ہمت اور جذبے سے زندگی بدل سکتی ہے


انڈیا کے ایک فلم لگان میں ایک قصبے کی بہت ہی درد ناک کہانی فلمائی گئی ہے۔ ایک گاؤں میں خشک سالی سے قحط آ گیا تھا لیکن اس کے باوجود انگریز سرکار اس گاؤں سے ٹیکس وصول کرنے پر بضد تھی۔ قصبے کے لوگوں نے بہت منت سماجت کی اور اسے گاؤں میں خشک سالی کی دلیل دی لیکن انگریز سرکار نہیں مان رہی تھی۔ آخرکار انگریز نے ایک عجیب و غریب شرط رکھ دی کہ قصبے کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان ایک کرکٹ کا میچ کھیلا جائے گا۔ اگر انگریزوں نے میچ جیتا تو واجب الادا ٹیکس دوگنا ہوگا اور اگر قصبے والوں نے جیتا تو ٹیکس معاف کیا جائے گا۔ گاؤں کے جرگہ نے شرط قبول کرلی اور میچ کے لیے تیاری شروع کی۔

قصبہ کے ایک بہادر شخص کو جو اس میچ کا منتظم تھا، میچ کے لیےپریکٹس کے دوران اس بات کا پتہ چل گیا کہ اس قصبے کا ایک معذور شخص جس کو لوگ حقارت سے کچرا کے نام سے پکارتے تھے، بال کو حیرت انگیز حد تک سونگھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ بال سونگھ کر اس کے رُخ کا اندازہ لگا لیتا ہے اور اس سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے کھلاڑیوں کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ میچ کے منتظم کو کچرے کی اس خداداد صلاحیت میں گاؤں کو ٹیکس سے نجات کی صورت نظر آتی ہے۔

منتظم نے میچ کے لیے اس کا نام تجویز کیا تو لوگوں نے شدید مخالفت کی لیکن بعد ازاں میچ کے منتظم نے لوگوں کو قائل کیا، اس لئے اس کی تجویز مان لی گئی۔ پھر کچرے کی مدد سے قصبے والوں نے میچ جیت لیا اور لوگوں کا انگریزوں کے بےرحمانہ اور ظالمانہ لگان سے نجات مل گئی۔

کچرے کی طرح ایک باہمت کردار مجھے گزشتہ دنوں ناران کی جھیل سیف الملوک میں مل گیا۔ جھیل سیف الملوک وادئ کاغان کے شمال کے آخری سرے پر پہاڑوں سے گھری ہوئی طلسماتی خوب صورتی کی حامل ایک دل کش جھیل ہے۔ اس کا نام مصر کے ایک شہزادے سیف الملوک کے نام پر اس لیے رکھا گیا تھا کہ وہ ایک بہت ہی خوبصورت اور مشہور پری بدری جمالہ کی محبت میں چھ سال کی طویل مسافت طے کرکے اس کا ایک جلوہ دیکھنے کے لیے یہاں پہنچا تھا۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 10557 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً تین مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے گرد چکر لگانے میں ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ جب میں جھیل سیف الملوک پہنچ گیا تو ناشتے اور کولڈ ڈرنکس کے لیے سجائے گئے ہوٹلوں کے ایک طرف پچاس ساٹھ کی تعداد میں گھوڑے کھڑے تھے۔ ہر گھوڑے کے ساتھ اس کا مالک لگام تھامے پُرامید نظروں سے آنے والے سیاحوں کی راہ تک رہا تھا۔ بعض اپنے ہاتھ کے اشاروں اور جسمانی حرکات کے ذریعے سیاحوں کو گھوڑے پر جھیل کی سیر کرانے کے لیے راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ بعض اپنے گھوڑے کی صفات زبان سے بیان کر رہے تھے۔ میرے ساتھ میرا بیٹا عمر فاروق بھی تھا۔ اپنے بیٹے کو خوش کرنے کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ جھیل کے گرد چکر گھوڑے پر لگانا چاہئے۔ میں وہاں موجود گھوڑوں میں سےانتخات کا سوچ رہا تھا تاکہ کسی تندرست و توانا اور خوبصورت گھوڑے کا انتخاب کروں۔ لیکن وہاں قریب پہنچا تو ایک شخص جلدی سے اپنے گھوڑے سمیت میرے قریب آگیا اور میں نہ چاہتے ہوئے اس پر سوار ہوگیا۔ میں راستے میں اپنی جلد بازی کی وجہ سے اس گھوڑے پر سوار ہونے پر بہت پریشان تھا۔ میں اتنا مضطرب ہوگیا تھا کہ میں جھیل کے خوبصورت اور دلکش مناظر سے صحیح طور پر لطف اندوز بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اچانک میری نظر گھوڑے کے مالک پر پڑی۔ وہ اپنا گھوڑا پکڑے لنگڑاتا ہوامیرے آگے چل رہا تھا۔ میں نے پہلے اس کا نام پوچھا، تو اس نے اپنا صفدر بتایا اور کہا کہ وہ مانسہرہ کا رہنے والا ہے۔ میں اس سے اس کی معذوری کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ اچانک اس نے مجھے خود ہی اپنا ایک پاؤں دکھایا اور کہا کہ اس کا پاؤں پولیو کی وجہ سے ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ کسی کی جسمانی کمزوری کے متعلق پوچھنا مجھے اخلاقی اور انسانی اقدار کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور بعض ممالک میں یہ قابل سزا جرم بھی سمجھا جاتا ہے۔

میں نے جب اس کا متاثرہ پاؤں دیکھا اور اس کی کہانی سنی تو پریشان بھی ہوا اور ساتھ ہی انتہائی خوش بھی ہوگیا۔ پریشان اس بات پر کہ معذوری اور بیماری اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ یہ انسانی سرگرمیوں کو محدود کردیتی ہے اور خوش اس وجہ سے ہوا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی سیدھا اس کے گھوڑے پر سوار ہوگیا تھا جس کے لئے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

میری زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے کہ میں جو کام نہیں کرنا چاہتا، اللہ تعالیٰ مجھ سے وہی کام کرواتا ہے۔ میری زندگی ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ میری انگلینڈ کی طرف ہجرت بھی اس کا واضح ثبوت ہے۔ جب میرا انگلینڈ کا ویزہ لگا تو کچھ ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے میں انگلینڈ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن بعد میں خدا نے میرے لئے حالات ایسے پیدا کئے کہ مجھے مجبوراً انگلینڈ منتقل ہونا پڑا۔

وہ باہمت شخص مجھے بتا رہا تھا کہ میں نے خود تعلیم حاصل نہیں کی ہے لیکن میں اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہوں اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے میں گرمیوں میں اپنے گھوڑے کو ناران لے آتا ہوں۔ یہاں ٹینٹ میں رات گزارتا ہوں اور دن کے وقت اپنے بچوں کے لئے محنت مزدوری کرکے رزق حلال کماتا ہوں جب کہ سردیوں میں مانسہرہ میں حالات اور موسم کے مطابق کوئی دوسرا کام کرتا ہوں۔

میں سوچ رہا تھا کہ اگر ایک معذور شخص اپنے بچوں کی پرورش اور انھیں تعلیم دلانے کی خاطر معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے اپنی استعداد کے مطابق محنت مزدوری کرسکتا ہے اور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا واضح وژن رکھتا ہے تو ایک صحت مند شخص تو اس سے زیادہ منافع بخش روزگار ڈھونڈ سکتا ہے۔ وہ اگر معاشرے سے گلہ کرتا ہے کہ اسے سرکاری ملازمت نہیں مل رہی ہے یا وہ مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کاروبار شروع نہیں کرسکتا تو اس کا یہ شکوہ بے جا ہے۔ انسان اگر کوشش کرے تو وہ کیا نہیں کرسکتا۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ خیرات سے قوم اور ریاست دونوں بھکاری بن جاتے ہیں، اس لئے ہمیں اس طرح کی بہانہ بازی اور بے عملی سے جان چھڑانی ہوگی کہ ریاست یا کوئی اور ہماری زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے آئے گا۔ بے شک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی تمام بنیادی انسانی ضروریات پوری کرے لیکن اپنی ناکامیوں کی ساری ذمہ داری ریاست پر ڈال کر مایوس ہونا کسی طور پر درست رویہ نہیں ہے۔ ہاں یہ کسی ریاست کی کمزوری اور بے حسی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے عام عوام کو کم اور بالادست طبقات کو زیادہ مراعات سے نوازے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ریاست کی اس خامی پر ایسی مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ غریب اور کمزور عوام صرف ٹیکس دیتے ہیں اور ریاست تمام مراعات چند مخصوص لوگوں کے لئے مختص کرتی ہے۔

ایسے حالات میں ہم غریب، محنت کش اور چھوٹے چھوٹے ہنر مند (کسب گر) لوگوں کوصفدر اور کچرا کی ہمت اور وژن سے نہ صرف سیکھنا ہوگا بلکہ ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے بچوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جس میں وہ خود اعتمادی سے آگے بڑھیں اور تعلیم حاصل کرکے اپنی محنت اور لیاقت سے مراعات یافتہ طبقات کی صف میں شامل ہوسکیں۔ ہمارے پاس یہی ایک راستہ بچا ہے جس پر عمل کرکے اس ملک کا غریب آدمی اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی کو ناقابل برداشت اور ذلت آمیز رسوائیوں سے بچا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے صرف ہمت، جرأت اور جذبے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).