اولڈ ایج ہوم کے اسباب


برسوں پہلے اولڈ ایج ہوم کے بارے میں سنا جب پتہ چلا کہ یہاں بچے اپنے والدین کو چھوڑ جاتے ہیں پھر سالوں ان کی خبر نہیں لیتے حتی کہ عید پر بھی ملنے نہیں جاتے۔ جب ان پر بنائے جانے والے پروگرام دیکھتی، والدین زار زار روتے اپنے بچوں کو دیکھنے، ملنے کے لئے ترستے تو دل خون کے آنسو روتا۔ پہلا خیال دل میں یہی آتا قیامت کے آثار ہیں اولادیں نافرمان ہیں۔ ترس آتا ماں باپ کی حالت دیکھ کر۔ ٹی وی ہے یا ریڈیو اگر اپنی طرف سے کوئی بہت بڑی نیکی کرتا تو عید کے دن اولادوں سے خفیہ رابطے کر کے ان کو محبت بھرے انداز میں شرمندہ کیا جاتا پھر اچانک والدین سے ان کو ملوا کر بھر پور دعائیں سمیٹی جاتیں۔ ہمارے جیسے ظاہری بنیادوں پر بحث و مباحثہ کر کے اولادوں کو نافرمان کہہ کر والدین کو مظلوم قرار دے کر خود ساختہ لگائی گئی عدالت برخاست کردیتے ہیں۔

نتیجہ خیز بات پھر بھی نہیں ہوتی۔ جڑ کی خرابی کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا مسلمان ممالک میں اولڈ ایج ہوم کیوں بنے؟ کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا اپنی اولادوں کو سردی گرمی سے بچانے والے ان کو اپنی استطاعت سے بڑھ کر سہولتیں دینے والے والدین اولاد کے دل میں اپنی محبت کی جڑیں مضبوط کیوں نہیں کر سکے۔ کیا وجہ ہے اولادیں احسان فراموش ہو گئیں۔ اتنا سب کچھ وصول کر کے ان کو اپنے والدین سے کیوں اور کس طرح کے شکوے ہیں۔ ان کے مابین سرد جنگ کو ختم کرنے کے لیے کیا اولڈ ایج ہوم بہترین حل ہیں؟ یا ان کا بہترین حل شکوں کا جواب دینا (مرض کی بہتر تشخیص کر کے اس کا علاج کرنا ہے)۔ والدین بچوں کے لیے ہمیشہ شکوہ کناں رہتے ہیں۔ کیا کبھی آپ میں سے کسی کو خیال آیا ہمیں ہی بچوں سے شکوے کیوں ہیں بہت سمجھانے کے باوجود بچے کیوں ضدی گستاخ ہوتے جا رہے ہیں۔ ادھر اُدھر سے پوچھنے کی بجائے بچوں سے ہی کیوں نہ پوچھا جائے؟ ایک ورکشاپ میں بچوں سے پوچھا گیا آپ کو والدین سے کیا شکایات ہیں انہوں نے کہا وہی جو ان کو اس وقت ہم سے ہیں۔ انتہائی قابل غور باتیں ہیں جن پر برسوں پہلے توجہ دی جانا چاہیے تھی۔ بچوں کا کہنا ہے، والدین کو تربیت کی ضرورت ہے، ان میں برداشت کی کمی ہے، یہ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمیں بھی جھوٹ سیکھاتے ہیں۔ والدین ہمیں وقت نہیں دیتے، والدین اور بچوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا علم نہیں، والدین بچوں کو جو سکھاتے ہیں بچے وہی سیکھ کر بڑے ہوتے ہیں (یہ الفاظ انتہائی غور طلب ہے)، والدین کے لڑائی جھگڑے بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، والدین اپنے بچوں کے سامنے اپنے والدین اور اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے اس وقت بظاہر بچے بولتے نہیں مگر یہی رویے بچوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی تربیت کا حصہ بنتے ہیں اس تربیت سے والدین بےخبر ہوتے ہیں جو وہ اپنے عمل سے ان کی تربیت میں شامل کر چکے ہوئے ہوتے ہیں، گھروں میں دینی ماحول کا نہ ہونا، والدین کی مصروفیات، موبائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال، روزگار کی مصروفیت، آپ میں سے ہر کوئی موبائل کو 24گھنٹوں میں سے 5 گھنٹے لازمی دیتا ہے۔ آنکھ کھولے یا بند ہو پہلی ترجیح موبائل۔ آپ میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو ٹٹولتا جائے کیا ایسا نہیں ہے؟ موبائل کی وجہ سے ہم اپنے رشتوں سے دور ہوئے ہیں یا قریب؟

گھر آنے کے بعد بھی باہر کے ادھورے کام گھر لائے جاتے ہیں۔ جو ٹائم فیملی کا ہے وہ دوستوں کو کال کر کےگپیں لگا کر گزار دیا جاتا ہے۔ بچے سامنے بیٹھ کر ماں باپ کا منہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ باپ گھر آتا ہے پہلی بات کیا ہوتی ہے، آج تو میں انتہائی تھکا ہوا ہوں مجھے ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ بچے پاس آنا چاہتے ہیں باتیں کرنا چاہتے ہیں آنے نہیں دیا جاتا۔ امی جان کا بھی یہی فرمان ہوتا ہے بابا کے پاس نہ جاؤ شور نہ مچاؤ بابا تھکے ہوئے ہیں۔ تھکن کے باوجود دوست کی کال آ جائے تو خوشگوار موڈ کے ساتھ ان سے باتیں کی جاتی ہیں اور گھنٹہ بھر بات کرنے کے بعد مزید کہا جاتا ہے یار کچھ اور کوئی نئی تازی۔ کوئی مانے یا نہ مانے موبائل نے رشتوں کی جگہ لے لی ہے۔ گھر میں بچے والدین کو پکاریں یا والدین بچوں کو پہلی آواز سن کر بھی کوئی نہیں سنتا موبائل کی پہلی رنگ پر ہر کوئی دوڑ کر دیکھے گا کس کی کال ہے؟

ایمان داری سے اپنے اپ کو ہہ جواب دیں کبھی آپ نے اپنے بچوں کو پاس بٹھایا ہو ان کو جی بھر کر بولنے دیا ہو ان کی ہر بات کو غور سے سنا ہو پھر ان کو اور بولنے پر اکسایا ہو، نہیں نا؟ بہت مصروفیات کے باوجود بہت تھکنے کے باوجود نمازی نماز کے لیے وقت نکالتا ہے۔ بس بات ساری ترجیحات کی ہے۔ بچوں کو سننا ان کو وقت دینا یہ ان کا حق ہے۔ آپ والدین بس ان کو میسر آ جائیں بچے بےراہ روی کا شکار نہیں ہوں گے آپ کے اور بچوں کے شکوے نہیں رہیں گے۔ بچوں کو کم عمری میں اسکولنگ کروائی جاتی ہے۔ اس عمر میں جب بچے ماں باپ کے ساتھ لپٹے رہنا چاہتے ہیں وہ لمحے وہ وقت ان کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے جب کہ ان کو خود سے زبردستی جدا کر کے اسکول میں بھیج دیا جاتا ہے جب کہ وہ جدا نہیں ہونا چاہتے۔ یہ جدائی زبردستی بچوں میں چڑچڑا پن اور ضد پیدا کرتی ہے۔ بچہ سکول سے آتا ہے تو پہلی آواز آتی ہے جلدی کرو ٹیوشن جانا ہے پھر قاری صاحب پھر ہوم ورک۔ بچہ آنکھ کھولتے ساتھ جو کثرت سے 3 باتیں سنتا ہے ”اسکول، ٹیوشن، قاری صاحب۔ پھر رات ہوئی اب سو جاؤ صبح اسکول جانا ہے اس سارے عرصہ میں بچے کو والدین کب میسر آئے؟ بچوں کو چھٹیاں ہوتی ہیں مائیں انتہائی پریشان ہو جاتی ہیں بچوں کو مصروف کرنے کی کے لیے پلاننگ کی جاتی ہے۔ بچے زیادہ سے زیادہ مصروف رہیں۔ بچے والدین سے دور نہیں ہونا چاہتے۔ والدین کا سمجھنا ہے ہم بچوں کی بھلائی کے لئے ایسا کر رہے ہیں بچے والدین کے انہی تکلیف دہ رویوں کے ساتھ بڑے ہو رہے ہیں۔

اولڈ ہوم میں جانے والوں سے پوچھیں وہ کیا شکوہ کرتے ہیں ہمارے بچے ہمیں ”ٹائم ” نہیں دیتے۔ یہی شکوہ بچے بھی کرتے آ رہے ہیں جس پر والدین نے کان نہیں دھرے۔ آپ نوٹ کریں وہ کون سے حیلے بہانے ہیں جو بچے کرتے ہیں پھر آپ نوٹ کریں وہ آپ کے گرد منڈلاتے ہیں۔ یاد کریں آپ والدین جب بچوں کو سکول ہاسٹل میں چھوڑنے جاتے ہیں بچے روتے ہیں ہمیں آپ کے ساتھ رہنا ہے آپ نہیں سنتے زبردستی کرتے ہیں بچے کی بھلائی اور فائدے کی بات کرتے ہیں آپ کے بچے کا کوئی ایسا لیکچر نہیں ہوتا جس کے مس کرنے پر اس کا مستقبل برباد ہو جائے گا۔ اصل میں آپ نے اپنے بچے کو کبھی سمجھا ہی نہیں اس کے شکوے بڑھتے گئیے اور ان شکووں اور آپ سے دوری کا بےحسی میں تبدیل ہونے کا پھل اولڈ ایج ہوم کی صورت میں ملنے لگا۔ اولڈ ایج ہوم میں رہنے والوں سے آپ پوچھیں جب آپ کے بچے آپ کو یہاں چھوڑ کر جاتے ہیں تو کیا کہہ کر آپ کو خود سے دور کرتے ہیں؟ ”وہی لفظ لفظ لوٹاتے ہیں جو ان کی سماعت میں انڈیلتے ہوئے آپ ان کو خود سے دور کیا کرتے تھے“ہم یہ سب آپ کی بہتری کے لئے کر رہے ہیں“ آپ کو یہاں وقت پر کھانا ملے گا، وقت پر دوائی دی جائے گی، بہت آرام اور سکون ہے یہاں۔ ہمیں آپ سے محبت ہے تبھی آپ کو یہاں لائے ہیں۔

ڈریں اس وقت سے جب بچوں کی پلاننگ میں اولڈ ایج ہوم ہوں گے (اور ایسا ہو گا گزرتا وقت بتا رہا ہے) آپس میں ڈسکس کریں گے کون سا اولڈ ایج ہوم ٹھیک ہے کس میں زیادہ سہولتیں ہیں کس کا عملہ زیادہ اچھا ہے۔ والدین کی کی گئی محنت، کمائی سب کچھ بچوں کے لیے ہے مگر وقت کا نہ دینا ہر کمی پر بھاری ہے۔ بچے والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہیں۔ سہولتیں یتیم خانے میں بھی ملتی ہیں مگر ماں باپ نہیں ہوتے۔ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بچے یتیموں والی زندگی گزار رہے ہیں والدین کے ہوتے ہوئے والدین میسر نہیں۔ والدین کی محرومی کا ازالہ بچوں کو دی جانے والی سہولتیں نہیں کر سکتیں۔ بچوں کو والدین چاہئیے۔ آپ کی محبت آپ کی توجہ۔ بچے کو نہیں پتہ ہوتا پیسہ کیا ہے سہولتیں کیا ہیں۔ والدین خود سے دور کر کے بچوں کو پیسوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ بیش بہا سہولتیں دیتے ہیں۔ آپ ایمان داری سے اپنا احتساب کریں۔ بچے اسکول، ہوسٹل ٹیوشن، قاری کے پاس جاتے وقت انکار کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں ماما بابا ہمیں آپ کے پاس رہنا ہے گھر واپس چلیں مجھے گھر جانا ہے، بچے پیسوں اور سہولتوں کے لئے نہیں روتے۔ ماما پاس جانا ہے بابا پاس جانا ہے، مجھے بس گھر جانا ہے، اس کے علاوہ بچہ کوئی بات نہیں کرتا۔

جن والدین کے پاس وقت نہیں انتہا کی مصروفیت ہے موبائل ہے، وہاں بچے بےراہ روی کا شکار کیوں نہ ہوں گے کیوں نہ بےحس ہوں گے کیوں نہ اولڈ ایج ہوم آباد کروائیں گے۔ بچے ہماری توجہ چاہتے ہیں، ہم سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور ہم سن نہیں سکتے اکتاہٹ ہوتی ہے، ، سر درد شروع ہو جاتا ہے۔ جب والدین نہیں سنیں گے تو بچے کہیں اور سنانا شروع ہو جائیں گے۔ ایسے بچے پھر فیس بک اور وٹسایپ کا کثرت سے استعمال کرنے لگتے ہیں پھر والدین کہتے ہیں فیس بک نے ہمارے بچوں کو خراب کر دیا۔ اصل میں والدین نے خود خراب کیا۔ بچے تنہا چھوڑ دیے اب انہوں نے کوئی مصرف تو تلاش کرنا ہے۔ پھر والدین کے شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ بچےتنہا رہ گئے ہیں ماں باپ کو کوئی پریشانی نہیں۔ وہ پریشانی دیکھنے لائق ہوتی ہے جب موبائل کی چارجنگ ختم ہو جائے اور چارجر کو گم پائیں۔ آگاہی بہت ضروری ہے المیہ یہ ہے والدین بچوں کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں ان کو کون سی بات خوش کرتی ہے، ان کو کون سی کہانی پسند ہے، کون سا کھانا پسند ہے، بچوں کی تربیت وقت دینے سے ہوتی ہے۔ تعلق مضبوط ہوں تو اچھی تربیت ہوتی ہے۔ اور سب سے اہم بات بچوں پر اعتماد کریں ان پر ہر وقت شک نہ کریں آپ کا شک بچے کی شخصیت بننے نہیں دیتا۔

بچوں کو الفاظ سے بھی اور عمل سے بھی باور کرواتے ہیں آپ قابل اعتماد نہیں۔ نماز تک کی تصدیق قاری صاحب سے کروائی جاتی ہے اور اس شک اور بے یقینی کی وجہ سے بچے کبھی خود بھی قاری صاحب بن جاتے ہیں۔ بچہ اگر جھوٹ بولتا ہے آپ اس پر اعتماد کرنا نہ چھوڑیں بھلے آپ کو سو فیصد یقین ہے بچہ جھوٹا ہے۔ نتیجہ!جب ہم پر مسلسل کوئی اعتماد کرتا ہے تو ہم ایک دن اپنے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے فکر مند ضرور ہوتے ہیں ہمیں ضرور خیال آتا ہے کہ میں مسلسل جھوٹ بولے جا رہا ہوں اور وہ مجھ پر اعتماد کیے جا رہے ہیں۔ والدین سوچیں آپ نے آخری بار کب اپنے بچے کو گلے لگایا اس کو چوما؟ آخری بار کتنے دن پہلے مسکرا کر بات کی؟ بچوں کے ساتھ تعلقات بنانا سیکھیں انہیں بے وجہ پیار کریں۔ مطلبی محبت نہ کریں۔ محبت کا اظہار اپنے عمل کے ساتھ اور محبت بھرے الفاظ کے ساتھ کریں۔ نہ کہ یہ کہیں آپ مجھے بہت پیارے ہو کیونکہ آپ میرا کہنا مانتے ہو۔ میرا یہ والا بچہ تو میری طبیعت کے مطابق بزنس چلا رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ محبت بطور رشوت نہ کریں۔ غیر مشروط محبت کریں۔

حضرت زیدؓ بن حارث کو کون نہیں جانتا وہ بچپن میں ماں باپ سے جدا کر دیے گئے تھے آخر کار نبی پاکؐ تک پہنچے ان کے ساتھ باقی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ کیوں؟ صرف محبت اور توجہ کی وجہ سے۔ نبیؐ تو نماز میں بھی بچوں کے جذبات کا خیال رکھتے تھے بچے سجدے کی حالت میں اگر آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہو جاتے آپ سجدے کو لمبا کر دیتے جب تک وہ اتر نہ جاتا۔ بچوں کو من مانی کرنے دیا کریں سوائے ان کاموں کے جس میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی نافرمانی ہو۔ انسان کی اصلاح تب ہوتی ہے جب وہ غلطی کرتا ہے۔ بچوں کو بچپن سے ہی فیصلے کرنے دیں ان کو اپنی مرضی سے کپڑے پہننے دیں اپنی چیزوں کا انتخاب کرنے دیں یہی باتیں آئندہ زندگی میں فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ بچوں کی انسلٹ نہ کریں۔ بچے کی عزت نفس محفوظ رکھیں تاکہ وہ معاشرے کو عزت دے سکے۔ بچہ اگر سیدھے راستے سے دور جا رہا ہے وجہ تلاش کریں۔ بچہ ضرورت سے زیادہ تنگ کرتا ہے ضد کرتا ہے اس کو ایک گھنٹہ ٹف گیم کروائیں۔ بچوں کو کہانیوں کے ذریعے نصیحت کریں ان کی کمی کو کہانی کے ذریعے سنواریں۔ اگر جھوٹ بولے تو سچ بولنے والی کہانی سنائیں نہ کہ جھوٹ بولنے والے کے انجام والی۔ کہانی انسان کو یاد رہتی ہے اور اثر انداز ہوتی ہے۔ قرآن میں بھی تو اللہ نے کہانیاں بیان کی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام وغیرہ۔ بچے آپ کا سرمایہ ہیں اپنا نقصان نہ کریں۔ اولڈ ایج ہوم آباد نہ ہونے دیں۔ خود کو اور اپنے بچوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔

نور مصطفٰی

 

نور مصطفیٰ
Latest posts by نور مصطفیٰ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).