دیوتا سسی فس کی سزا تبدیل کی جائے


یونان کی اساطیر میں ایک دیوتا سسی فس کا ذکر ملتا ہے۔ مقتدر دیوتاؤں کو خدشہ تھا کہ سسی فس ذہین بھی ہے اور اس کے عزائم بھی بلند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کسی روز دیوتاؤں کی دھرتی میں طاقت کا توازن ہی بدل جائے۔ اونچے ٹیلے ہموار کر دیئے جائیں، گہری کھائیوں کو پاٹ دیا جائے۔ میٹھے دریاؤں کا ٹھنڈا پانی ان بنجر منطقوں تک جا پہنچے جو نامعلوم زمانوں سے بے آب و گیاہ چلے آ رہے ہیں۔ مقتدر دیوتاؤں نے مل بیٹھ کر مشورہ کیا اور سسی فس کو سزا سنا دی۔ سسی فس کو یہ تو نہیں بتایا گیا کہ اس کا حقیقی جرم کیا ہے۔ اتنا اشارہ البتہ دیا گیا کہ سسی فس کے خمیر میں حکم عدولی کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اسے سزا دی جاتی ہے کہ وہ ہر روز ایک بھاری پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹٰی تک لے جائے۔ سسی فس گرتا پڑتا اس وزنی چٹان کو اٹھائے پہاڑ کی چوٹٰی پر پہنچتا تو دیوتاؤں کے حکم سے پتھر دوبارہ زمیں پر آن گرتا۔ سسی فس کی سزا پھر سے شروع ہو جاتی۔ اب دیکھئے کہ ایک تو سسی فس کو اس کا قصور ہی معلوم نہیں۔ اگر آپ نے کافکا کا ناول ٹرائل پڑھ رکھا ہے تو آپ کو ٹھیک سے یاد ہو گا کہ کافکا کا مرکزی کردار کے (K) بار بار اپنا جرم پوچھتا ہے۔ ہم مقہور انسانوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ مقتدر قوتوں کے اختیار کی انتہا یہی ہے کہ مجرم کو الزام سے بے خبر رکھا جائے۔ دوسرے یہ کہ سزا کی مدت غیر متعین ہو۔ غالب نے بھی خواہش کی تھی کہ “حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے”۔ جبر کی سائنس مگر تقاضا کرتی ہے کہ محکوم کی بے بسی کی تکمیل یہی ہے کہ سزا کے خاتمے کی امید ختم کر دی جائے۔ ان دو نکات سے جبر اور استبداد مستقل صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
اگر آپ سسی فس کی کہانی میں ہم عصر مفہوم تلاش کرنے سے گریز فرمائیں تو عرض کی جائے کہ ہماری قسمت سسی فس سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ دیکھئے، عابد علی عابد یاد آ گئے۔ عابد صاحب بھی اپنے عہد میں علم اور ذہانت کا سسی فس تھے۔ لکھتے تھے
مقدرات کی تقسیم ہو رہی تھی جہاں
جو غم دیے نہ گئے تھے وہ میں نے جا کے لئے
توجہ فرمائیے، ستمبر 1953 میں مرنجاں مرنج خواجہ ناظم الدین کو زبردستی معزول کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے ایک وفاقی وزیر نے اسمبلی کیفے ٹیریا میں صحافیوں سے کہا کہ آج آپ نے پاکستان توڑ دیا ہے۔ سیاست دان اور سسی فس کا حقیقی ہنر یہی ہوتا ہے کہ وہ وقت کے بیجوں پر کندہ لکیریں پڑھ لیتے ہیں۔ مولوی محمد سعید پاکستان ٹائمز سے وابستہ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ محترم آپ کیا فرما رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی برطرفی سے ملک کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ وزیر موصوف نے رسان سے کہا کہ غلام محمد کی کیا مجال کہ وہ ناظم الدین کو برطرف کر سکے۔ غلام محمد کی طاقت جنرل ایوب خان ہے۔ اور فوج کا غالب حصہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ نے فوج کے بل پر مشرقی پاکستان کو اقتدار سے الگ کر دیا ہے۔ آپ نے ملک کے دونوں حصوں میں تعلق پر کاری ضرب لگائی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ 1953 کے موسم خزاں میں ہمیں حکم دیا گیا کہ غلام محمد نامی مفلوج ڈھانچے کو اٹھا کر پہاڑ پر چڑھیں۔ ہم محسن ملت کو ڈھونے کی مشقت میں تھے کہ ہمیں اسکندر مرزا کی صورت میں ایک اور پشتارہ بخش دیا گیا۔ اکتوبر 1958 میں نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں والا ایوب خان ہمارے کندھوں پر سوار ہو گیا۔ ایوب خان کو ہم نے پہاڑ سے نیچے نہیں گرایا۔ ایک تو عارضہ قلب تھا اور دوسرے یحییٰ خان جاہ طلب تھا۔ سسی فس نے 1970 کا انتخاب جیت لیا۔ تاہم اہل حکم نے وہ کشتی ہی ڈبو دی جس میں افتادگان خاک نے پناہ لی تھی۔ وہ تلوار ہی چھین لی جس سے سسی فس کی زنجیریں کاٹنا تھیں۔ خوفناک لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ حکم ہوا کہ کٹا پھٹا پاکستان اٹھاؤ اور پہاڑ پر چڑھو۔ سسی فس کی ذہانت اہل حکم کے لئے ڈراؤنا خواب تھا چنانچہ فیصلہ ہوا کہ مشقت بڑھا دی جائے۔ اس میں افغان جہاد، فرقہ وارایت، ملائیت اور غیر جمہوری ثقافت کے پتھر ایزاد کئے گئے۔ سسی فس کی پشت پر دھری گٹھڑی میں 58 ٹو (بی) کی بارودی سرنگ لگائی جائے۔ سسی فس کو راستہ دکھانے والے قطب نما پر آٹھویں ترمیم کا نقاب ڈال دیا گیا۔
برس ہا برس کی مشقت سے سسی فس کی ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔ اعصاب مسلسل تناؤ سے چٹخ رہے ہیں۔ مقتدر دیوتا مگر حیران ہیں کہ سسی فس کی ذہنی صلاحیت بدستور توانا ہے۔ اسے سیاچین کی برف پوش چوٹیوں پر بھیجا گیا، اسے کارگل کے جہنم میں روانہ کیا گیا، اسے دہشت گردی کی وادیوں میں بھٹکنا پڑا۔ اسے لاقانونیت کے جنگل میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ سسی فس کی زندگی سے محبت ختم نہیں ہوتی۔ اس کا خواب مرنے سے انکاری ہے۔ اسے بار بار شعلوں کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ بجھی ہوئی راکھ سے سفید پروں والے کبوتر کی طرح علم، معیشت، امن اور رواداری کے گیت گاتا برآمد ہو تا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مقتدر دیوتا ہزاروں برس پرانی چٹانوں سے تراشے گئے ہیں۔ ادھر سسی فس کا حوصلہ بھی ناقابل شکست ہے۔ اس کشمکش کا حل کیا ہو گا۔ اردو کی شاعرہ عشرت آفرین نے ایک تجویز دی ہے۔
اسیر لوگو اُٹھو
اور اُٹھ کر پہاڑ کاٹو
پہاڑ مردہ روایتوں کے
پہاڑ اندھی عقیدتوں کے
پہاڑ ظالم عدالتوں کے
ہمارے جسموں کے قید خانوں میں
سینکڑوں بے قرار جسم
اور ….اُداس روحیں سسک رہی ہیں
ہم اِن کو آزاد کب کریں گے
٭٭٭ ٭٭٭
اسیر لوگو
جو زرد پتھر کے گھر میں یوں بے حسی کی چادر لپیٹ کر
سو رہے ہیں
اُن سے کہو
کہ اُٹھ کر پہاڑ کاٹیں
ہمیں رہائی کی سوچنا ہے
سسی فس کی سزا ختم ہونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ علم، جمہوریت اور پیداوار کے پھاوڑوں سے وہ پہاڑ ہی کاٹ ڈالا جائے جو مقتدر دیوتاؤں نے کھڑا کر رکھا ہے۔ تاکہ محکوموں کا قافلہ ہموار زمیں پر نخلستانوں کی طرف بڑھ سکے۔ پہاڑ کاٹنا بھی سزا ہی شمار ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ہر روز پتھر اٹھا کر پہاڑ پر چڑھنے میں رہائی کی امید نہیں ہے۔ پہاڑ کاٹنا شروع کریں گے تو ایک روز پہاڑ کے پار سکھ کے گاؤں میں پہنچ سکیں گے۔ سو بہتر یہی ہے کہ سسی فس کی سزا تبدیل کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).