یہ بیٹیاں اتنی جلدی جوان کیوں ہوجاتی ہیں؟


ابھی کل کی بات ہے، کہ اُس کی دادی نے اس کو لال رنگ کا فراک بنا کے دیا؛ اُس پر یہ رنگ خوب جچا۔ اُس کی عمر ایک سال بھی نہ تھی، لیکن جب جب اُس کو یہ فراک پہنایا گیا، اُس کے آنکھوں کے ڈورے لال ہو گئے۔ وہ چیختی، روتی، چلاتی تھی۔ میری ماں نے یہ راز جان لیا کہ اس کو لال فراک پہنایا جائے، تو اِس کی آنکھوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔ امی کہتی تھیں اس کو نظر لگ جاتی ہے۔ میں ہنس کے جواب دیتا، ”امی گوروں کے اتنے پیارے پیارے بچوں کو نظر نہیں لگتی، آپ کے کالے پیلے پوتے پوتی کو نظر کیسے لگ جاتی ہے؟“ ظاہر ہے ایسے سوال نما جواب ہر امی سے ڈانٹ ہی پڑتی ہوگی۔ امی چولھے پر مرچیں جلا کے دکھاتیں کہ یہ دیکھو مرچیں جلنے کی بو کیوں نہیں آتی، کچھ تو ہے نا۔  میں کہتا، امی کچھ مرچیں بو دیتی ہوں گی کچھ نہیں؛ آپ نے اس کو جادو سمجھ لیا!

ابھی بمشکل دو سال کی ہوگی کہ بھائی کو اسکول جاتے دیکھ کے ضد کرنے لگی، مجھے اسکول جانا ہے؛ ”پلے گروپ“ میں داخل کروا دیا گیا، بیمار رہنے لگی، تو امی کو ہمیں ڈانٹنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ ”اتنی کم عمر کو اسکول میں ڈال دیا ہے، نہ نیند پوری ہوتی ہے نہ آرام کر پاتی ہے۔“ اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے، جب یہی بیٹی اپنی ہی موج میں بہن بھائیوں کو جتلا رہی تھی، کہ ”ابو میری کوئی بات نہیں ٹالتے، میں جو کہتی ہوں، مان لیتے ہیں۔“ میں نے غور کیا، بہت سوچا تو لگا وہ صحیح کَہ رہی تھی۔ ایسا کیوں ہے؟ آج تک کوئی جواب نہ ملا، لیکن یہ ہے کہ بیٹی کا یہ دعوا میرے لیے تمغے سے کم نہیں۔ میں آج بھی اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا، کہ بیٹیوں کا مان توڑنے والا باپ، بہت کم ظرف ہوگا۔

اسکول کالج میں میری ڈراینگ اور ہینڈ رایٹنگ مثالی ہوا کرتی تھی۔ یہی احوال میری بیٹی کا ہے؛ آج کل تختی کا زمانہ کہاں، لیکن اس کی ہینڈ رایٹنگ خوب ہے، اور ڈراینگ میں بھی دل چسپی ہے۔ میں خوش ہوں کہ میری بیٹی میرا پرتو ہے۔

اس کو شلوار قمیص پسند نہیں رہا؛ جب کبھی اس کو شلوار قمیص سلوا کے دیا گیا، رونے لگی، کہ یہ چبھتا ہے۔ اس کی ماں زبردستی پہنا دے تو جب تک چینج کرنے کا نہ کہو، روتی رہے گی۔ کوئی سال بھر پہلے میں بچوں کے ہم راہ باجی کے گھر گیا، تو انھوں نے میری بیٹی کی طرف اشارہ کرتے میری بیوی سے کہا، ”یہ بڑی ہوگئی ہے، اسے اب پینٹ شرٹ مت پہنایا کرو۔“ میری بیوی معذرت خواہانہ انداز اپنانے ہی والی تھی، کہ میں نے رُکھائی سے جواب دیا، ”باجی، یہ پینٹ شرٹ ہی پہنے گی؛ شلوار قمیص جیسا بے ہودہ لباس اس کو پسند نہیں۔“ باجی مجھ سے محبت کرتی ہیں، خاموش ہو گئیں۔ بیوی نے بعد میں کہا، باجی ٹھیک کہتی ہیں، جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، اسی کے مطابق چلنا چاہیے۔ میں نے بیوی سے کہا، وہ میرے اور میری بیٹی کے معاملے میں مت بولا کرے۔

میری بیٹی اب دسویں جماعت میں ہے۔ ڈانگ کی ڈانگ ہے؛ قد میں انیس بیس میرے برابر آ گئی ہے۔ میں کم سن تھا لیکن زرا زرا سا یاد ہے، کہ میرے نانا کے پاس ٹیوبوں والا ریڈیو تھا۔ لکڑی سے بنے اس ڈبے سے ”سہاڈا چڑیا دا چمبا ایہ، بابل اساں ٹر جانڑا“ کی آواز آتی تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ میں بڑی عمر کا ہو گیا، جب کبھی نانا کا رونا یاد آتا میری حیرت نہ جاتی تھی، کہ وہ کیوں‌ روتے تھے۔ آج میں یو ٹیوب پر گانے سن رہا تھا؛ طفیل نیازی تان بھر رہے تھے، کہ بیٹی آ کے کہنے لگی، ابو مجھے ہاکی اسٹک خرید دیں، مجھے اسکول کی ٹیم میں شامل ہونا ہے۔ اس کی ماں‌ جزبز ہوتی ہے تو ہو، میں اپنی بیٹی کی بات تو نہیں ٹال سکتا۔ اسی دوران طفیل نیازی کی صدا آئی، ”سہاڈا چڑیا دا چمبا ایہ، بابل اساں ٹر جانڑا“ تو میرا دل بھر آیا، بہت چاہا کہ نہ آنسو نہ بہیں، لیکن میرے اختیار سے باہر ہو گئے۔ کس سے پوچھوں کہ یہ بیٹیاں‌ اتنی جلدی جوان کیوں ہو جاتی ہیں؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran