ہمارا سیاسی رویہ


مملکت خداداد پاکستان کو اپنے وجود کے بعد سے ہی جن اہم ترین مسائل کا سامنا رہا اس میں ایک انتہائی اہم مسلئہ جمہوری نظام اور اسکے تسلسل کا بھی رہا ہے۔عوامی حکومت کو ہمیشہ مسلئہ درپیش رہا کہ وہ نادیدہ قوتوں کی خوشنودی حاصل کریں من وعن انکی منشاء پر کاربند رہیں ورنہ پھر بوٹوں کی گونج کے منتظر رہیں۔بات ایک آدھ مرتبہ کی ہوتی تو اسکے اثرات بھی اتنے زیادہ نہ ہوتے چونکہ واردات تواتر کے ساتھ ہوتی رہی لہذا ہمارا سیاسی مزاج بھی آمرانہ ہوگیا۔سیاسی قائدین نے طے کرلیا کہ حکومت یا تو ہماری ہو یا پھر کسی کی نہ ہو۔انکی نظریں چور دروازوں پر لگی رہیں اور ہر ماورائے آئین اور اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے والے آمر کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ عوامی رائے کو بھی انکے حق میں کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے۔بدقسمتی سے ہر آنے والا آمر ایک جمہوری جماعت کو پیدا کرکے عوام کی جھولی میں ڈالتا رہا جو آگے چل کر خود جمہوریت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا رہا۔حکمراں جماعت ن لیگ بھی انہی خصوصیات کی حامل رہی ہے۔

یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہر آمر کی پشت پناہی اداروں نے بحثیت “ادارہ” کی اور آمریت کو جواز ودوام بخشا۔ ہماری عدلیہ جنہیں اپنے معزز ہونے کا زعم ہے وہ خود اپنے سابقہ کردار پر نگاہ ڈالیں تو حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ جمہوریت اور عوامی رائے کے تقدس کو پامال کرنے اور شب خون مارنے کے عمل میں ان کا اپنا حصہ بھی پورا پورا ہے۔

مشرف کی آمریت کے رخصت ہونے کے بعد سے جمہوریت کے پودے نے جہاں اپنی جڑیں پکڑنا شروع کیں وہیں متلاشی اقتدار قوتوں نے اپنا طریقہ کار بھی تبدیل کرنا شروع کردیا۔انکی پہلی ترجیح یہ رہی کہ منتخب حکومتوں کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں اور کسی طرح انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھائے رکھا جائے تاکہ یہ اپنی پانچ سالہ مدت کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوں جہاں سے چلے تھے۔چونکہ آمریت کی کوئی معین مدت نہیں ہوتی اور نصف عرصے تک اقتدار انہی کے پاس رہا ہے لہذا سیاستدانوں سے زیادہ پاکستان کے اقتصادی حالات،امن وامان کی دگرگوں صورتحال،صوبوں کے احساس محرومی اور شورش کی جوابدہی بھی انہی کا ذمہ ہے۔بات ہورہی تھی روڑے اٹکانے کی، تو جناب زرداری صاحب کی حکومت اپنی پوری مدت عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے ہی گزرگئی۔اور نوازشریف کی حکومت کو شروع دن سے ہی پینتیس پنکچر کے الہام کے بعد دھاندلی دھاندلی کھیل کر الجھائے رکھا گیا۔پھر امپائر کے منتظر کھلاڑی نے ایک قیمتی سال حکومت کو یرغمال بنا کر ضائع کروادیا۔خدا خدا کرکے اس آفت سے نکلے تھے کہ پانامہ کی بیڑیوں میں ایک بار پھر جکڑے گئے تقریبا مزید سال بھر حکومت کو عوامی خدمت اورحکومتی ذمہ داریوں سے جبری الجھائے رکھا۔اب نوبت یہاں تک آنپہچی ہے کہ خود وزیراعظم کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہے۔اس غیر یقینی سیاسی صورتحال سے براہ راست ملکی معیشت کا نقصان ہورہا ہے اور سرمایہ دار تذبذب کا شکار ہیں۔بالفاظ دیگر صرف ایک سیاسی شخصیت کو بنیاد بنا کر اس ملک کے کڑوڑوں عوام کے مستقبل کے ساتھ گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

سوال یہ بیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر حکومت کو کرپشن کا فری ہینڈ دے دیا جائے؟ تو اسکا جواب ہے ” نہیں “۔ہمیں سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کی جو امید نظر آرہی ہے اسکے استحکام کے لئے ہمیں کئی کڑوے گھونٹ پینا پڑینگے۔ہمیں حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ووٹ اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو ہر حال میں اسکی مدت پوری کرنے دینا چاہئے۔ملکی قوانین کو بھی اس بات کا ضامن ہونا چاہئے کہ جس منتخب وزیراعظم کو عوام نے ایوان اقتدار میں پہنچایا ہے اسے کسی سازش کے تحت نکال باہر نہ کیا جائے اور وزیراعظم کو استثناء حاصل ہونا چاہئے۔تاکہ وہ اپنی توجہ عوامی خدمت اور اپنے منشور پر مرکوز رکھ سکے۔اگر چوری،کرپشن اور کک بیکس کا کوئی واقعہ ہوتا بھی ہے تو آنے والی حکومت پچھلی حکومت کا احتساب کرلے جو کہ ہمارے ہاں ہوتا رہتا ہے یا پھر اسکی آواز اسمبلی میں اٹھائی جاسکتی ہے۔تحاریک پیش کی جاسکتی ہیں شورشرابہ اور غل غپاڑہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس نہج تک نہیں پہنچنا چاہئے کہ پورے ملک کا مستقبل ہماری سیاست کی نذر ہوجائے۔ظاہر ہے کہ ابھی ہماری جمہوریت نے چلنا سیکھا ہے ان ممالک کی مثالیں یہاں دینے کا وقت ابھی نہیں آیا جہاں صدیوں سے جمہوریت چلی آرہی ہے اور جہاں کی عوام و حکمرانوں میں جمہوری سوچ و عمل رچ بس گیا ہے۔ابھی ہمیں وقت لگے گا ان تک پہنچنے میں،تب تک کچھ کڑوے گھونٹ پینا ہونگے۔کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی کمر میں درد نہیں ہوگا وہ خود کو احتساب کے لئے پیش کرینگے،ضرور کرینگے۔

محمد ساجد
Latest posts by محمد ساجد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).