علمائے کرام عورتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ (2)


علمائے کرام کے بارے میں عوام میں یہ توقع پائی جاتی ہے کہ وہ دینی اعتبار سے تقویٰ کے علاوہ روزمرہ اخلاق میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں۔ بچوں پر شفقت کرتے ہپں، عورتوں کا احترام کرتے ہیں، نوجوانوں کے مسائل کو سمجھ کر ان کی رہنمائی کرتے ہیں، ہم عصر علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں تاکہ روزمرہ مسائل کے بارے میں باخبر آرا قائم کر سکیں۔ ان سے دیانت داری کی توقع کی جاتی ہے۔ ماضی کے بزرگوں کے اتباع میں حریت فکر کی توقع بھی علمائے کرام سے کی جاتی ہے۔ یہ سمجھنا تو مناسب نہیں کہ علما کے لئے غربت اور عسرت کوئی لازم امر ہے تاہم حب مال و متاع کی امید علما سے نہیں کی جاتی۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ علما قانون کے پابند ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں معاشرے میں رہنما کا درجہ دیا جاتا ہے۔ عقیدے کے اختلاف کے باوجود رواداری اور امن پسندی کو ایک عالم کی شان سمجھا جاتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ ملک کے کونے کونے میں ایسے ہزارہا علمائے کرام موجود ہیں جو ان خوبیوں سے متصف ہیں۔ پشاور کے مولانا حسن جان شہید کو کون نہیں جانتا۔ لاہور کےعالم دین مولانا سرفرازنعیمی نے دیانت اور حق گوئی کی اعلیٰ  مثال پیش کرتے ہوئے شہادت پائی۔ ابھی حال ہی میں چترال کے ایک عالم دین نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک فاترالعقل انسان کی جان بچائی۔

یہ سب روشن مثالیں ہیں۔ تاہم ماننا چاہیے کہ ہمارے ملک میں ایسے دینی پیشواؤں کی بھی کمی نہیں جو اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے میں انتشار اور اشتعال پھیلاتے ہیں۔ اپنے ذاتی رسوخ کو بڑھانے کے لئے معاشرے میں افتراق پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایک غیر سرکاری ادارے مشعل بکس نے کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق کی کہ علمائے جمعہ کے خطبات میں عورتوں اور دوسرے معاشرتی طبقآت کے بارے میں کیا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں چیدہ چیدہ علما کے خیالات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لئے متعلقہ عالم دین کا نام اور ان کی مسجد کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہیں۔ ان خطبات کی آڈیو رئیکارڈنگ موجود ہے۔ اس مشق کا مقصد کسی کو اشتعال دلانا نہیں اور نہ ہی علمائے کرام کے بارے میں نفرت پیدا کرنا ہے بلکہ اس کا مقصد ایسا سماجی شعور پیدا کرنا ہے جس میں عوام علمائے دین سے زیادہ ذمہ داری اور بہتر اخلاقی معیارات کا تقاضا کر سکے۔  (مدیر)

٭٭٭  ٭٭٭

مولانا محمد یعقوب

جامع مسجد اہل حدیث، جڑانوالہ، فیصل آباد

اللہ نے فرمایا نسل کشی کرنے والو باز آ جاؤ اور ایسی حرکتیں نہ کرو۔ آئے دن خاندانی منصوبہ بندی اور اشتہار بازی ہو رہی ہے۔ دیواروں پر لکھا ہوا ہے، پورا ملک لکھ لکھ کر سیاہ کر دیا ہے لیکن اللہ کی قدرت دیکھو کہ اس محکمے (خاندانی منصوبہ بندی) کے وزیروں کے خود درجن درجن بچے ہوتے ہیں۔

اللہ کریم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ایک اور مہلک بیماری ہے۔ فرمایا زنا بہت بڑی برائی ہے، اس کے قریب بھی نہ جانا، یہ بہت بڑی فحاشی ہے، بہت بے غیرتی اور بے حیائی کا کام ہے۔

اگر غلطی سے گناہ ہو جائے فرمایا، اسی وقت توبہ کرو۔ اس کا ایک علاج تو یہ ہے، دوسرا علاج یہ ہے کہ خواتین کو پردے کے اندر رکھا جائے۔ عورتوں کو ننگے منہ بازاروں میں جانے سے روکا جائے۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا شاہ نواز احمد

مسلم مسجد، نوشہرہ ورکاں روڈ، ضلع گجرانوالہ

عورت کی فضیلت یہ ہے کہ نیک اور صالح عورت اپنے گھر کے کاموں میں مشغول رہے۔ عورت کا دائرہ کار بازار، دفتر، شاپنگ سینٹر، مارکیٹ یا پلازہ نہیں، عورت کا جملہ دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ امیر شریعت فرمایا کرتے تھے کہ عورت مجاہد بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئی مجاہد جننے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔

عورتو اللہ نے تمہارے اوپر جہاد نہیں بلکہ غیرت فرض کی ہے۔

آج کی عورت جو آزادی کا دعویٰ کرتی ہے، آزادی کی ڈیمانڈ اور مطالبہ کرتی ہے کہ میں مرد کے شانہ بشانہ چلوں گی۔ قرآن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ گھر سے باہر اور آزادی کے ساتھ مرد کی طرح گھومتی رہے۔ یہ آزادی نہیں آوارگی ہے، یہ کج روی ہے، اسلام اس کو پسند نہیں کرتا۔

آج کی عورتیں مردوں سے کہتی ہیں کہ تم تو جانتے ہی نہیں کہ شاپنگ کس طرح کرنا ہے، تو ہر چیز مہنگی اور ناکارہ لے کر آتا ہے، خبردار آج کے بعد میں خود بازار جایا کروں گی۔

عورت کے دو نقصان ہیں، ایک دین کا اور دوسرا دنیا کا۔ جبکہ اللہ نے مرد کو ان دونوں نقصانات سے محفوظ رکھا ہے۔ عورت کا دنیاوی نقصان یہ ہے کہ اللہ نے اس کو خلافت اور بادشاہت نہیں دی اور جو قوم عورت کو اپنا حکمران بنائے گی میرے کملی والے کا فتوی ہے کہ وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتی۔ عورت کی گواہی بھی قبول ہے لیکن آدھی رکھی ہے، بات سمجھ آئی؟

عورت مرد کے برابر تو نہ ہوئی۔ وراثت میں بھی اس کا حصہ آدھا رکھا گیا ہے۔

دین کا نقصان یہ ہے کہ ہر مہینے اس کی کچھ نمازیں قضا ہوتی ہیں، رمضان آیا تو اس کے روزے بھی چھوٹ گئے، یہ اس کے دین کا نقصان ہے۔

برتر کون ہے؟ برتر مرد ہے۔ اللہ فرماتا ہے مردوں کو ہم نے عورتوں پر فضیلتیں عطا فرمائی ہیں۔ اللہ اس فضیلت کو قائم رکھنے کی توفیق دے۔ آمین۔ مرد بننا ہمیشہ مرد۔

اللہ نے فرمایا اگر تمہاری نافرمانی کرے تو سب سے پہلے اس کو پیار سے سمجھاؤ، ان کو نصیحت کرو، اور اگر پھر بھی نصیحت قبول نہ کریں تو ان کو اپنے بستر سے جدا کر دو۔ اور اگر پھر بھی راہ راست پر نہ آئیں تو تھوڑا سا مارا کرو۔ لیکن کس کس طرح، فرمایا نہ تو جسم پر تشدد کا نشان نظر آئے اور نہ کوئی ہڈی ٹوٹے۔ یہ نازک آبگینے ہیں ان کی حفاظت کریں۔ ہلکی سی مار ماریں۔ یہ ہے تادیبی کارروائی۔

چار کتاباں عرشوں آئیاں پنجواں آیا ڈنڈا

ڈنڈے باہجھوں نہیں نکلدا ایہو جیاں دا کنڈا

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا اشرف آصف

جامع مسجد ہیلاں، منڈی بہاؤ الدین

ایک کتے اور مومن میں فرق ہونا چاہئیے۔ کتا اپنی مرضی کے مطابق چاٹتا ہے، اپنی مرضی کے مطابق بولتا ہے، اپنی مرضی کے مطابق دیکھتا ہے اور جہاں چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا محمد جعفر

مسجد انوار مدینہ، تلمبہ، ضلع خانیوال

وہ کہتی ہے میں کیا بتاؤں مجھے اللہ نے سزا دی ہے۔ جب میں زندہ تھی ننگے سر گھر سے باہر نکلتی تھی۔ جب میں مرنے کے بعد قبر میں گئی ہوں تو فرشتوں نے ایک ایک بال اکھاڑنا شروع کر دیا۔ وہ استرے کے بجائے میرے بال ہاتھوں سے اکھاڑتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے سر پر بال اور کھال نہیں ہیں۔

اب اندازہ کریں کہ عورت سامنے بیٹھی ہے اور اس کے صرف دانت نظر آ رہے ہیں اور اس کے سر کے بال بھی نہیں ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہےتو وہ رو کر کہتی ہے کہ اللہ نے مجھے سزا دی ہے۔ میں دنیا میں اپنے ہونٹوں پر طرح طرح کی سرخی لگاتی تھی۔ سرخی لگانے کی سزا مجھے یہ ملی ہے کہ جب میرے ہونٹ کاٹے جا رہے تھے تو آواز آئی کہ اے عورت میں نے تجھے اتنا گندہ تو نہیں بنایا تھا جو تو روزانہ بازار والوں کو دکھانے کے لیے ہار سنگار کرتی تھی، یہ تیری سزا ہے۔

٭٭٭ ٭٭٭

حافظ خالد مجاہد

جامع مسجد جہانیاں، خانیوال

یک رنگ ہو جاؤ یا سراسر موم بن جاؤ یا سنگ ہو جاؤ

درس قرآن کو ذوق شوق سے سننا، جمعہ کا خطبہ بھی ذوق شوق سی سننا اور رات کے جلسے بھی ذوق و شوق سے سننا اور مووی کے سامنے بھی ذوق شوق سے بن ٹھن کر آنا، اس طرح نہ آیا کرو۔ دو رنگی کا مظاہرہ نہ کرو یک تنگی اختیار کرو۔

یا تو موویوں کی زینت بنو یا جنت کی زینت بنو۔

جو پردہ دار عورتیں ہیں انہیں اللہ تعالی جنت کی حوروں کی سرداری عطا کریں گے، لیکن بھائی کی شادی پر ناچنے والی جنت کی عورتوں کی سردار کیسے بن سکتی ہے۔

لونگ گواچا کے گیت پر ناچنے والی جنت کی حوروں کی سردار کیسے بن سکتی ہے؟ جس کے شب و روز بیوٹی پارلر میں گزرتے ہوں وہ جنت کی حوروں کی سردار کیسے بن سکتی ہے؟

کئی لڑکیوں کو چاند رات کو گھر بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا، ایسے لگتا ہے کہ چاند رات کو سارا محلہ چوڑی مارکیٹ میں ہے اور میں نصیبوں کی ماری کیوں گھر بیٹھی ہوں۔ اس کا دل نہیں لگتا۔ اس کو چنگاریاں لڑتی ہیں۔ اس کا دل کرتا ہے کہ میں ٹوٹ جاؤں، بھاگ جاؤں، چاند رات کو بازار میں جا کر چوڑیاں خریدوں۔

ماں باپ دیکھ رہے ہیں اور آدھا آدھا گھنٹہ ٹیلی فون پر گفتگو ہو رہی ہے۔ آواز کو اتنا دبا کر بول رہی ہیں کہ کہیں امی سن نہ لے۔ امی بھی دیکھے جاتی ہے کہ فون ہو رہا ہے۔ وہ روکتی نہیں، اپنے آپ کو ماں باپ بناؤ، ماں باپ سمجھو، اپنے گھر میں اپنا آپ منواؤ کہ تم ماں باپ ہو۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا محمد یوسف

جامع مسجد اہلحدیث، زکریا ٹاؤن، ملتان

معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ بے پردگی عام ہو چکی ہے۔ گانا بجانا عام ہو چکا ہے۔ لوگو، فحاشی و عریانی عام ہو چکی ہے۔ ہر عورت اپنے خاوند کی نافرمانی کر رہی ہے۔ خاوند اگر کہے کہ پردہ کر کے جانا ہے تو وہ کہتی ہے کہ تم دین کے زیادہ ٹھیکیدار ہو، کیا میں دین کو نہیں سمجھتی؟

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا عبدالحمید چشتی

مسجد اللہ والی، ملتان

پہلے کسی لڑکی کو کوئی سلام کر دے تو جھگڑا ہو جاتا تھا کہ بے غیرت تم نے لڑکی کو سلام کیسے کیا۔ لیکن اب تو بیس ہزار کا موبائل خرید کر دے دیا جاتا ہے۔ لڑکی بستر میں گھسی ہوئی ہے اور فون پر باتیں کر رہی ہے۔ ماں یہ سمجھتی ہے بیٹی سوئی ہوئی ہے لیکن اصل میں وہ اپنے محبوب سے باتیں کر رہی ہے۔

اتنی لعنت برس رہی ہے کہ ٹی وی پر کنجریاں کہتی ہیں کہ میرے اوپر اللہ کا فضل و کرم ہے۔ میں بیس سال سے ناچ رہی ہوں۔ میں کہتا ہوں یہ لعنت برس رہی ہے یا فضل و کرم ہے؟ آپ کی معلومات پر بھی میں قربان جاؤں، آج کے نوجوان جیسے ہی کسی سی ڈی میں گانے کی دھن سنیں ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کون سی کنجری ہے، کون سا گانا گائے گی۔ یہ کب پیدا ہوئی تھی کب مر گئی اور کس تاریخ کو اس نے یہ گانا گایا تھا اور اگر کلمہ کہو تو غلط پڑھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).