بجھتی روشنیوں کے شہر میں کرانچی والا


کراچی کو روشنیوں کے شہر کے بجائے کچرے کے شہر میں تبدیل کرنے کی کہانی تازہ ہے۔اس ضمن میں اختر بلوچ کے یہ منتخب خاکے یا بلاگز عبرت ناک ہیں، اگرچہ اب ہم کسی بات سے بھی عبرت حاصل کرنے کے قابل نہیں۔ بالاستیعاب مطالعے سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ کراچی کو بنانے کا سہرا انگریزوں، پارسیوں اور ہندوؤں کے سر ہے اور اسے بگاڑنے کا افتخار مسلمانوں کو حاصل ہے۔ مورد الزام تمام مسلمانوں کو نہیں ٹھہرا سکتے۔ استثنا بھی موجود ہیں، جیسے ایدھی صاحب۔ اور بھی معدودے چند درد مند دل رکھنے والے مسلمان ہوں گے، جنھوں نے اس افراتفری اور بے محابا حرص کے دور میں اچھی مثالیں قائم کی ہیں۔ لیکن مجموعی صورت حال ابتر ہے۔

جیسا کہ اختر بلوچ نے لکھا ہے: ’’تاریخی عمارات قبضہ گروپوں کی ہوس ملکیت کی شکار ہو گئیں۔ مندروں، فلاحی اداروں اور تعلیمی مراکز سب پر قبضہ کر لینا جائز قرار دے دیا گیا۔ غیر مسلم تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنا یا ان میں کلمہ گو خاندانوں کو بسا کر انہیں مشرف بہ اسلام کرنا قومی نیکی میں شمار کیا جانے لگا۔ کراچی کے قدیم ترین مسیحی قبرستان کو، سرکاری اہل کاروں کی تائید سے، پلازہ بنا دیا گیا۔ حکومت نے کسی وقت ان حرکتوں کی مخالفت نہیں کی۔‘‘ اختر بلوچ کے خیال میں اس کی اصل وجہ سماجی اور ثقافتی اقدار کے بارے میں غلط فہمیاں تھیں۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ پاکستان کی تاریخ 14 اگست 1947ء یا محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کی تاریخ غیر اہم ہے۔ یہ توجیہہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ان تمام معاملات کا تعلق نہ تاریخ سے ہے نہ ثقافت سے۔ زمین دولت ہے اور زیادہ سے زیادہ زمین ہتھیانا دن رات دگنے چوگنے امیر ہونے کا نسخہ۔ دل کی تسلی کے لیے اس ہوس کو خوش نما لبادے اڑھا دیے جاتے ہیں۔

اختر بلوچ کی کتاب نو بہ نو اور اکثر اوقات دل کو جلانے والی معلومات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پڑھتے ہیں کہ لیڈی لائیڈز پیٹر 1921ء میں ایک معزز پارسی رئیس سر جہانگیر ہرمزجی کوٹھاری نے تعمیر کرایا تھا جس پر تین لاکھ روپے (آج کل کے کم و بیس تیس کروڑ روپے) لاگت آئی تھی۔ اور سنیے، قائداعظم کی جائے پیدائش، کراچی نہیں ضلع ٹھٹھہ کے ایک علاقے جھرک کا کوئی گاؤں ہے۔

کتاب میں شامل بلاگز کے ذریعے سے کراچی کی سیر تو ہو جاتی ہے لیکن بالکل الٹ زاویے سے۔ ستر سال میں شہر کے حلیے کو تبدیل کرنے کی ہم نے جو کامیاب (اگرچہ جمایاتی نقطۂ نظر سے بڑی حد تک واہیات) کوششیں کی ہیں ان کا کچا چٹھا یہاں درج ہے۔ اختر بلوچ نے ایک اور جھوٹ کو بھی، جو ہم ہر وقت دہراتے رہتے ہیں، دفنا دیا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ جی ہاں، زبانی کلامی حاصل ہیں، حقیقت میں نہیں۔

کتاب محض نوحہ گری ہی نہیں۔ سبق آموزیا دلچسپ واقعات بھی بہت سے ہیں۔ انھیں پڑھ کر آپ محظوظ نہ سہی، خفیف ضرور ہوں گے۔ کراچی واٹر بورڈ مرحومہ فاطمہ جناح کو بل بھیجتا رہا ہے۔ 30 جون 2014 کو جو بل بھیجا وہ پونے تین لاکھ روپے کا تھا۔ آفرین ہے۔ آنے والے برسوں میں کوئی قائداعظم کو بھی بل بھیج دے گا کہ آپ کے مزار پر اتنا خرچ ہوا۔ وہ تو خدا کے لیے اب ادا کر دیجیے۔ صفحہ 52 پر تحریر سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ فاطمہ جناح کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جو گندر ناتھ منڈل کو، جسے خود قائداعظم نے وزیر بنایا تھا، چودھری محمد علی نے کس طرح پاکستان سے چلے جانے پر مجبور کیا۔ حشمت ٹہلرام کیول رامانی کی بپتا پڑھ کر دل پر چوٹ لگتی ہے۔ لیکن زیادہ دل دوز کہانی دیارام گدومل کی ہے۔ دیا رام سیشن جج تھے۔ 1911ء میں ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے بمبئی میں آشرم کھول لیا، جو برسوں جاری رہا۔ آشرم کے تمام لڑکے اور لڑکیاں دیارام کو پتا جی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔ ایک دن اچانک انہوں نے آشرم بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے آشرم کی ایک سترہ سال کی لڑکی سے شادی کر لی۔ ان کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگ انہیں برملا بوالہوس اور شہوت زدہ کہنے لگے۔ دیارام نے پروا نہ کی۔ لڑکی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ دس برس بعد لڑکی تپ دق میں مبتلا ہوئی اور مرنے سے پہلے اس نے اپنے والدین کو بتایا: ’’مجھے ایک لڑکے کا ناجائز حمل تھا۔ اس لڑکے نے حمل کے بعد مجھ سے شادی تو کیا بات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ کوئی دوسرا بھی مجھے پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ میری عزت کو بچانے کے لیے دیارام صاحب نے اپنی کل ہند شہرت اور عزت کو قربان کر دیا اور مجھ سے کھلے طور پر شادی کر لی۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرے اور ان کے تعلقات آج تک باپ بیٹی کے ہیں۔‘‘ یہ ایک بہت بڑے ناول کا موضوع بن سکتا ہے۔ لیکن اسے تحریر کرنے کے لیے جو صلاحیت درکار ہے وہ اب کس کے پاس ہے۔

سب سے مزاحیہ واقعہ صفحہ151 پر ہے۔ وڈیرے انگریزوں سے بالخصوص میموں سے جس طرح خوف کھاتے تھے وہ بغیر لاگ لپٹ کے سامنے آ جاتا ہے۔ تھوڑے بہت اضافے سے اس پر اچھا بھلا ٹی وی ڈراما بن سکتا ہے۔ مگر ہم میں تو اپنا مذاق آپ اڑانے کی جرأت بھی کم ہو گئی ہے۔

اختر بلوچ کی یہ کاوش قابلِ قدر ہے۔ ابھی تو کراچی کی زنبیل سے جانے کیا کچھ مزید برآمد ہو سکتا ہے۔ اگر وہ پورے سندھ کا اتنی ہی باریک بینی سے جائزہ لیں تو ’’کرانچی والا‘‘ جیسی کئی کتابیں تیار ہو جائیں۔

کرانچی والا از اختر بلوچ

ناشر: آج کی کتابیں، کراچی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).