بھٹو نے سندھ کو کیا دیا؟


بھائی کلیم بٹ کے نقطہ نظر سے ہم سب کو سخت اختلاف ہے۔ اس مین تاریخی حقائق اور زمینی حقائق کا بری طرح سے مثلہ کیا گیا ہے، ادارہ  ہم سب آزادی اظہار کے اصول پر کاربند ہے اور محترم کلیم بٹ کی رائے شائع کر رہا ہے۔

آج بھی اگر آپ کا سندھ کے شہری یا دہی علائقوں سے گزر ہو تو زندہ ہے بھٹو۔۔۔۔۔۔ زندہ ہے بھٹو۔۔۔۔ یا کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔۔۔۔۔یا تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔۔۔ جیسے جذباتی نعروں سے آپ کا استقبال کیا جاۓ گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا مقبول ترین لیڈر تھا۔ جس نے عوام کو بولنے کے ساتھ ساتھ سانس لینا بھی سکھایا۔ عام طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی ہر جگہ پائی جاتی ہے مگر اپنی سندھ کا تو قصا ہی کچھ الگ ہے۔ فطرتاً ہم سندھی جذباتی ہوتے ہیں اور عظیم سندھو ندی کی طرح جذبات کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں بہتے چلے جاتے ہیں۔ بنا کچھ سوچے بنا کچھ سمجھے۔ انہی جذبات میں ہم نے بھٹو کو ایک دیوتا کے مقام تک پہنچا دیا ہے۔ جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تو سندھ کے لوگوں نے دل کو خوش کرنے کے لئےکچھ مفروضے گھڑ لئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ بھٹو کو پھانسی نہیں آئی، بلکہ ان کو تو خانہ کعبہ میں زندہ سلامت دیکھا گیا ہے۔

ہوسکتا ہے کے بھٹو نے پاکستان کے لئے کچھ اچھے کام کئے ہوں جیسے یو این کی سیکیورٹی کائونسل کی تاریخی تقریر، ہندوستان سے شملا معاہدہ۔  90 ہزار پاک فوج کے جوانوں کو 1971ء کی جنگ کے بعد واپس کروانا یا پھر 1973 کا آئیں جس کو خود بھٹو نے چار گھنٹے کے اندر اندر معطل کردیا۔ لیکں بھٹو نے سندھ کو کیا دیا۔۔۔ مورخیں، سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور اس پر خاموش ہیں۔۔۔۔۔

اگر ہم صحیح معانوں میں بھٹو کے سندھ کے حوالے سے کردار کا تنقیدی جائزہ لیں تو (جس کی جیالے ہمیں بالکل اجازت نہیں دینگے اور مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کی طرح نچوڑ نچوڑ کر مارڈالیں گے کیوں کہ وہ جمہوریت کے علمبردار ہیں) تو ہمیں کچھ ایسی باتوں کا پتا جلے گا جن سے بھٹو نے سندھ کی وحدانیت کی جڑیں ہلاکے رکھ دیں۔

جیسا کہ

ون یونٹ میں سندھ کی پہچان کو ختم کردینا: 1958ء میں جب پہلی بار ملک بنانے والے سیاستدان ناکام ہوگئے تو خود کو فیلڈ مارشل کا خطاب دینے والا جنرل ایوب پاکستان کے تخت پر بیٹھ گیا۔ یہ ایوب خان ہی تھا جس کے ساۓ تلےبعد میں قائد عوام کا لقب پانے والے بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کی۔ ایوب کے دور میں بھٹو وزیر خارجہ بنا اور وہ ایوب کے خاص مشیروں میں سے ایک تھا، یہ بھٹو ہی تھا جس نے ایوب کو مشورہ دیا کہ ایسٹ پاکستان کے خلاف باقی چار صوبوں کو ملا کر ون یونٹ بنایا جاۓ تاکہ بنگالیوں کو کچلا جاۓ۔ ایوب نے اس مشورے پر عمل کیا اور ویسٹ پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملا کر ون یونٹ بنا کر لاہور کو اس کا مرکز بنالیا۔ اب کوئی بھی سندھ کو سندھ نہیں کہ سکتا تھا سندھ کے آگے سابقہ صوبہ نا لگنا غداری تھی۔ جیسے انگریز سامراج نے1943ع میں سندھ کو بمبئی سے ملا دیا ویسے ہی بھٹو کی بدولت سندھ کو تخت لاہور کے ماتحت کردیا۔ اس پر سندھ کی عوام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ سندھ کو سندھ نہ کہنا بھی بربریت اور ظلم تھا، اوراس ظلم اور بربریت میں بھٹو سب سے آگے تھا۔ اس کے بعد بھٹو نے ایوب کو بی ڈی الیکشن کا مشورہ دیا مادر قوم فاطمہ جناح صاحبہ کو شکست دلوائی۔ یہ وہی فاطمہ جناح تھیں جس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر یہ ملک بنایا مگر ایوب جیسے آمر اور بھٹو جیسے سیاستدان سے الیکشن ہار گئی۔

 سندھ کو دو لسانی صوبہ قرار دینا، پاکستانیوں میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کے وہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ 1948ع میں جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو بنگالیوں نے اس پر اعتراض کیا، ٥٠ کے عشرے میں بنگالی شاگردوں پر ٹنکوں کے گولے برساۓ گئے۔ ( گولی چلائی گئی تھی۔ ٹیک استعمل نہین کئے گئے) ان کا قصور صرف اتنا تھا کے انہوں نے اپنی مادری زبان کی خاطر مورچہ نکالا تھا۔ اس کے بعد 1971ع میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو جب اس ملک کا سربراہ بنا تو اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ اور بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو نے اعلان کیاکہ سندھی سندھ کی سرکاری زبان ہوگی۔ اس حوالے سے امر جلیل لکھتا ہے کہ اس پس منظر میں ممتاز بھٹو بڑے روعب سے ریڈیو اور ٹی وی پر یہ کہنے کے بجاۓ کے اب سندھ میں سندھی زبان کی ون یونٹ سے پہلے والی حیثیت بحال ہوگئی ہے۔ ممتاز بھٹو نے اعلان کیا کے آج سے سندھ کی سرکاری زبان سندھی ہوگی۔۔۔۔ بس اعلان کرنے کی دیر تھی کراچی شہر آتش فشان بن گیا۔۔۔۔ اگلے صبح رئیس امروہوی نے جنگ اخبار میں سرخی لگادی کے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ سن ١٩٧٢-٧٣ کے وہ لسانی فسادات کراچی شہر کی اس وقت تک کی تاریخ کے سب سے بڑے لسانی فسادات تھے۔ شہر سندھ حکومت کے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ٹی وی پر آکر ہاتھ جوڑ کر اردو بولنے والوں سے معافی مانگی اور سندھ کو دو لسانی صوبہ قرار دے دیا۔ اس کے بعد شہر کراچی سندھیوں کے لئے اجنبی بن گیا۔ بھٹو نے سندھ کو دو لسانی صوبہ قرار دینے کے ساتھ اردو بولنے والوں کو یہ پیشکش بھی کی کے اب سے وزیر اعلیٰ سندھی اور گورنر اردو بولنے والا ہوگا۔ اسی حوالے سے سید وصی مظہر ندوی نے لکھا ہے کہ: ١٩٧٠ کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کے برعکس جہاں وہ پاکستانی لیڈر بنا ہوا تھا۔ سندھ میں اپنی کامیابی کے لئے سندھ کے قوم پرستوں سے بھی زیادہ معتصب بن گیا اور اسی تعصب کی بنیاد پر اپنی تحریک چلائی۔

 ١٩٧٣ کے آئین میں سے قومیتوں کے تصور کا انکاراور مذہب کی بنیاد پر نفرتوں کو بڑھاوا دینا: پاکستان میں انگریزی کے سب سے بڑے کالم نویس اردیشر کائوسجی نے ایک انٹرویو میں کہاکہ: بھٹو اتنا لالچی تھا کے اگر کوئی اسے کہتا کے اب لاڑکانہ ہی پاکستان ہے تو بھٹو اس سے کہتا مجھے اس کا وزیر اعظم بنادو۔ بھٹو شروع سے ہی مولویوں سے ڈرگیا تھا اس نے سوشلزم کا نعرہ لگایا تو مولوی حضرات اس کے خلاف ہوگئے تو بھٹو نے ڈر کے مارے کہا نہیں بھائی یہاں تو اسلامی سوشلزم چلے گا۔ سن ١٩٧٣ع میں بھی جب بھٹو کی اسمبلی آئین بنانےبیٹھی، جس کا اس اسمبلی کو کوئی اختیار نہیں تھا کہ آئین بناۓ۔ وہ ایک بوگھس اسمبلی تھی ۔ ٧٠ کے الیکشن کو تو خود بھٹو نے ہی نہیں مانا تھا۔ اس الیکشن میں تو اکثریت شیخ مجیب کی تھی۔ تب ہی تو بھٹو نے یہاں ہم اور وہاں تم کا نعرہ بلند کیا تھا۔۔ بھٹو کی اسی ضد کی وجہ سے تو پاکستان کے ٹکڑے ہوئے بعد میں انہی الیکشن کے نتائج پر بھٹو باقی بچے پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا۔ لیکں پھربھی بھٹو مولویوں سے ڈرا ہوا تھا تبھی تو اس نے ایسا آئین بنایا جس میں قوموں کی نفی کی گئی۔ ایک امت کا تصور دیا گیا۔ قادیانیوں کو قانونی اور آئنیی طور پر کافر قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کردیاگیا۔ بھٹو کا یہ آئین خود ١٩٤٠ع کے قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر یہ ملک بنا کے خلاف تھا۔

 سندھ میں میرٹ کی دھجیاں اڑا دینا: بھٹو نے صرف سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا، جس کا مطلب یہ تھا کے میرٹ کی بجاۓ حکومتی اور سرکاری نوکریوں میں سندھی اور اردو بولنے والوں کا مخصوص کوٹہ ہوگا۔ چاہےسندھی یا اردو بولنے والا کتنا ہی نااہل کیوں نہ ہو مگر اسے سرکاری نوکری مل جاۓ گی کیونکہ سندھ میں کوٹہ جو ہے۔ یہاں سے سندھ میں کرپٹ افسروں کی کئی نسلیں پیدا ہوئیں جو آج بھی سندھ میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ اب تو سندھ میں راشی اور سفارشی کے علاوہ کسی کو سرکاری نوکری نہیں ملتی۔

پی پی پی کے جیالے جب بھی جی ایم سید پر تنقید کرتے ہیں تو کہتے ہیں: جی ایم سید نے ضیاء جیسے آمر کے ساتھ ہسپتال کے بستر پر ہاتھ ملایا۔ مگر وہی جیالے بھول جاتے ہیں کے: ایوب جیسے آمر کو بھٹو ڈیڈی کہہ کر پکارتا تھا۔

ہاۓ رے سندھ تیری قسمت آج بھی بھٹو زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).