نے ایک کتاب انڈر کور اکانومسٹ پڑھی تھی تو اس وقت دل میں خیال آیا تھا کہ کاش اردو میں میں اس معیار کی کتب دستیاب ہوں تو ہمارے لوگوں کو اندازہ ہو کہ معاشرے کس طرح چلتے ہیں اور انسان کس طرح اپنے فیصلے کرتے ہیں تاکہ ہر بات میں سازشوں کی سوچ سے آزادی ملے۔ میں یہ تو نہیں کہوں کا کہ ذیشان نے یہ کمی پوری کردی کیوں کہ یہ صرف ابھی آغاز ہے اور ابھی انہیں بہت کچھ اور لکھنا ہے مگر یہ ضرور کہوں کا کہ انہوں نے ایک بہت اچھا آغاز کر دیا ہے اور امید ہے کہ اس سے اور بھی اچھے لکھاریوں کو مہمیز ہوگی کہ وہ بھی ان موضوعات پر قلم اٹھائیں اورایک نئے دور کا آغاز کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).