محبوب نرالے عالم اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار


نرالے عالم چنے بیچا کرتے تھے ۔ سر پر چھابڑی اٹھائے جب وہ صدا لگاتے ہوں گے تو کتنے لوگوں کو احساس ہوا ہو گا کہ وہ کس سے چنے خرید رہے ہیں؟ پی ای سی ایچ کے حسین / میرے چنے سے نمکین / بولے بھائی خیر الدین / پاپڑ ایک آنے کے تین / چنا کڑک ۔۔۔ یہ آواز لگانے والے استاد محبوب نرالے عالم اورنگی میں رہتے تھے ۔ شہزادی اختر جہاں بیگم اور ان کے سات بچے تھے ، وہ سب خدا کو پیارے ہو گئے اور جب اختر جہاں کا بھی انتقال ہوا تو استاد اکیلے رہ گئے ۔

بھائی راشد اشرف لکھتے ہیں کہ جس مہربان گھر میں بیوی بچے گزر جانے کے بعد استاد نے عمر کے آخری چودہ پندرہ برس گزارے وہاں کی خواتین کا یہ کہنا تھا کہ تمام عرصہ ہم نے ان کی آنکھ کی پتلی بھی نہیں دیکھی۔ ایسے مہذب اور احترام کرنے والے انسان تھے کہ ہمیشہ نگاہیں جھکا کر بات کیا کرتے ۔ بہادر شاہ ظفر کی برسی ان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی تھی۔ اس دن انہیں گھر میں ہی بنایا ہوا کپڑے کا تاج پہنایا جاتا، گھر کے لوگ اس تاج پوشی کے جشن میں شریک ہوتے ، ان کی فرمائش پر قورمہ اور زردہ وغیرہ بنایا جاتا اور یوں بقول خود، بہادر شاہ ظفر کے آخری وارث تاجپوشی کے بعد کھانا کھا کر دوبارہ چنے اور پاپڑ بیچنے نکل جاتے ۔

ایوب خان کے دور میں بنیادی جمہوریت کے انتخابات ہوئے تو استاد نے بھی ان میں حصہ لیا۔ وہ ایک اسپیشل لباس پہن کر کمپین چلاتے تھے جس کی خصوصیت ان کی کئی فٹ لمبی ٹوپی تھی۔ کپڑوں پر لکھا ہوتا کہ آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار یہ حلال خور ہے ۔ ٹائم میگزین تک میں ان کے بارے میں آرٹیکل چھپا اور اس دور کے دیگر بڑے لکھنے والوں نے بھی کئی بار استاد کے بارے میں لکھا۔ وہ شاعری کرتے تھے اور ان کے مضامین بھی اخباروں میں چھپا کرتے تھے لیکن استاد ایک عظیم الشان کیریکٹر تھے ۔ ان کی شاعری میں وزن یا کسی مطلب کا پایا جانا ضروری نہیں تھا، وہ کبھی بھی کسی بھی زمین میں کچھ بھی کہہ سکتے تھے ۔ نثر میں قدرے سنجیدہ طبیعت پائی تھی لیکن عام لوگ انہیں شہزادہ ہونے کے دعوے کی وجہ سے ہمیشہ تفریح میں لیتے تھے ۔ کوہ نور کی ملکیت، مغل یادگاروں پر قبضے کی حقوق اور ایسے کئی دعوے اخباروں میں ان کے نام سے چھپتے رہتے تھے ۔

جوش ملیح آبادی جلالی طبیعت کے آدمی تھے ، ایک بار استاد ملاقات کی غرض سے پہنچ گئے ۔ جب کچھ بات چیت ہوئی تو جوش صاحب ان کی سنک سے کسی بات پر جھلا گئے اور غصے میں ان کے پیچھے دوڑ پڑے ، کچھ دور جا کر استاد رکے اور نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے ، “جوش صاحب آپ ہاتھ پاؤں میں مجھ سے جیت سکتے ہیں مگر ادب میں مقابلہ نہیں کر سکتے ۔” جوش صاحب بے ساختہ ہنس پڑے ۔

وزرٹ زٹاخ چرخم چرغاز غازبوں

فریاد زنان مونگ پھلیم گوں گوں

گوں گوں چہ کٹار باندھم چوں چوں

فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی

یہ استاد کا نمونہ کلام تھا۔ وہ بے چارے ایسے ہی اپنی بادشاہت کے دعوے اور شاعری کرتے کرتے انتقال کر گئے ۔ چھ جولائی ان کی بارہویں برسی تھی۔ لیکن دنیا کبھی محبوب نرالے عالموں سے خالی نہیں رہتی۔ تخت و تاج کے دعوے نہ سہی سیاست میں وزیر پنتھی سہی۔ اصغر خان تاریخ کا ایک مشہور نام ہیں۔ ذاتی طور پر انتہائی شریف اور نجیب الطرفین آدمی تھے لیکن ان کے بارے میں پڑھا جائے تو ایسے ہی بہت سے کردار یاد آ جاتے ہیں۔ مثلاً جب انہوں نے اپنی پہلی پارٹی بنائی تو اس کا نام جسٹس پارٹی رکھا، یعنی “انصاف پارٹی”، پھر اسے بعد میں بدل کر پی ٹی آئی کر دیا، وہ پاکستان تحریک استقلال کہلائی۔ ستر کے الیکشنوں میں تاریخ ساز شکست نے ان کے قدم چومے ۔ بنگلہ دیش بنا تو پیپلز پارٹی کے خلاف سارے پاکستان کی اپوزیشن اکٹھی ہو گئی، نہ جنبد گل محمد، انہوں نے شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ وہ بھی اس حد تک اپنے آپ کو وزیر اعظم ہونے کا اہل سمجھتے تھے کہ دوسری پارٹیوں کے ساتھ اکٹھے ہو کر چلنے میں انہیں اپنی اہمیت کم ہوتی دکھائی دیتی اسی لیے وہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہمیشہ الگ ہی بناتے تھے ۔

ان دنوں فیس بک نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے جلسوں میں بھی اخیر قسم کا رش ہوتا تھا۔ فل ٹائم بھٹو حکومت پر گرجتے برستے تھے ، لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور وہ اپنے جلسوں میں اتنا رش دیکھ کر باغ باغ ہو جایا کرتے ۔ وہ تو ایمپائر کی انگلی کا بھی انتظار نہیں کرتے تھے ، سیدھے سیدھے خط لکھ دیتے تھے ایمپائر کو، جس کا ڈھکا چھپا مطلب یہی ہوتا تھا کہ “مری بار کیوں دیر اتنی کری۔” پھر جب مارشل لا لگ گیا اس کے بعد بھی وہ مکمل مطمئن تھے کہ اب تو میری باری آئی کہ آئی۔ وہ تن من دھن سے اگلے الیکشنوں کی تیاری میں لگ گئے بلکہ بیرون ملک دورے بھی کیے ، ان کو لگتا تھا کہ پورے پاکستان سے ان کی پارٹی باآسانی اتنی سیٹیں جیت جائے گی کہ وہ وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ اس چکر میں وہ دوبارہ متحدہ اپوزیشن سے بھی تعلق توڑ بیٹھے ۔ اب اس کے بعد جنرل ضیا مرحوم نے جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن بعد میں اصغر خان جنرل صاحب سے بھی کچھ کھچے کھچے رہتے تھے ۔ شاید اس کی وجہ پورا گاؤں مرنے کے بعد بھی وزیر اعظم نہ بننا ہو۔ تو خیر، استاد مرحوم کی طرح “تنویرِ جمالی” اور ذاتی شرافت ان کے یہاں بھی بہت تھی۔

آج صبح اخبار پڑھا، ایک بیان دیکھا “زبردست میچ ہونے والا ہے ، نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں دیکھ رہا ہوں۔” اور لگا کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر وہی اصغر خانی خواہشات اور مرحوم استاد والی اخباری بادشاہت کا کھیل کھیل رہی ہے ۔ وہی خود پسندی، وہی اڑان، وہی خواب، وہی مزاج اور وہی نمونہ کلام، حد یہ کہ اصغر خان بھٹو کو ادھر کوہالہ کے پل پر پھانسی دینا چاہتے تھے ، یہ اڈیالہ جیل کی بات کرتے ہیں۔ کبھی سیاسی جماعتوں کو مافیا کہہ دیں گے ، کبھی کرکٹ میچ تقریر کے درمیان آ جائیں گے ، کبھی مخالفین کو چوروں اور ڈاکوؤں کا خطاب ملے گا، کبھی ان کی شکلوں پر تنقید ہو گی، کبھی سر کے بالوں کا مضحکہ اڑایا جائے گا، کبھی دوسروں کے قد و قامت یا جسم کے بارے میں پھبتیاں کسی جائیں گی اور ہمیشہ ان چار عناصر کو آگے پیچھے کر کے تقریر بن جائے گی۔

سوال یہ ہے کہ منتخب وزیر اعظم اگر اڈیالہ جیل چلے بھی جائیں تو کیا چاہنے والوں کی باریاں آ جائیں گی؟ نہیں آئیں گی بھئی، ن لیگ ہی سے کوئی دوسرا وزیر آئے گا، جیسے تیسے مدت پوری ہو گی، دوبارہ الیکشن ہو گا اور کسی تھکے سے تھکے سروے کو بھی دیکھ لیں تو نتائج کم و بیش اسی قسم کے مکس پلیٹ والے آئیں گے ۔ ہاں کے پی والے ہر مرتبہ کچھ نئی خبریں دیتے ہیں، اس مرتبہ تو وہاں سے بھی پچھلی بار جتنی سیٹیں نہیں ملنے والیں تو یہ وزارت عظمیٰ کی تعبیر کس کروٹ شرمندہ ہو گی کچھ سمجھ نہیں آتا۔

ذاتی نجابت، کھیل کے میدان میں کامیابیاں، پرکھوں کے نام و نسب کا فخر، پرسنل فٹنس، فلاحی کام، دشنام طرازی، تند و تیز بیانات وغیرہ زمینی حقائق کو نہیں بدل سکتے ۔ انہیں بدلنے کے لیے کے پی میں بہت سنہرا موقع تھا لیکن دو تین سال تنقید کے بعد جو سامنے آیا وہ ادھر بھی ایک عدد میٹرو تھی اور وہی ن لیگ والے منصوبے تھے ۔ نیا کیا تھا؟ وہی استاد والی بات کہ آپ ہاتھ پاؤں میں مجھ سے جیت سکتے ہیں لیکن “ادب” میں نہیں جیت سکتے ۔

کراچی کے ایک بزرگ دلائل دے رہے تھے کہ لاہور میں بڑا ادب کیوں نہیں پیدا ہو سکتا، بولے یہاں نہ سمندر ہے نہ استاد محبوب نرالے عالم جیسے نابغہ روزگار ہیں۔ سامنے والا کہنے لگا قبلہ، خدا بڑا کارساز ہے ، سمندر ہو نہ ہو استاد جیسی ہستیوں کے معاملے میں پنجاب کا خطہ بہت مردم خیز ہے ، آپ بھروسہ رکھیے ، لاہور تو لاہور دور دراز علاقوں میں بھی ایسے کردار پیدا کر دیتا ہے کہ ساری کسر پوری ہو جاتی ہے ۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain