اکیسویں صدی کی معیشت میں چین کا کردار


\"DSC_085200aa\"”چین ایک سو یا ہوا دیو ہے ، اسے سونے دو، جب وہ اٹھے گا تو دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا“۔ نیپو لین بونا پارٹ نے یہ بات آ ج سے قریب دو سو سال پہلے کہی تھی۔

آج کا ورلڈ آرڈر امریکا اور کچھ مغربی ملکوں نے اپنے مفاد کے لئے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنی بے پناہ طاقت کے استعمال سے بنایا ۔ یہ ورلڈ آرڈر چائنا کو دو دہائیاں پہلے تک قبول تھا جب چائنا کی معیشت نے پھلنا پھو لنا شروع کیا۔ مگر اب چائنا ایک تجارتی پاور بن چکا ہے اور دنیا کے فیصلوں میں اپنا حصہ چاہتا ہے کیونکہ امریکہ اور مغربی یورپ کے فیصلے اس کی معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ G 20کی 2009سمٹ میں سابقہ چائنیز پریزیڈنٹ ہو جنتاﺅ اورامریکن پریزیٹنڈٹ براک اوباما اےک سمجھوتے پر پہنچ چکے تھے (جس کے مطابق IMF میں چائنا کی ووٹنگ پاوربڑھانا تھی) مگر اس کانگریس نے یہ نہ ہونے دیا اور امریکن صدر کا وعدہ کبھی پورا نہ ہوسکا۔

یہ بات سب پر واضح ہے کہ چائنا ایک نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل چاہتا ہے جس میں چائنا ایک اہم حصہ دار ہو ۔ امریکا کی طرح اپنی جنگی طاقت کے استعمال کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر، تجارت اور سرمایہ کاری کی طاقت سے نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں اسے اپنے وزن کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو ۔

\"Meritimeاس کا طریقہ کار سادہ سا ہے ، پرانے تجارتی”سلک روٹ“ کو بحال کیا جائے جس کا چائنا ایک اہم حصہ تھا۔ صدر زی چنگ پنگ کی ”ون بلیٹ ون روڈ“ پالیسی اصل میں ” سلک روڈ اکنامک بیلٹ“ یا اکیسویں صدی کا سلک روڈ ہے جو چائنا کو باقی ایشیا ، افریقہ اور آخر کار یورپ سے ملاتا ہے ”ون بلیٹ ون روڈ“ پرانے سلک روٹ کو روڈ، ریل ، بندر گاہ سے ملاتا ہے صدر زی چنگ پنگ کے اعلان کے بعد چائنا کی ساکھ دنیا میں اور صدر زی کی ساکھ چین میں داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔

ایشین ڈیولپمنٹ بینکADBکے مطابق 2010ء سے 2020ء کے دوران اس خطے کو بنیادی انفراسٹر کچر کی مد میں 8 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی ایشین ڈیولپمنٹ بینک میں چین کے 5.48٪ ووٹنگ کے مقابلے میں جاپان اور امریکہ کے 26فیصدی ووٹنگ پاور ہیں۔ ADB اور IMF مین رہتے ہوئے چین اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کے بعد ایک نیا بینک ترقی پذیر ملکوں کی پیسے کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنے خطہ میں تسلط قائم کرنے کے لئے اپنے 3.3ٹریلین ڈالر کے زرِ مبادلہ کے ذخائر داؤ پر لگانے کو تیار ہے ۔

چین نے جون 2015ءمیں AIIB ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی بنیاد رکھی۔ جس کے57ملکوں اب تک ممبر بن چکے ہیں۔ جن میں امریکہ کی تنقید کے باوجود اس کے اتحادی آسٹریلیا،جرمنی ، فرانس، انڈیا، بر طانیہ، ناروے اور سویڈن بھی شامل ہیں ۔ یہ بینک جس میں چین کا حصہ سب سے زیادہ ہے ، ایشیاءاور افریقہ \"Chineseکے ترقی پذیر ملکوں میں بنیادی انفراسٹرکچر بنانے کے لئے قرض دے گا۔ امریکہ اور خطے کی دوسری طاقتیں جاپان اس میں اب تک شامل نہیں ہوئی ہیں چین خطے میں انڈیا کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہ رہا ہے جس کی مثال شنگھائی کارپوریشن کونسل میں انڈیا کی بھرپور شمولیت ہے، پچھلے کئی برس سے چین کی سرمایہ کاری ان ملکوں میں زیادہ ہے جو ” ون بلیٹ ون روڈ“ اور اکیسویں صدی کا سلک روڈ کے روٹ پر آتے ہیں۔

دنیا کی  90فیصد تجارت سمندری راستے سے ہوتی ہے جس میں چار راہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ پناما کینال لا طینی امریکہ ، سوئزکینال مصر، آبنائے ہورمز خلیج فارس اور آبنائے ملاکا ملیشیاء سنگاپور ہیں۔ چین کی تجارتی پھیلاﺅ کی پالیسی کے بعد بحر ہند کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ۔ چین اپنے سپلائی روٹس کو محفوظ کرنا چاہتا ہے اس وقت امریکہ بحر ہند میں اپنے بحری اڈے عمان اور ڈیگو گارسیا (جو برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری) سے کنٹرول کرتا رہا ہے ۔ چین انسداد قزاقی مشقوں کی آڑ میں بحر ہند آیا اور اس خطے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہاں آہستہ آہستہ اپنے تجارتی پورٹ پر کام شروع کیا ۔ چین اس وقت ہانگ کانگ سے لے کر بیرا موزمبیق تک پورٹس پر کام کررہا ہے ۔

منسلک  نقشے میں چین کے پورٹ دیکھے جا سکتے ھیں ۔

۱۔ میانمار 2۔ چٹا گانگ ، بنگلہ دیش ۳۔ کو لمبو، سر ی لنکا

سری لنکا کے نئی صدر میتھرا یپلا سریشنا نے جنوری 2015ءمیں حلف لیتے ہی انڈین حکومت کے دباﺅ میں آکر چائنیز کمپنیز کو پورٹ پر کام روکنے کا حکم دے دیا مگر صرف ایک ہی سال بعد اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔پورٹ آف جبوتی میں چائنا 9بلین ڈالر کے سرمایہ کاری سے رپورٹ چائنز نیوی کے لئے بیس سمیت اور کئی پراجیکٹس پر کام کررہا ہے جو سال 2017ءکے آخر تک بن جائے گی ۔سوڈان کے دارلخلافہ خرطوم سے پورٹ آف سو ڈان بحیرہ احمر تک ریلوے لائن 2016ءکے آخر تک مکمل ہوجائے گی۔ مالدیپ تجارتی سر گرمیوں کے لئے چین کو پورٹ کی سہولیات میسر ہیں ۔ تنزا نیہ میں چائنیز سرمائے سے 10 ارب ڈالر کا پورٹ 2018ءتک بن جائے گا۔چین اکیسویں صدی کے ”سلک روٹ “پر آنے والے ہر ملک میں اپنے سر مائے کے زور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے ۔

”ون بیلٹ ون روڈ “ کے ذریعے چین نے اپنے پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں سے ملا کر غربت کا خاتمہ کیا۔ اس سے غریب علاقوں میں خریداری کی طاقت کو \"IndianOceanMAP\"بڑھایا اور اپنی صنعتوں کے لئے نئی خریدار پیدا کئے ۔ چین اب یہی طریقہ کار دیگر ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ بھی کرنا چاہ رہا ہے ۔ ترقی پذیر ملکوں کو تجارتی مراکز کے ساتھ روڈاور ریلوے سے جوڑ رہا ہے ۔ اس سے خریدار پیدا ہوں گے اور چائنیز صنعت اور پھلے پھولے گی۔

چائنا اپنی سر حدوں کے چاروں طرف 6 اکنامک کوری ڈورز پلان کر رہا ہے ۔

٭چین منگو لیا روس اکنامک کوری ڈور ٭ نیو لینڈ بریج اکنامک کوری ڈور ٭ چین سینٹرل ایشیاءویسٹ ایشیاءاکنامک کوری ڈور
٭ چین پاکستان اکنامک کوری ڈور ٭انڈیا، چین بنگلہ دیش ، میانمار اکنامک کوری ڈور ٭ چین انڈو چینا جزیرہ نما اکنامک کوری ڈور

دوسری جانب امریکہ اور اس کے ایشیائی اتحادی جا پان اور انڈیا بھی خاموش نہیں ہیں ۔ جا پان اور انڈیا کی آپس کی قربت کے علاوہ US- ASEAN میٹنگ پر بھی غور کرنا چاہیے جس میں امریکا اور ساو¿تھ ایسٹ ایشیائی ملکوں کے آپس میں تجارتی تعاون کوبڑھانے کا وعدہ کیا گیا۔

Trans-pacificٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ TPPاک متنازع فری ٹریڈ ایگری مینٹ جس میں آسٹریلیا ، کینیڈا، چلی، جاپان اور ملیشیا، میکسیکو ، سنگا پور اور ویتنام شامل ہیں۔

ہم اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ چین کو ہماری ضرور ت ہے اور چین کے بحری اور روڈ کے پروجیکٹس صرف ہمارے ملک ہی سے گزرتے ہیں۔ ہندوستان چین کے نیو ورلڈ آرڈر میں ایک اہم حصہ دار ہوگا۔ اگلے دس سال ہمارے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں فی الحال ہماری ترجیح صرف چین کا ٹرک کا اڈہ بننا نظر آتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments