کیا حال پوچھتے ہو میرے کاروبار کا


لوگ کہتے ہیں ٹوٹ جانے سے جُھک جانا بہتر ہے۔ ہم کہتے ہیں جھُک جانے سے ٹوٹ جانا بہتر ہے۔ کیونکہ جُھک کر جینے میں آپ زندگی کی اصل لذت اور مقصد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوجاتے ہیں۔ اِس لئے  ایک لمبی بے مقصد لاحاصل زندگی گزارنے سے بہتر ہے انسان چھوٹی ہی سہی لیکن ایک با مقصد سیر حاصل زندگی گزارے۔ ٹیپو سلطان (1750۔ 1799) جیسے نڈر بہادر اور جانباز سپاہی نے شاید اِسی تناظر میں اپنے آخری لمحات میں ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ یہ الفاظ اداکیے تھے ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزارسالہ زندگی سے بہتر ہے“ یہ الفاظ اپنی حقیقت پسندی کے ساتھ رہتی دنیا تک کے لئے اَمر ہوگئے۔

اِسی طرح لاتنی امریکی ریاست میکسکو کے مشہور نیشنلسٹ/ فریڈم رہنما ایمیلیانو زپاٹا (1879۔ 1919) کاقول ہے ”کسی کے آگے جھک کر جینے سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر مرنا بہتر ہے“
قارئین آپ غور کریں تو دنیا کے اِن دونوں عظیم انسانوں کی عمر ِحیات کوئی زیادہ طویل نہیں۔   ایک کی کل عمر 49 سال اور دوسرے کی 40 سال بنتی ہے۔ دونوں ہی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے اِس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ لیکن ہر دھڑکتے دل میں خود کو قیامت تک کے لئے زندہ کرگئے۔ ایسے انسان کبھی نہیں مرتے وہ مر کر بھی امر رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود مر کر دوسروں کو جینا سکھا جاتے ہیں۔ وہ یہ بتلا جاتے ہیں کہ دوسروں کے لئے جینا ہی دراصل زندگی کا مقصد ہے۔ وہ اپنے نفس کی پرستش نہیں کرتے وہ معاشرتی تمدن کی پرورش کرتے ہیں۔ جمود کو توڑ کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

لیکن آج برعکس اِس کہ ہمارے معاشرے میں نفس پرستی کا رجحان عام ہوچکا ہے۔ ناجائز خواہشات کا حصول اس قدر شدت اختیار کرگیا ہےکہ ہر انسان خود کو دوسرے سے برتر ثابت کرنے کی تگ ودو میں اپنے اصل مقصد سے منحرف ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر ایک افراتفری اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔

دیکھا جائے تو آج انسان کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ خود انسان ہی ہے۔ جو معاشرے میں ایک ایسے بے لگام گھوڑے کا کردار ادا کررہا ہے جسے قابو میں لانا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے اور ہرچند اپنی جان کا دشمن بن بیٹھتا ہے۔

بحیثیت انسان معاشرتی اقدار سنوارنے کے لئے ہر دور میں اہلِ دانش اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ تاکہ معاشرہ اُصولی بنیادوں پر پرورش پا سکے۔ امن و آشتی کا گہوارہ بن سکے انسانی تہذیب و تمدن کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکے۔ کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جانا جاسکے۔

لیکن آج دنیا کی تمام تہذیبوں سے یہ عنصر ناپید ہوچکا ہے۔ سوائے چند ایک مغربی قوموں کے جنھوں نے کم ازکم عالمِ انسانی کے لیے جدید راہیں تو کھولیں اور تعمیرو ترقی میں کچھ نام تو پیدا کیا۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت ِ زار پر سوائے رونے اور ندامت کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ پیغمبرِاسلام محمدﷺ کا خالص اسلامی تصور بہترین اعلیٰ اقدار کا ضامن ہے جوکسی بھی معاشرتی ڈھانچے کوجدید خطوط پر استوارکرنے کی بہترین صلاحیت رکھتاہے۔ لیکن آج کے مسلمان کائنات کے امین کا وہ تصورِ اسلامی وہ فکرِ تعمیری وہ درسِ ہمہ گیری بھولے بیٹھے ہیں۔ خود کو عضو بے کار بنائے ہوئے ہیں۔ حال یہ ہے کہ جو کام اُمتِ مسلمہ کے ذمہ تھا وہ اغیارسنبھالے ہوئے ہیں۔ آج جو اُمت کا حال ہے اُس پر اقبالؒ کے یہ اشعار بالکل فِٹ بیٹھتے ہیں۔

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

سچ پوچھیں تواکثریت کی ذہنی کیفیت کا حال یہ ہے اقبالؒ کے اِن اشعار پر کسی کو غصہ تو آسکتا ہے لیکن عقل نہیں۔ دنیا کے تمام مسلم ممالک کی صورتحال کا جائزہ لے لیجیے فرقوں مسلکوں میں بٹا مسلمانوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر تو نظر آئے گا لیکن اسلام نہیں۔ جس کی اصل وجہ نفس پرستی میں مبتلا یہی انسان ہے جو اپنے نفس کا مرید بن کر فکرِ انسانی سے غافل ہوچکا ہے۔ اب اسے اپنے آگے کچھ نظر نہیں آتا، صرف اپنا اُلو سیدھا کرنا آتا ہے اِسے اب انسان اور انسانیت کے نام سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اپنے لئے جینا ہے اپنے لئے مرنا ہے اور صرف۔ ” اپنی“ آخرت سنوارنی ہے۔ قارئین یہیں قلم روک کر تحریر کا اختتام کرتے ہیں کیونکہ مزید لکھا شاید ہضم نہ ہوپائے۔ ویسے ہی کچھ دوستوں کی ہمارے بارے میں رائے اِس شعر کے مصدق ہے۔

کیا حال پوچھتے ہو میرے کاروبار کا
آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).