بھوتنی کا سلام آیا ہے


ایسے لگا ہے جیسے کسی نے تھان سے سوٹ پھاڑا ہے۔ یہ تھان لوہے کا تھا کیا جان نے پوچھا، تمھیں ہر وقت زنانہ سوٹ ہی یاد آتے رہتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کوئی سکوٹر رکشے میں وجا ہے۔ بہت اچھا ہوا ہے دونوں کے ساتھ ٹریفک سینس نہیں ہے۔ تم گاڑی چلا کیوں نہیں رہے پیچھے لائین لگ گئی ہے۔

جان گاڑی چل ہی نہیں رہی اس میں سے تو دھواں کتنا اچھا نکل رہا ہے۔ اس کے بعد جان نے اتر کر گاڑی کو دھکا لگایا۔ بڑی مشکل سے وہ سائیڈ پر ہوئی مستری کو بلایا پتہ لگا کہ انجن سیز ہو گیا ہے۔ ہم دونوں نے اظہار مسرت کیا کہ بس انجن ہی سیز ہوا ہے گاڑی بچ گئی ہے۔

تم اسی قابل ہو کہ تمھیں اب پیدل دفتر لے کر جاؤں۔ سارے پیسے اپنی منحوس گاڑی پر لگوا دیے۔ ایک ٹکہ نہیں ہے اب میرے پاس مہینہ پتہ نہیں کیسے گزرے گا۔ پہلے تمھیں ہائی ٹی کی پڑی ہوئی تھی بندہ صبر کر لیتا ہے۔ جان یہ آپ کی باری تھی اس میں کوئی رعائت نہیں ہو سکتی۔ ہم دونوں باری باری ہائی ٹی پر پشاور پی سی پر جایا کرتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر ہم سیاست حالات میڈیا مستقبل وغیرہ پر غور کیا کرتے تھے۔

دفتر پہنچ کر جان نے حکم دیا تھا کہ ہلنا نہیں ہے اور بولنا بھی نہیں ہے۔ سامنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر جو مرضی کرو لیکن گھر بھی نہیں جانا۔ دفتر میں اب سب کی شامت آ چکی تھی سب کا احتساب ہو رہا تھا۔ اپنے باس کا موڈ دیکھ کر سب سر جھکا کر کام کر رہے تھے۔ اپنی بوریت دور کرنے کے لیے میں نے نیٹ پر سرفنگ شروع کر دی تھی۔

پری زاد آن لائین دکھائی دے گئی تو اس سے باتیں شروع کر دیں۔ پری زاد سے پوچھا تھا کبھی کہ بھوتوں کا کیا بنے گا۔ اس نے کہا ہیں بھوتوں کو کیا ہوا اور آپ کو بھوتوں کی کیا فکر۔ یہ سن کر پری زاد کو بتایا کہ آپ نے تو اپنا نام پری زاد رکھ لیا بھوتوں کا کیا قصور ہے۔ آپ ہی اپنا نام بھوتنی رکھ لیتیں تو ان بیچارے بھوتوں کا بھی نام ہو جاتا ویسے بھی باتوں سے میک اپ سے یہی نام آپ پر سجتا ہے۔

اپنے نام کا ایسا حشر دیکھ کر پری زاد یا بھوتنی جو بھی آپ سمجھیں جب کہیں وسی بابے کو آن لائین دیکھتی تو اس کی طبعیت صاف کرنے آ جاتی۔ جتنا اس کا بس ہوتا وہ اتنا پیار جتاتی کہ اک بار مل سئی پھر دیکھنا۔ بھوتنی نے کلاس لینا شروع ہی کی تھی تو اسے کہا آج ایک برا دن ہے تو وہ گزارا کرے۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہوا تو اسے بتایا کہ ہائی ٹی رہ گئی رات سے تیاری کر رہا تھا۔ گاڑی بھی خراب ہو گئی پیسے بھی نشتہ بھوک لگی ہے۔ نرم دل بھوتنی نے کہا کہ ہائے واقعی ایسا ہوا کیا آپ بھوکے ہیں۔ اسے بتایا کہ اور نہیں تو کیا تب میں پلاؤ ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو دفتر میں منگوا دیا تھا جان نے۔

آپ اسلام آباد آئیں میں آپ کو کھانا کھلاؤں۔ ایسے لاروں میں ہم کدھر آنے والے تھے کسی کا نام بگاڑ کر ملاقات کی جرات بندہ تب ہی کر سکتا جب اسے اپنا مفت مساج کرانا ہو۔ جب کھانے کی دعوت ملی تو یہ وہ گھڑی تھی جب جان صاحب پیچھے کھڑے چیٹ پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا یہ کون ہے تو فوری بتایا کہ دوست ہے اور کیا بتاتا۔ کیا کہہ رہی ہے تو انہیں بتایا کہ کہہ رہی کہ اسلام آباد آ جا ڈنر کراتی ہوں۔ تو جاتے کیوں نہیں ہو پیسے کدھر ہیں اور اب گاڑی بھی کدھر ہے۔ پیسے تو واقعی نہیں ہیں جان نے کہا اور گاڑی کا بھیمسئلہ۔ لیکن نیک کام میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ گاڑی تو میں ایک دوست سے مانگ لیتا ہوں پیسے کسی سے ادھار لے لیتا ہوں۔

بھوتنی سے کہا بس اب ہم پہنچ رہے تم آلو آنڈے کی دیگ بنواؤ۔

جان صاحب کی ہمت تھی کہ ہم بیس پچیس منٹ بعد اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے۔ وہ گھر فون پر اطلاع دے رہے تھے کہ یار دیکھو نیکی کا کام ہے اس وسی نے شادی تو کی نہیں۔ دو دل مل جائیں اس سے بڑی نیکی کوئی نہیں ہوتی۔ اللہ بھی خوش ہوتا اس کام میں مدد کرنے والے کی آئندہ زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔ تم فکر نہ کرنا ہم رات کو واپس پہنچیں گے۔ لے بھئی گھر تو بتا دیا اب یہ بتا کہ پہنچنا کدھر ہے کتنی دیر تک ملاقات ہو گی ہماری۔ ہماری کون سی یہ میری ملاقات ہے آپ آرام سے اپنے اسلام آباد آفس جائیں۔ یار میں ایک بار لڑکی دیکھ لوں تو او کے کروں بات پکی کروں تمھاری۔ جان صاحب اس کا ایک منگیتر بھی ہے، ہیں تو تمھیں کیوں بلایا ہے۔ اب کیا بتاتا کہ مارنے کو پھر رہی ہے یہی کہا کہ مرتی ہے مجھ پر، جان صاحب بولے کہ یار معاملہ سیریس لگتا ہے میں دفتر ہی جاؤنگا۔

تم نے یہ منگنی ہونے ہی کیوں دی۔ اچھا دیکھو صرف جپھی ڈالنا کوئیمسئلہ نہ بنا دینا۔ جان صاحب پیزا ہٹ پر ملنا ہے سو بندے کے سامنے۔ پیسے دیں اب لڑکی بل دیتے اچھی لگے گی کیا۔ جان صاحب نے سارے پیسے دے دیے اور میں نے انہیں روڈ پر اتار دیا۔ یہ ہم دونوں نے ہی نہیں سوچا کہ بغیر پیسوں کے اب وہ کیا کریں گے اور کدھر جائیں گے۔

پری ذاد کم بھوتنی سے ملاقات ہوئی۔ وہ غصے حیرت کا مکسچر بنی بیٹھی تھی۔ اسے ہرگز امید نہیں تھی کہ کوئی یوں بھی ملاقات کا کہہ کر پہنچ سکتا ہے۔ آپ مجھے بھوتنی کیوں کہتے ہیں، یار معافی دے دو مجھے خود پر کنٹرول نہیں ہے جو دل میں ہوتا جو لگتا وہی کہتا۔ اس نے بولا تو کیا تھا لیکن یہ ایک لمبی دردناک سی چیخ تھی سب نے مڑ کر ہمیں دیکھا تھا۔ میں بھوتنی لگتی ہوں آپ کو تو اسے بتایا قسم سے ایسا ہی ہے۔ وہ مجھے دیکھتی رہی میں پیزا کھاتا رہا جان صاحب باہر روڈ پر واک کرتے رہے۔ ملاقات سے واپسی پر جب میں گاڑی بیٹھ کر نکلنے لگا تو وہ پھر دروازہ کھول کر ساتھ بیٹھ گئی۔ واقعی بھوتنی لگتی ہوں؟ لا ہاتھ ملا اس نے ہاتھ ملایا ہاں یہی لگتی ہو میں کیا کروں جھوٹ اب کیسے بولوں۔ اس نے کہا تمھاری تو اس کے بعد یہ ایک لمبی دوستی کی شروعات ہے۔

واپسی کا سفر جان کو سوالوں کے جواب دیتے گزرا۔ نوشہرہ کے پاس پہنچے تو اس کا گھر سے فون آ گیا تو اس نے کہا بس پہنچنے والے ہیں کھانا تیار رکھنا بہت بھوک لگی ہے۔ تب یاد آیا کہ اوہ انہوں نے تو کھانا بھی نہیں کھایا۔ یار بس کیا کریں دو دلوں کو ملانا نیکی ہے کھانے کا کدھر خیال رہتا۔ وسی بابے نے پوچھا کہ جان صاحب کونسے دو دل ڈیٹ پر خود گئے تھے اور نام میرا لگا رہے ہیں۔

اس کے بعد جان صاحب وضاحتیں دیتے رہے۔ میں گاڑی چلاتا رہا ساتھ ساتھ وہ کبھی فون پر منتیں کبھی مجھے غصہ کرتے رہے۔ اپنے گھر سے کافی دور اتار دیا تھا گھر میں ان کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔ میں ان سے ملنے کافی دن بعد ہی گیا تھا پھر۔

بھوتنی نے پکی دوستی یوں نبھائی کہ وسی بابے کی شادی میں راکٹ چلا دیے تھے۔ پھر اس کے ساتھ بھی یادگار ہوئی تھی۔ یہ کہانی یوں یاد آئی کہ رات ایک میسج آیا کہ کیسے ہیں آپ اپنی کہانی لکھیں نہ یا پھر کوئی راکٹ چلاؤں آپ کی اپنی بہت پیاری بھوتنی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi