پانامہ کا ہنگامہ اور گئے دنوں جیسے آنے والے دن


میں اسی ملک کا شہری ہوں۔ میاں صاحب میرے بھی مقروض ہیں۔ مجھے ان سے اپنا پیسہ واپس چاہیے۔ مسلم لیگ کا طرزسیاست مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں آیا۔ سمجھ ہی نہیں آیا تو پسند کیسے آئے گا۔ مگر میری یہ ناپسندیدگی اس وقت تک میرے لیے سودمند ہےجب تک اس سے میرے طے کردہ نتائج برامد ہوسکتے ہوں۔ ناپسندیدگی میری ہواور نتائج کا خاکہ کسی ایسے کا ہو جس کا کردار مجھے اس سے بھی زیادہ ناپسند ہے، تو پھر دوباتیں ہیں۔ یا تو میری ناپسندیدگی شعوری طور پر کسی دوسرے کردارکے کام آرہی ہے، یا پھر شعوری طورپر۔ اگر معاملہ غیر شعوری ہے، تو یہ معصومیت ہے۔ اگر شعوری ہے تو پھر کیا کہوں۔ میرا شعوری احساس یہ ہے کہ جنگ اب سیاسی قوتوں کے بیچ نہیں ہے۔ یہ جنگ اب اداروں کے بیچ ہے۔ اس جنگ میں بالادستی عسکری اشرافیہ کو حاصل ہے، اور قانونی اشرافیہ اس کو جوابدہ ہے۔ پانامہ میں میری دلچسپی باقی محب وطن شہریوں جیسی پرجوش ویسے بھی نہیں تھی، اب وہ بھی نہیں۔ کل ملا کے دو اینٹوں کے سہارے میری دلچسپی کھڑی تھی۔ مگر اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا، آئی ایس پی آر کا ٹویٹ آگیا۔ فرمایا ”ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ پانامہ کیس میں انصاف سے کام لے گی“۔ اس ٹویٹ کے ساتھ دلچسپی کی پہلی اینٹ نیچے سے سرک گئی۔ دلچسپی کی اگلی اینٹ سرہانے رکھی تھی کہ کیس کا فیصلہ آگیا۔ قاضی کے منصب کے کچھ تقاضے ہیں۔ وہ تبصرہ نہیں کرسکتا۔ رائے بھی نہیں دے سکتا۔ صرف فیصلہ دے سکتا ہے۔ پانامہ کیس میں سنائے جانے والے فیصلے میں عالی مرتبت قاضیوں نے رائے بھی دی، تبصرہ بھی کیا اور یہاں تک کہ طعن وطنز بھی ارزاں کیے۔ فیصلے کی زبان قانونی نہیں تھی، سیاسی تھی۔ پھریہ فیصلہ تھا کیا؟ جلتے ہوئے انگارے کو اپنی ہتھیلی سے کسی اور کی طرف اچھالنا۔ بالکل ٹھیک جگہ اچھالا گیا۔ آئی ایس پی آر نے اس اچھالے کا شکریہ بھی بذریعہ ٹویٹ ہی ادا کیا۔ فرما ”ہم سپریم کورٹ کی توقعات پر پورا تریں گے“۔ اس کے بعد تو دلچسپی کی آخری اینٹ اتنی دیر بھی سر کے نیچے نہ رہ سکی کہ سر ہی پھوڑ لیتے۔

پاناما کی رپورٹ آچکی۔ شادیانے بج رہے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ ایسے وقت میں اپنی بات کہنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسا ہی وکلا تحریک کے ہنگام ہوا تھا۔ جب ہم عدلیہ کی آزادی کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔ مجھ جیسا سیاسی طالب علم ایک روزنتیجے پر پہنچا تو بات کرنا مشکل ہوگیا۔ کیونکہ ہمارے دوست اور اساتذہ سب جمہوریت کی جنگ لڑرہے تھے۔ قانون وانصاف کا کتابی علم اس جنگ کی تائید کچھ ایسی شدت سے کرتا تھا کہ حاشیہ لگانے کی گنجائش نہیں تھی۔ میں جمہوریت کی ایسی جنگ سے خدا کی پناہ چاہتا تھا جس کے لیے میدان کا انتخاب حوالدار نے کیا ہو، نتائج بھی حوالدر کے طے کردہ ہوں۔ مگر نقارخانے کا طوطی خدا کی پناہ ہی مانگ سکتا تھا۔ کیونکہ اکثریت اپنے اصول میں ٹھیک تھی۔ وقت گزرگیا۔ کوئی بتائے گا کہ عدلیہ کی آزادی چوہدری اعتزاز احسن کی نظم کے کون سے بند پہ کھڑی ہے؟ اب پھر ایک اصولی معاملہ سامنے ہے۔ اس کا عنوان احتساب ہے، اور یہ کوئی نیا عنوان نہیں۔ معاملہ وہی جمہوریت کی جنگ والا آن پڑا ہے۔ بات کیجیے تو آپ بدکرداروں کے معاون قرار پائیں گے۔ کیا کیجیے، عنوان ہی ایسا قاتل ہے۔ احتساب! میں انصاف اور احتساب کی وہ جنگ لڑنا نہیں چاہتا جس کے پیچھے طاقت کے غیرجمہوری مراکز ہوں۔ اس جنگ میں عوام کی صرف جذبات کی تسکین ہوسکتی ہے۔ عوام کا مٹھائی بانٹنا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتاکہ جنگ عوام لڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم کی معزولی بہت چھوٹی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جان سے گزرجانے پر بھی حلوائی کے مال ملیدے کم پڑگئے تھے۔ ایوب خان اور جنرل مشرف ایوان صدر سے رخصت ہوتے ہیں تو حلوائی کے پکوان پھیکے پڑجاتے ہیں۔ ایک مطمئن المیہ ہے صاحب۔ انصاف سبھی کا تقاضا ہے، مگر آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تصور کے ساتھ نہیں۔ دوست آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ سے اس لیے اختلاف کرتے ہیں کہ یہ جنرل ضیا کی عنایت ہے۔ مگر حریف کا گھیراؤ اسی نفسیات کے ساتھ کرتے ہیں جس نفسیات سے باسٹھ اور تریسٹھ نے جنم لیا تھا۔ باسٹھ اور تریسٹھ کا سادہ مطلب صف بندی ہے۔ جو عسکری اشرافیہ کے ساتھ ہیں، باکردار ہیں۔ جو نہیں ہیں، بدی کا محور ہیں۔ جب تک میاں صاحب اشرافیہ کے ساتھ تھے تب تک وہ قومی سلامتی کا تنہا استعارہ بھی تھے اور امیرالمومنین بھی۔ اب نہیں ہیں تو سیکیورٹی رسک قرار پاچکے ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

دو مشکلیں ہیں۔ پہلی یہ کہ سیاسی کارکن نے طے کر رکھا ہے کہ جو برسر اقتدار ہوتا ہے، وہی در اصل بدعنوان ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ کارکن نے طے کررکھا ہے کہ جو عوام کے انتخاب سے برسر اقتدار آئے، احتساب اسی کا ہوسکتا ہے۔ شوکت عزیزوں کو استثنی حاصل ہے۔ یہ تصور اپنے آپ نہیں آیا ہے۔ ہمارے سیاسی شعور میں اس تصور کو بہت محنت سے اتارا گیا ہے۔ بالکل معاشرتی علوم کے نصاب کی طرح۔ یاد کیجیے وہ وقت، جب آصف علی زرداری صدر تھے۔ طرح طرح کے کیسز میں الجھے ہوئے تھے۔ انصاف کے علمبردار انہیں کٹہرے میں کھینچ لانا چاہتے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ انہیں صدارتی استثنی حاصل تھا۔ سیاسی کارکن کے ذہن میں ایک بات آنی چاہیے تھی کہ چلیے استثنی کے دن بھی تھوڑے ہیں۔ کبھی تو عالی جاہ مسند سے اتریں گے۔ سیاسی کارکن کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی۔ کیوں؟ کیونکہ اس کا سیاسی شعور اسے یہ بتاتا تھا کہ یہ شخص دو ہزار تیرہ تک ہی چور ہے۔ جب تک چور ہے فرد جرم عائد کیے جاؤ۔ مسند سے اتر گیا تو پھر کیا پکڑ اور کیا دھکڑ۔ ایسا ہی ہوا۔ یہاں آصف علی زرداری کے پاوں پالکی سے اترے، وہاں قاضی نے قلمدان سمیٹ لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب تو استثنی بھی ختم ہوگیا، لعل وگہر کا وہ ہار قصہ پارینہ کیوں بن گیا جو سوئٹزرلینڈ کی آہنی زنبیلوں میں پڑا ہے؟

یہ جو آج مسند نشین ہیں، ان صاحب کا نام میاں محمد نواز شریف ولد میاں محمد شریف ہے۔ یہ وہی نواز شریف ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے اس ملک میں بیٹھے تھے۔ ابھی آج ہی کسی گنجے لشکر کے ساتھ خراسان سے برامد نہیں ہوئے۔ یہیں ہمارے دائیں بائیں موجود تھے۔ کسی سیاسی کارکن کو ان کی اس جیب کا خیال نہیں آیا، جس کی تلاشی لی جانی چاہیے تھی۔ کیوں؟ کیونکہ ہمارا سیاسی شعور ہم سے کہہ رہا تھا کہ ایک شخص اقتدار میں نہ ہو تو اس کو کرپٹ کہنا غیرمنطقی سی بات ہے۔ مزا تو تب ہے جب نوسرباز اقتدار میں ہو۔ نظم اجتماعی میں جس سے خلل نہ پڑے، اس احتساب کا بھلا کیا فائدہ۔ سو جب تک اقتدار میں نہیں تھے تو انہیں ہر تحریک کا سرخیل مانا گیا۔ ایم آرڈی کا بھی وکلا تحریک کا بھی۔ سوال یہ ہے کہ باکردار سیاسی رہنما بھی میاں صاحب کا حکم کیوں مان رہے تھے؟ اس لیے نا کہ خود عسکری اشرافیہ نے جنرل مشرف سے جان خلاصی کا فیصلہ کرلیا تھا؟ دوہزار تیرہ کے انتخابات ہوئے۔ ایک طرف میاں نواز شریف تھے جن کے اقتدار میں آنے کے آثار واضح تھے۔ مقابلے میں باکردار لوگ تھے۔ اس باکردار سیاسی قیادت نے یہ انتخاب پاکستان پیپلز پارٹی کے اشتراک سے لڑا۔ سیاسی کارکن نے نہیں پوچھا کہ کیوں بھئی؟ جس گلے میں چوری کا ہار ابھی تک لٹک رہا ہے اسی گلے میں بانہیں کیسے ڈال لیں؟ میاں صاحب نے حکومت بنالی۔ ان کے آتے ہی چائے کی پیالی میں فرشتے نے قیامت کا صور پھونک دیا۔ ایک کے بعد ایک صور ہے، مگر صور بجانے کے لیے ایک بھی بھونپو ایسا نہیں اٹھایا گیا جو میاں صاحب کے موجودہ دور حکومت میں بنا ہو۔ وہی تاریخ قبل از مسیح کے قصے۔

یہ قیامت کب تک رہے گی ؟ دوہزار اٹھارہ تک۔ پھر کیا ہوگا؟ میاں نواز شریف اگر اقتدار سے محروم ہوگئے تو قاضی ملزم کا رجسٹر لپیٹ کے رکھ دے گا۔ اگلے وزیراعظم پھر سے میاں صاحب ہوئے تو قاضی کو دیوستوفسکی کا ناول ”جرم وسزا“ کے کچھ اقتباسات پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔ اس ناول کا فائدہ یہ ہے کہ اس کا کوئی اقتباس اصغر خان کیس کا پس منظربیان نہیں کرتا۔ پانامہ کا فیصلہ تو ابھی آنا ہے۔ وزیراعظم کے اولاد کی چوری پکڑی گئی ہے۔ وزیر اعظم کا قصہ ابھی رہتا ہے۔ اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے، مگراصغر خان کیس کا فیصلہ تو فاضل عدالت کربھی چکی ہے۔ اس فیصلے میں میاں محمد نواز شریف کا نام مجرموں کی فہرست میں موجود ہے۔ میاں نواز شریف کو اگر گھر بھیجنا ہے تو اصغر خان کیس سے مدد کیوں نہیں لے لی جاتی؟ اس میں کمی کیا ہے۔ بھیا چوری ہی ثابت کرنی ہے نا؟ وہ تو ثابت ہوچکی ہے، بنا بنایا پھندا ہے، ڈالتے کیوں نہیں؟ سیاسی کارکن یہ سوال اٹھائے گا؟ نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ سیاسی کارکن کا سیاسی شعور اسے یہ بتاتا ہے کہ مالی بدعنوانی کے جس کیس میں جنرل اسد درانی اور مرزا اسلم بیگ کے نام شامل ہوجائیں، وہ بدعنوانی نہیں ہوتی، سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ مٹی کی محبت میں اگر ڈیفنس کے پلاٹ خریدے جاسکتے ہیں تو مٹی ہی کی محبت میں کسی آشفتہ سر کا ضمیر کیوں نہیں خریدا جاسکتا ہے۔ اپنے اس سیاسی شعور کا اظہارسیاسی کارکن نے گزشتہ دور حکومت میں بھی کیا ہے۔ یاد کیجیے جب عدلیہ آزاد ہوچکی تھی اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے باکردار جج انصاف کی نگہبانی کررہا تھا۔ قانون کی حکمرانی پر ان کا ایمان ایسا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ جھٹ سے سزا سنائی فٹ سے گھر بھیج دیا۔ سیاسی کارکن نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اسی قاضی نے کراچی کی سیاسی قوت سے وکلا تحریک کے اٹھاون شہیدوں کا حساب کیوں نہیں مانگا۔ وہی کارکن جو اسی قاضی کی آمد پر شارع فیصل پر تڑپا دیے گئے تھے۔ وہ وکلا جو اسی قاضی کی بحالی کی آگ میں اتر کر راکھ ہوگئے تھے۔ قاتلوں کے چہرے معلوم تھے۔ لوگ توجہ بھی دلاتے تو قاضی فرماتے کہ اس سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔ سیاسی کارکن بھی اس جواب سے مطمئن رہا۔ کیوں؟ کیونکہ سیاسی کارکن کا سیاسی شعور اسے بتاتا ہے کہ ایسا کوئی بھی ظلم جس پر فتح کا نشان باوردی ڈکٹیٹر بنائے، اس کو ظلم نہیں کہتے، فتحیابی کہتے ہیں۔

سیاسی کارکن بس ایک سوال کرتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کیا کریں؟ پیسے معاف کردیں کیا؟ میری رائے سادہ ہے۔ پاکستان ایک غیر مستحکم ملک ہے۔ ہمارا سیاسی شعور ابھی اتنا پختہ نہیں ہوا کہ سیاسی کیسز عدالتوں میں چلا سکیں۔ عدالتی فیصلے ثبوت وشواہد کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور سیاسی کیسز کے فیصلے شواہد کو دیکھ کر نہیں، حالات کو دیکھ کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں مخالف فریق کو آپ طاقت کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ فیصلہ میاں صاحب کے حق میں آئے، تو صاف ہوجائیں گے۔ مخالفت میں آئے تو چار ووٹ بڑھ جائیں گے۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے، مگرحقیقت تو یہی رویہ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں جے آئی ٹی میں پیشی سے مریم نواز کے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ یہ سوچ افسوسناک ہے، مگر حقیقت تو یہی سوچ ہے۔ جنرل مشرف اعتراف کرتے ہیں کہ عدالت نے جنرل راحیل شریف کے حکم پر میرا رستہ چھوڑا۔ یہ بات افسوسناک ہے، مگر حقیقت تو یہی بات ہے۔ عمران خان نے پختونخوا میں آزاد اور غیرجانبدار احتساب کمیشن بنایا۔ یہ کمیشن ان سے چل نہیں پایاکیونکہ وہ آزاد رہ سکا اور نہ ہی غیر جانبدار۔ یہ ایک المیہ ہے، مگر حقیقت تو یہی المیہ ہے۔ پختونخوا حکومت نوے دن میں بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی تھی، نہیں کرواسکی، پھر ایک مثالی نظام قائم کرکے اختیارات گاؤں کی سطح پر منتقل کرنے کا دعوی ہوا، نہ ہوسکا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر حقیقت تو کچھ ایسی ہی ہے۔ ان ساری حقیقتوں کے ہوتے ہوئے برطانیہ کی سیاسی مثال دینا، آپ کو نہیں لگتا کہ ایک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے؟

کیا کریں؟ کچھ نہ کریں، نظم اجتماعی کو متاثر کیے بغیر سیاسی میدان میں مقابلہ کریں۔ عمران خان کو اپنے خواب کاشت کرنے کے لیے پختونخوا کی زرخیززمین ملی تھی، مگر انہوں نے اپنے بیج قبضے کی ایک زمین پر ضائع کردیے۔ زمین برگ وبار لائے گی، مالکان لطف اٹھائیں گے۔ اور آپ؟ اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ آپ پر گزرے گی۔ اب عمران خان سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اب بھی وقت ہے، اپنی زمین کی طرف لوٹ آؤ۔ اب اگر وہ خواب بو بھی دیں تو وقت کا موسم گزرچکا ہے اور موقع کی برسات رک گئی ہے۔ فیصلے کا دن آرہا ہے۔ عمران خان اب دوسروں کی خامیوں پر اپنا نعرہ استوار کرنے کا جواز بھی کھوچکے ہیں۔ اب یہ معرکہ فقط اپنی خوبیوں پر لڑا جا سکے گا۔ اپنی خوبیوں میں سے بھی شوکت خانم اورورلڈ کپ اب منہا ہوچکا۔ سیاسی کارکن جلد باز ہے۔ اس کو اعتراض ہے کہ آہ کو اثر ہونے تک ایک عمر کیوں لگ جاتی ہے۔ اسی لیے زلف کے سر ہونے تک جینے سے وہ انکاری ہے۔ کارکن کو لگتا تھا پانچ سال بہت ہوتے ہیں، نہیں گزریں گے۔ دیکھیے، کیسے گزرگئے۔ اب انتخاب کا طبل بجے گا۔ ووٹر ایک ہی سوال کرے گا۔ پختونخوا میں دستیاب وسائل کے ساتھ آپ نے کیا مختلف کیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے جنرل راحیل شریف یا جنرل شجاع پاشا کبھی نہیں آئیں گے۔ آپ ہی آئیں گے۔ دل سے دعا ہے کہ اقتدارآپ کو ملے، تاکہ حجت تمام ہوجائے۔ لیکن عوام اگر آپ سے رہا سہا اقتدار بھی چھین لیں، تو بہرِ خدا عوام کو بے حس اور بے غیرت مت کہیے گا۔ روئے دشنام ان ناہنجاروں کی طرف رکھیے گا جنہوں نے آپ کے پانچ برس ضائع کردیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).