جے آئی ٹی اور سیاسی مستقبل


جے ای ٹی کی رپورٹ آنے کے فوری بعد سر زمین پاکستان میں سیاسی ہل چل مچ گئی ۔حکومت کے کچھ وزرا اسے ردی کی ٹوکری قرار دیتے پائے گے اور ساتھ ساتھ قانونی جنگ لڑنے کے لئے ماہرین سے رابطے تیز کر دئیے ۔

جے ای ٹی کی پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ میں جواہم بات سامنے آی وہ تھی، وزیراعظم نواز شریف اور ان کے دو نو ں بیٹوں کے خلاف نیب میں ریفرنس دایر کیا جاے ۔دسویں باب کے علاوہ تمام دستاویزات پبلک کر دی گئیں ۔اس جے ای ٹی کی رپورٹس کے آنے کے بعد تحریک انصاف کے حلقوں میں خوشی کا سماں تھا اور جبکہ دوسری طرف ن لیگ ،جو کہ کافی پرانی سیاسی پارٹی ہے،نے سیاسی رابطے تیز کر دیے ہیں اور ن لیگ کے سابق سنیٹرظفر علی شاہ نے وزیراعظم کو مشورہ دے ڈالا کہ نواز شریف صاحب چودہری نثار کو وزیراعظم کا قلم دان تھما کر خاندان پر لگنے والے مالی کرپشن کے الزامات کو ن لیگ سے الگ کر دیں ۔

اس تمام سیاسی کھیل میں پیپلز پارٹی کراچی سے جیتی گئی سیٹ پر جشن مناتی نظر آٰئی اور ساتھ میں زاردری صاحب کا بیان بھی قابل غور ہے جس میں انہوں نے الیکشن کا اپنے مقرر وقت پر ہونے کا عند یہ دیا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے آجانے کے بعد جو دوست اسمبلیوں کی تحلیل پر غور و فکر کر رہے ہیں تو ان سے معذرت کے ساتھ، اب مرکز چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیارات سے معزول ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب ان ہاؤس چینج کیلئے کس کو منتخب کرتے ہیں ۔کچھ حلقوں کے خیال میں ایاز صادق ایک اچھا نام ہو سکتا ہے اور وہ پہلے بھی ٹوٹیر والے تنازعہ میں ثالثی کا رول ادا کر چکے ہیں

تحریک انصاف کو اب سمجھ جانا چاہیے کہ پیپلز پارٹی، فضل الرحمان اور دوسری بڑی چھوٹی پاڑٹیوں کی اپنی اہمیت ہے اور وہ دن گئے جب اکیلے میں اکثریت کے ساتھ حکومت بنای جاتی تھی ،کچھ لو اور کچھ دو پرسیا ست ہو تی ہے

یہ امریکہ کا صدارتی نظام نہیں جہاں عوام کا ووٹ صدارتی امیدواروں کو پڑتا ہے اور وہاں بھی سیاست کو ایک لمبا عرصہ درکارہوتا ہے اورپس پردہ مختلف ریاستوں کے مقتدر حلقوں کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ چل رہا ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).