شہندی مبارک


ہمارے زمانے میں لوگوں کی شادیاں ہو جایا کرتی تھیں۔ آپ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں کس قدر پرانا ہوں اور کس وجہ سے ازکار رفتہ ہوچکا ہوں۔

جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں، دو تقریبات بنیادی ہوا کرتی تھیں، شادی اور ولیمہ۔ ان کے اردگرد بہت سی ذیلی تقریبات کا جھرمٹ ہوتا تھا جیسے طفیلی سیّارے۔ ان دو تقریبات کی حدود اور شرائط بھی ایک بن لکھے معاہدے کی طرح طے تھیں۔ شادی کی تقریب دلہن والوں کی طرف سے ہوتی تھی اور ولیمہ دولہا والوں کی ذمہ داری۔ ان تقریبات کے بارے میں رائے زنی بھی اسی اعتبار سے ہوتی تھی کہ کس فریق نے کتنا انتظام کیا اور کیسا۔

جو تقریب پہلے ہوتی ہے وہ شادی ہے اور اس کے بعد ولیمے کی نوبت آتی ہے، بچپن میں ہی مجھے سمجھا دیا گیا تھا۔ شادی کا مطلب ہے پہلے نکاح پھر رخصتی۔ تب کہیں ولیمے کی باری آتی ہے جو سنّت ہے۔ ہمارے ایک دوست جو کچھ عرصہ باہر رہ کر آئے تھے، ایک دفعہ باتوں ہی باتوں میں گڑبڑا گئے۔ ایک دوست کا رشتہ طے ہوا تو اس کے گھر والوں سے کہہ دیا، ولیمہ پہلے ہو جائے، شادی پھر ہوتی رہے گی۔

شادی کے گھر میں جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ جن صاحب کے ولیمے کا ذکر تھا، مسکراہٹ دبائے ہوئے بول اٹھے؛ ہمارے ہاں پہلے شادی ہوتی ہے۔ آپ کے ہاں کیا ولیمہ پہلے ہو جاتا ہے؟

دوست کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ کسی نے جلدی سے گلاب جامن کا ڈبّا آگے رکھ دیا تو جان میں جان آئی۔ پتہ نہیں وہ سمجھ بھی سکے کہ کیا کہہ گئے ہیں۔ اس وقت بات آئی گئی ہوگئی۔ شادی کے گھر میں یوں بھی بُہتیرے جھمیلے ہوتے ہیں۔ اور ولیمہ اسی طرح ولیمہ ہوتا جیسے کپ اف ٹی از اے کپ آف ٹی۔

شادی کے ہنگامے میں کئی تقریبیں شامل ہوتی تھیں۔ لڑکے والوں کی طرف سے بہت باجے تاشے کے ساتھ بری آتی تھی۔ اس میں دلہن کے لیے لائے جانے والے جوڑے خاص طور پر دکھائے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے، ان کے بارے میں کئی دن تک بات چلتی رہتی تھی۔ ایک دن دلہن کے اُبٹن لگایا جاتا تھا۔ دلہن کے چہرے پر نکھار لانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہوگا لیکن لڑکے بالوں کو کُھل کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔ گیلا گاڑھا ابٹن ہاتھوں میں لیا اور جس کا چہرہ ہاتھ لگا، اس کے منھ پر ہاتھ پھیر دیا۔ چھوٹے بڑے کی تخصیص نہیں۔ ڈھولکی کا سلسلہ اب چل پڑا ہے۔ ہمارے بچپن میں یہ لفظ سُننے میں نہیں آتا تھا۔ اس کے بجائے ایک دن سانچق کے لیے مخصوص تھا۔ پھر شادی ولیمے کے بعد چھٹّی تو نہیں مل جاتی تھی۔ چوتھی چالے کا سلسلہ چلتا۔ دولہا دلہن کی جو دعوتیں عزیز رشتہ دار کیا کرتے تھے ان کو چالا کہا جاتا اور جتنے رشتہ دار اسی قدر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا۔ شاید اس زمانے میں رشتہ داریاں وسیع اور فرصت وافر ہوتی تھی۔ چالے تو چالے، چوتھی کی بات خاص تھی۔ کوئی عورت زیادہ بنائو سنگھار کر ڈالے تو چوتھی کی دلہن کی پھبتی کسی جاتی تھی۔ ذرا بڑے ہوئے تو چوتھی کا جوڑا، عصمت چغتائی کے طفیل سمجھنے کا موقع ملا اور اس جوڑے کی جگمگاہٹ کے پیچھے اداسی کا دریا موج زن نظر آیا۔

اس جوڑے سے بڑھ کر ایک خاص بات یہ تھی کہ چوتھی باقاعدہ کھیلی جاتی تھی۔ دونوں سمدھیانے آمنے سامنے ہوکر ایک دوسرے پر سبزی ترکاری اچھالتے تھے۔ نشانہ تاک تاک کر باندھا جاتا۔ کسی کے سر پر تُرئی دے ماری اور کسی کی گود میں بینگن اچھال دیا۔ چوٹ چاہے لگے نہ لگے، بھد ضرور اُڑتی تھی۔ مگر یہ سب ہنسی خوشی کے چونچلے تھے۔

چوتھی میں ترکاریوں کی جنگ کے علاوہ ایک اور چیز جو مجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے__ بتایا تو تھا کہ میں کتنا پُرانا ہوں__ وہ تھیں سمدھیانے کےلیے فرمائشی گالیاں جو ڈومنیاں گایا کرتی تھیں۔ سب کو ان کے بارے میں پتہ تھا اور کوئی بُرا نہیں مانتا تھا۔

بچپن میں میری نانی کے گھر میں ایک ڈومنی آیا کرتی تھی جس کا نام تو خدا جانے کیا تھا مگر سب اسے یہی کہتے تھے۔ وہ دلّی کے وقت سے میری ننھیال والوں کے گھر آیا کرتی تھی۔ اسے خوب اندازہ تھا کہ میری نانی کو اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کا کس قدر ارمان ہے کہ وہ ہر نماز کے بعد یہی دُعا مانگا کرتی ہیں، یااللہ، بس میں اپنے بچّے کا سہرا دیکھ لوں، میرا یہ ارمان پورا ہوجائے۔ چناں چہ جب وہ ڈومنی آتی تو سارے گھر کو پتہ چل جاتا بلکہ محلّے والوں کو بھی خبر ہو جاتی۔ وہ گلی میں داخل ہوتی تو گاتی ہوئی آتی، ہریالا بنّا عُمراں ہزاریاں۔۔۔ اور میرے ماموں جہاں کہیں بھی ہوتے غصّے میں لال پیلے ہو کر کسی کونے میں چُھپنے کی کوشش کرنے لگتے جہاں ڈومنی کی نظر نہ پڑے۔ ڈومنی کو ویسے بھی کم سُجھائی دیتا، اس لیے وہ اندازے سے بلائیں لیتی ہوئی، اپنے پوپلے منھ اور بڑھاپے کی ماری آواز سے گائے جاتی۔ اس کے ذخیرے میں ہر موقعے کے لیے گانے موجود تھے جن کا مظاہرہ کرنے میں اسے دیر نہ لگتی۔ یہاں تک کہ نانی اسے کچھ دے دلا کر اور شادی میں ضرور بُلانے کا وعدہ کرکے رُخصت کرتی تھیں۔

سونے کے کڑے پہنوں گی گڈّو میاں کی شادی میں، ڈومنی کے بڑے منصوبے تھے لیکن سب دھرے کے دھرے رہ گئے جب ماموں کی شادی سے پہلے وہ اس دنیا سے رُخصت ہوگئی۔

اس بے چاری کی کمی کس نے محسوس کی ہوگی۔ لیکن شادی کے دن خاندان کی ایک بُزرگ خاتون نے، جن کے رعب سے سب چُپ رہتے تھے، لال دوپٹّہ گھونگھٹ کی طرح اوڑھ لیا اور ایسی تان لگائی__ سمدھن تیری فلاں چنے کے کھیت میں۔۔۔

بڑوں نے ہنستے ہنستے منھ میں ہاتھ ٹھونس لیے اور ہم بچّوں کے مُنھ کھلے کے کُھلے رہ گئے__ یہ دلّی والوں کی فرمائشی گالیاں ہیں، میرے والد نے مجھے بتایا تھا۔ اور جو تم نے سنا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

مگر جو کچھ نہیں تھا وہ بھی بہت کچھ تھا۔

ماموں کی شادی کی جو باتیں یاد رہ گئی ہیں، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ چھوٹی خالہ مہندی گھول رہی ہیں اور پاٹ دار آواز میں تان لگا رہی ہیں__ مجنوں کا تماشا لایاری بنّا اری او لاڈلا۔۔۔ اور پھر اسی سے جوڑ کر اس سے زیادہ زور دار آواز ہیں۔۔۔ کنگنا جھلّر ملّر ہوئے رے۔۔۔

لیکن یہ سب آوازیں ذہن کے کسی کونے میں دب کر رہ گئی ہیں۔ شادی بیاہ کے گیت بھی رُخصت ہوگئے۔ نہ کسی کو الفاظ یاد ہیں اور نہ دُھن۔ پچھلے دنوں اپنے گھرانے کی ایک شادی میں یہ بھی دیکھا کہ لڑکیاں بالیاں جمع ہیں اور کرائے پر ڈھولک کا انتظام ہوگیا۔ لیکن گانے کم پڑگئے۔ نئے پرانے فلمی گانوں سے دل بھر گیا تو کسی کی سمجھ میں نہ آیا اب کیا گائیں۔ ایک لڑکی نے تان چھیڑدی، سندھڑی دا سیہون دا شہباز قلندر۔ باقی لڑکیاں بھی دھن سے دھن ملانے لگیں کیونکہ اس کے بول سب کو یاد تھے۔

یہ کم از کم فلمی گانوںسے بہتر ہے۔ پھر آج کی بدلی ہوئی صورت حال میں شاید حسبِ حال بھی۔

صورت حال کس حد تک بدل گئی ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میرے ایک بڑے قریبی دوست نے اپنی بیٹی کی شادی طے ہو جانے کا مژدہ سُنایا۔ لڑکی ماشاء اللہ بڑی ذہین ہے، سمجھیے دس انگلیاں دسوں چراغ۔ شادی کا فیصلہ بھی ایک ایسے نوجوان سے کیا جو اس کی طرح غیر روائتی ہے۔ چناں چہ مرزا صاحب پیٹ پکڑے پکڑے میرے گھر آئے اور کہنے لگے، لڑکے والوں کا پورا خاندان سمجھیے لندن سے یہاں آئے گا۔ سمجھیے ایک ہی تقریب ہوگی اور دونوں فریقین کی جانب سے۔

وہ مجھے اس رسیپشن کے بارے میں اپنے منصوبے بتانے لگے۔

’’مشترکہ عشائیہ؟‘‘ میں نے سمجھنا چاہا۔ ’’یہ بتائیے کہ تقریب شادی کی ہوگی یا ولیمے کی؟‘‘

اس پر وہ اُلجھ گئے۔ ’’تقریب دونوں کی طرف سے ہے، اس لیے سمجھ لیجیے کہ اس میں دونوں چیزیں بیک وقت ہوں گی۔‘‘

میری سمجھ میں کچھ آیا، کچھ نہیں۔ ’’شادی بھی اور ولیمہ بھی؟ یہ شادی زیادہ ہے یا ولیمہ؟‘‘

اس سے زیادہ پوچھنا مجھے مناسب نہیں لگا۔ یاد آیا کہ ابنِ صفی کے ایک ناول میں فریدی ایک ہوٹل میں جاکر پوچھتا ہے کہ کھانے میں کیا کیا ہے اور جب بیرا ایک طویل فہرست گنوا دیتا ہے تو وہ بڑے اطمینان سے آرڈر دیتا ہے، اچھا ایک پلیٹ آدھا تیتر آدھا بٹیر لے آئو۔

آپ اس کو ’’شلیمہ‘‘ کہہ سکتے ہیں، میں ان کو باور کرا سکتا تھا مگر اس قسم کے الفاظ میں نے اس وقت سُنے جب انھوں نے بتایا کہ تقریب کے رنگ میں رنگ تو اس وقت آئے گا کہ ایک رات پہلے مہندی لگے گی، دولہا دلہن کے نوجوان دوست موسیقی کے ساتھ ہنگامہ کریں گے۔ بات دل کو لگتی تھی، اس لیے مہندی کا معاملہ طے پاگیا۔ جگہ کا تعین ہوگیا اور کھانے کے مختلف ’’آپشنز‘‘ پر کیٹرنگ کمپنیوں سے مذاکرات شروع ہوگئے۔

دوچار دن بعد وہ پھر آئے اور کہنے لگے، نکاح عشائیے سے پہلے کیوں نہ کر لیں، فرض سے نمٹ جائیں گے تو فراغت ہو جائے گی۔ بات یہ بھی معقول تھی۔ نکاح کے لیے کون سا دن مناسب ہوگا، لڑکے والوں سے مذاکرات کے بعد فیصلہ مہندی والے دن کے لیے ہوا۔ نکاح پہلے ہو جائے گا، پھر کھانا۔ اس کے بعد بچّے جو ہنگامہ کرنا چاہ رہے ہیں اپنے اطمینان سے کرتے رہیں، انھوں نے مجھے بتایا۔

وہ مجھ سے مشورہ کررہے ہیں یا اطلاع دے رہے ہیں، میں سوچ میں پڑگیا۔ لیکن شاید ان کو میرے سوال کا اندازہ پہلے سے ہوگیا تھا۔

’’یہ خالی رسیپشن نہیں ہوگا۔‘‘ انھوں نے بتایا۔ ’’بچّے کہہ رہے ہیں کہ شہندی ہے۔ شادی اور مہندی کمبائنڈ۔۔۔ فنکشن مہندی کا ہے لیکن شادی کے لوازمات بھی پورے ہو جائیں گے۔ نکاح ہو جائے گا، پھر رخصتی۔۔۔‘‘

’’شادی میں اور کیا ہوتا ہے؟ یہ تو شادی ہوئی سیدھی سادی۔۔۔‘‘ میں اپنی بات پر قائم رہا۔

’’وہ تو ہئی ہے۔۔۔‘‘ انھوں نے زور دے کر کہا۔ ’’کھانے کے بعد وہ مہندی والا میوزک ہوگا۔ لڑکے لڑکیاں پہلے سے ڈانس کی پریکٹس کرلیں گے۔ آج کل جس طرح مہندی میں ہوتا ہے۔۔۔‘‘

انھوں نے آج کل کا حوالہ دیا جس پر میرے لیے چپ ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔

’’شہندی مبارک!۔۔۔‘‘ آخر مجھے ان سے کہنا پڑا۔ لیکن میں سوچ میں پڑگیا کہ اگر میری نانی کے زمانے والی پرانی ڈومنی زندہ ہوتی تو اس تقریب کے لیے کون سے گانوں کا انتخاب کرتی، سہرا بندھائی کے گانے یا مہندی لگوائی والے گانے؟

نام کچھ بھی ہو، بہرحال اس تقریب میں جانا ضرور ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہو کہاں گئے تھے؟ تو میں کہہ دوں گا شہندی مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).