جی ایم سید نے کہا ایم آر ڈی کفن چوروں کی تحریک ہے


پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں سندھ سیاسی طور پر بڑی اہمیت والا صوبہ رہا ہے۔ کوئی سیاسی تحریک سندھ کی حمایت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ سندھ ہی ہے جہاں سے خلافت تحریک یا ریشمی رومال جیسی اہم سیاسی تحریکوں نے قیام پاکستان سے پہلے جنم لیا۔ اسی طرح ہماری سیاست بھی جناب جی ایم سید کے ذکر کے بغیر ادھوری تو کیا بلکہ نامکمل ہے۔ سندھ کے لوگ اس بزرگ سیاستدان (جنہوں نے اپنی زندگی میں گاندھی جی سے لے کر جناح صاحب تک برصغیر کے ہر سیاستدان کے ساتھ کام کیا) کے سیاست کرنے کے انداز یا نظریے سے تو لاکھ اختلاف کرسکتا ہے۔ پر ان کے بدترین سیاسی دشمن بھی ان کے کردار اور سیاسی بصیرت پر کوئی اختلاف نہیں کرسکتے۔ سندھ کے لوگوں کی دلوں پر راج کرنے والے اس عظیم سیاسی رہنما کو لوگ پیار اور محبت سے سائیں جی ایم سید کہنے لگے۔ انہوں نے اپنے ورکروں کو سیکھایا کے اگر سیاست عوام الناس کی فلاح کے لئے نہیں ہو تو شرارت بن جاتی ہے۔ جی ایم سید کے سیاسی خدمات تو ایک طرف مگر ان کی سندھی ادب کے لئے لازوال خدمات کو کوئی دیوانہ ہی فراموش کرسکتا ہے۔ سید صاحب کی سیاسی بصیرت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ سید ہی تھے جنہوں نے 50 کی دہائی میں مذہبی انتہاپسندی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی طرف کھلم کھلا اشارہ کر ڈالا اور بعد میں سندھ کو سیکیولرزم کے راستے پر لے جانے کے لئے جی توڑ محنت کی۔ میرا اشارہ سید صاحب کے 1952 ع میں ویانا میں ہوئی امن کانفرنس کو کیے گئے خطاب کی طرف ہے۔ جس میں سید صاحب نے کہا تھا کہ:

پاکستان میں ہمیں اس بات کا ڈر ہے کے پین اسلامزم کے ساتھ ساتھ عرب ممالک سے ایک ہونے کا مطالبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد اس بات کا خدشہ اور بھی بڑھ گیا ہے کے مذہبی گروہ زبردستی کی بنیاد پر اپنے عقائد دوسروں پر مصلط کرنے کی کوشش کرئیں گے، اور جو بھی ان سے اختلاف رائے رکھے گا اسے اپنا دشمن بنالیں گے۔ جناب چئیرمین یہ کانفرنس امن کو بڑھاوا دینے کے لئے ایک اہم قدم ہے۔ اور میں اس کانفرنس میں حصا لینے والے تمام شرکا بلخصوص برطانیہ اور امریکہ کو بتانا چاہتا ہوں کے مسلمانوں کو مذہب کے نام اکٹھا کرنے والی امریکہ اور برطانیہ کی تمام کوششیں آگے چل کر خطرناک ثابت ہوں گی۔ (یہ اتباث جناب جی ایم سید کی سن 1952 میں وایانا امن کانفرنس کے خطاب سے لیا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں سید صاحب نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی)۔

ایم آر ڈی کی تحریک اور جی ایم سید کا موقف:

کریسٹینا لیمب نے کتاب: ”ویٹنگ فار اللہ“ میں لکھا ہے کہ، جب سن 1977 میں پی پی کی حکومت نے دوسرے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلیاں کی تو اپوزیشن کی مدد کے لئے فوج آگئی جس نے احتجاج کرنے والوں سے ہاتھ ملایا اور مارشل لا نافذ کر دیا۔ یوں بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جنرل ضیاء نے اسلام کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا۔

اسی حوالے سے طارق علی کتاب ”کین پاکستان سروائیو“ میں جنرل ضیاء کی تقریر کا حوالہ دے کر لکھتا ہےکہ: پاکستان کی مثال اسرائیل کے جیسی ہے۔ اسرائیل سے یہودیت اور پاکستان سے اسلام نکال دیا جائے تو دونوں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیں گے۔

اس کے بعد سن 1979 میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ہر قسم کی سیاسی تحریک پر پابندی لگادی گئی۔ پریس سینسرشپ تلے چلا گیا۔ اب تو اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا تھا۔ سانس لینا محال تھا۔

جیسا کہ بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا تو صاف ظاہر تھا کے اب سندھ کو ہی میدان جنگ بننا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو اپنی والدہ کے ساتھ پہلے جیل میں قید اور پھر دو سالوں کے لئے نظربند ہوگئیں۔ اسی دوران محترمہ نے ضیاء کو تخت سے ہٹانے اور ملک میں جمہوریت بحال کرنے کی تحریک کا خاکہ تیار کیا۔ اس تحریک کے حوالے سے محترمہ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے: ہماری اس تحریک کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے ضیاء کی آمریت کا خاتمہ اور ملک میں جمہوریت کی بحالی۔

جب سندھ کے ساتھ پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات نے محترمہ کے ساتھ ایم آر ڈی کی تحریک کو عوام تک پہچانے کی ٹھان لی تو ضیاء نے سیاستدانوں اور صحافیوں کا گھرا اور بھی تنگ کردیا۔ لیکن اس کے برعکس 1983 میں ایم آر ڈی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ سندھ کی عوام میں تو غصہ بھرا ہوا تھا بس ایک اشارے کی دیر تھی۔ اور عوام محترمہ کے پیچھے لبیک کہتی ہوئی نکل پڑی۔ ضیاء نے عوام کو ڈرانے کے لئے سیاستدانوں اور صحافیوں کو کوڑے لگوائے اور لیڈران کو جیلوں میں بند کیا۔ ہر اُٹھتی آواز کو کچلنے لگا۔ مگر عوامی پریشر کو توڑنے میں ناکام رہا۔ سیاسی ماحول پورے آب وتاب میں تھا، ریاست کمزور ہو چکی تھی۔ اُسی دوران جی ایم سید کی پارٹی کے کچھ جذباتی نوجوان سید صاحب کے پاس آئے اور کہا:

سید صاحب سیاسی ماحول کی گرمی عروج پر پہنچ چکی ہے، یہی صحیح وقت ہے کے ایم آر ڈی کا سہارا لے کر ہم اپنا مقصد حاصل کر لیں۔

تو سید صاحب نے مسکرا کر کہا تھا: ایم آر ڈی کفن چوروں کی تحریک ہے میں اس میں حصہ نہیں لونگا۔

اس کے بعد وہ نوجوان سید صاحب سے ناراض ہو کر چلے گئے۔ ایم آر ڈی کے حوالے سے خدا بخش جویو، جو کے سید صاحب کے پوتے اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کے قریبی ساتھی اور سندھی زبان کے سینئر صحافی بھی ہیں نے مجھے ایک انٹرویو (تب میں روزنامہ جیجل کا رپوٹر تھا) دیتے ہوئے کہا کہ: ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران نواب شاہ، سکرنڈ اور دادو کے قریب چانڈیو قبیلے کے مختلف گوٹھوں کے اوپر جنگی جہازوں سے بمباری کی گئی تھی، جس میں لاتعداد انسانی جانوں کا نقصان ہوا تھا۔ مگر ایم آر ڈی کے کسی بھی لیڈر میں اتنی ہمت نہیں تھی کے ان لاشون کو اُٹھا کر کفن دفن دیتا۔ یہ سید صاحب کے چھوٹے صاحبزادے سید امداد محمد شاہ (جو بعد میں رکن سندھ اسمبلی بھی بنے) تھے جنہوں نے وہ لاشین اُٹھوائیں اور ان کے کفن دفن کا انتظام بھی کیا۔ اس کے بعد جوں ہی ضیاء نے اپنی گرفت کم کی تو ایم آر ڈی کے تمام رہنما انھی لاشوں، جنہیں وہ کھلے آسمان تلے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، پر اپنی سیاست چمکانے لگے۔ جویو صاحب نے مزید بتایا کہ: محترمہ بینظیر صاحبہ نے یہ تک وعدہ کیا تھا کہ جیسے ہی وہ حکومت میں آئین گی تو ان فوجی افسران جنھوں نے نواب شاہ اور سکرنڈ کے قریب بمباری کروائی ان کو سخت سزا دلوائیں گی۔

1988 میں ضیاء جہاز حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ 1989 میں محترمہ کی پہلی حکومت آئی تو اپنے اعلان کے برعکس انہوں نے انہی فوجی افسران جنہوں نے ایم آر ڈی تحریک کے دوران بمباری کروائی تھی ان ہی کو اسی عمل کے لئے بہادری اور شجاعت کے تمغے دیے۔

جویو صاحب سے میں نے جی ایم سید کے ایم آر ڈی کے حوالے سے رائے پوچھی تو انہوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ: سید صاحب کی سیاسی دوراندیشی تھی کے انہوں نے اپنے آپ کو ایم آر ڈی کی تحریک سے دور رکھا جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے بہت سارے نوجوان نالاں تھے کے کیوں وہ اس نادر موقع کو ہاتھوں سے جانے دے رہے ہیں۔ مگر جب پی پی پی کی حکومت میں انہی فوجی افسران جنہوں نے نواب شاہ کے قریب بمباری کروائی تھی کو انعامات سے نوازا گیا تو ہمیں سمجھ میں آیا کیوں سید صاحب نے ایم آر ڈی کو کفن چوروں کی تحریک کہا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).