کراس کر یا برداشت کر


کون نہیں جانتا کہ ہر ریاست میں کچھ با اثر گھرانے ہوتے ہیں۔ ادھر بھی ہیں۔

منشا گھرانہ، مخدوم گھرانہ، ترین گھرانہ، ملک ریاض گھرانہ، مولانا گھرانہ دو چار اور مقدس جاگیری گھرانے وغیرہ وغیرہ

یہ جالب کے دور میں بائیس چوبیس ہوتے تھے اب پانچ سات سو ہیں۔

اکثر شرافت کی سیاست بس اسی قدر کرتے ہیں کہ اپنا اور خاندان کا مستقبل محفوظ رہے تاہم کچھ پر پرزے نکالنا شروع ہوجاتے ہیں

ان سب کے گوشواروں پر اپنی انگلی اوپر نیچے کرنے والے امپائر صاحب خطرے کے نشان چھوتی مسلسل تیز باؤلنگ پرمبینہ ٹمپرنگ پکڑ ہی لیا کرتے ہیں۔

نواز گھرانہ فاسٹ باؤلر ہی نہیں، اس نظام کا آل راؤنڈر بن رہا ہے۔ با اثر اتنا کہ ایک بھائی وزیراعظم، دوجا وزیر اعلی، سمدھی وزیر مالیات اور بیٹی سیاسی وارث۔ الخ

قومی صوبائی اسمبلیوں سے سینیٹ اور میڈیا کچہری تک سب دابے میں۔

ادھر شہروں میں انفراسٹرکچر اور دیہی کیچڑ میں اکثر تگڑے امیدوار electable جیب میں پڑے ہیں

شاہ عالمی فرشتے اس پر زیادہ جھنجلاہٹ کا شکار کہ زرداری کی ’موج مست مفاہمتوں‘ اور عمران کی وحشیانہ حماقتوں نے اگلے پانچ سالہ عہد کو پی پی اور تحریک انصاف کا تقریباً یوٹرن بنا دیا ہے۔

دونوں نے بہت زور مار تو اب کی بار ستر اسی نہ سہی، سو سوا سو نشستیں لے لینی ہیں جبکہ پہاڑ اور پہاڑہ ساڑھے تین سو کا ہے۔

اسد درانہ الائنس یا احتشام ضمیرانہ پلان پر یہ حضرات پچاس ساٹھ فیصد لے بھی لیں تو عمران زرداری کی مشترک حکومت دیوانے کا خواب ہے یا اس کی پھڑ۔

ادھر، مسٹر نواز کے ہوتے نون کے بکھرنے کی اتنی ہی امید کی جاسکتی ہے جتنی جناب پرویز، طاہر قادری، سراج الحق کے بالترتیب قومی عوامی مصطفوی ’کمال‘ دکھانے کی۔

اوپر سے سال بھر میں انتخابات ہیں۔

ایسے میں نون دوبارہ سادہ اکثریت لے بیٹھی تو بہت حساس معاملات کون دیکھے گا۔

سی پیک ملکیت، چین روس بلاک نوازی اور عرب ایران سے ہندوستان و افغانستان تک میں آنیاں جانیاں اور معاشی و حفاظتی پالیسیاں اسی ’خاندان‘ نے بنانیاں ہیں

سو آسانیاں اسی میں ہیں کہ گھرانہ سائز سے بڑھ جائے تو عالمی فرشتے اٹھا لیا کریں یا اپنے مقامی گرا دیا کریں

میرخلیل الرحمن سے ڈاکٹر قدیر خان تک۔ بھٹو خاندان سے اس میاں مچھر دان تک۔

جو بھی دائرہ کراس کرے گا تو یہ سب برداشت کرے گا۔

رہ گیا اٹھارہ بیس سالہ گرم لہو کا مادرپدر آزاد جشن تو۔ منانے دیجیے۔

فکری اور تاریخی سنجیدگی سے بے بہرہ کچے خواب دیکھتی نسل نو سے کیا گلہ کہ احتساب کے لالی پاپ کی پیکنگ اوراسکی پہلی انقلابی پرت دیکھ کے منہ میں پانی آ ہی جاتا ہے۔

اس دودھ پانی کا فرق تو استاد صحافی اور علما بتایا کرتے ہیں۔

ان سے یہی گزارش ہے کہ نئی نسل کی کاشت کیجئے پرداخت کیجیے ورنہ یہ سب دیکھ کڑھیے اور برداشت کیجیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).