ترقی کے نام پر چکوال کے مضافات کی تباہی


چکوال میں واقع وادیِ کہون اور ونہار کے خوبصورت علاقے معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ترقی کے نام پر یہی معدنیات ان کی خوبصورتی تباہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ ان کی سرسبز پُرشکوہ پہاڑیاں رفتہ رفتہ ہموار ہو رہی ہیں۔ ان کی فضاؤں میں کبھی ایک نشہ تھا مگر آج وہاں گرد کی تہہ چھائی رہتی ہے۔ اس کا سبب وہاں سیمنٹ کے تین بڑے پلانٹ ہیں۔ ان پلانٹس کی جناتی حجم مشینری نے علاقے کے ماحول اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ہندوؤں کا مقدس تالاب جو کٹاس راج میں واقع ہے اس کی وجہ سے خشک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ماحولیاتی توازن کو بگاڑ کر حاصل ہونے والی یہ ترقی اہلیان علاقہ کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔

چکوال میں پہلی بار کوئلہ 1870ء میں دریافت ہوا تھا۔ اب یہاں کان کنی اہم پیشہ ہے اور مختلف معدنیات کی تقریباً 400 کانیں کام کرتی ہیں۔ کوئلے کے ساتھ ساتھ یہاں سے لائم سٹون، ماربل، راک سالٹ، جپسم اور ڈالو مائیٹ بڑی معدنیات ہیں۔ اس علاقے میں پہلی سیمنٹ فیکٹری 1929ء میں قصبہ ڈنڈوت میں لگی، پھر ایک ساتھ تین آئیں جن کا سنگ بنیاد اپریل 2005ء میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے رکھا تھا۔ اگلے سال اُن میں سے ہی ایک کا افتتاح جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا تھا۔ مقامی لوگوں کو ان سیمنٹ فیکٹریوں اور ان کے ماحول پر اثرات کا مکمل ادراک نہ تھا۔ چنانچہ انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ لیکن گزشتہ سال جب علاقہ ونہار میں سیمنٹ کا پلانٹ لگانے کی کوشش کی گئی تو علاقے کے لوگوں نے ماحولیاتی مسائل کے تناظر میں اس کی شدید مزاحمت کی پھر اسی علاقے میں ایک اور سیمنٹ پلانٹ لگانے کی تیاری کو بھی مزاحمت کا سامنا ہے۔ لوگ ترقی کے نام پر اپنے ماحول کا سودا نہیں کرنا چاہتے، مگر سرمایہ کار علاقے کے پہاڑوں کو پیس کر اور زیر زمین پانی کو خشک کر کے اُن سے دولت کشید کرنے کے درپے ہیں۔

چند ہفتے قبل ڈیلی ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا کہ جوالا مکھی کے بعد ہندوؤں کے دُوسرے مقدس ترین چشمے کٹاس راج کے تالاب میں پانی کی سطح انتہائی گر گئی ہے۔ اس کا سبب وہ ٹیوب ویل ہیں جو قریبی سیمنٹ پلانٹ نے لگا رکھے ہیں۔ اس سیمنٹ فیکٹری نے ایک ٹیوب ویل کی اجازت پر بارہ ٹیوب ویل لگا لیے۔ ڈیلی ڈان کی ہی ایک دُوسری رپورٹ جو اس کے چند دن بعد شائع ہوئی میں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے مذکورہ سیمنٹ فیکٹری کے ساتھ مل کر کٹاس راج کے مقدس چشمے کی بحالی کا کام شروع کر دیا ہے اس مقصد کے لیے چند ٹیوب ویل بند بھی کیے گئے۔ سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ اس مقدس تالاب کے قدرتی چشموں کی بحالی سے پانی کی سطح معمول پر آجائے گی۔ اہلیانِ علاقہ مگر اس ترقی سے اوب چکے ہیں جو نہ صرف آلودہ ہے بلکہ اُن کے زیر زمین پانی کے ذخائر اور اُن کے بڑے ذریعہ آمدن یعنی لوکاٹ اور دیگر پھلوں کے باغات کو بھی خشک کر رہی ہے۔

کٹاس راج اور اردگرد کا علاقہ تاریخی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کا توازن خراب کرنے کا مطلب علاقے کی ویرانی اور عظیم تاریخی ورثے کی تباہی بھی ہے۔ کٹاس سمندر سے 2 ہزار فٹ بلند ہے۔ اس کا مقدس تالاب 200 فٹ لمبا اور 150 فٹ چوڑا ہے۔ ہندو عقیدہ کے مطابق کٹاس کا مقدس چشمہ شیو جی مہا راج کے اُن آنسوؤں کے سبب وجود میں آیا جو انہوں نے اپنی محبوب بیوی ستی یا پاربتی کی موت پر بہائے۔ اُن کا خیال ہے کہ اس مقدس پانی سے غسل کرنے کے بعد اُن کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ یہ عقیدہ مگر سرمایہ کاروں کی راہ نہیں روک سکا اور انہوں نے اس مقدس پانی سے اپنا ’’مقدس‘‘ سیمنٹ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ کٹاس راج کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتب رگِ وید، رامائن، بھگوت گیتا اور مہا بھارت میں بھی ہے یہاں کورؤوں اور پانڈؤوں کی لڑائی ہوئی۔ 272 قبل مسیح میں بدھ مذہب کے پیروکار بادشاہ اشوک اعظم نے یہاں ایک سٹوپہ بھی بنوایا تھا۔ شیر شاہ سوری نے 1540ء میں یہاں مغربی باؤلی تیار کرائی تھی۔ یہاں غالباً دُنیا کی پہلی زبان دانی کی یونیورسٹی شکنتلا یونیورسٹی بھی تھی۔ جہاں البیرونی نے 1017ء سے 1031ء تک سنسکرت کی تعلیم حاصل کی۔ مشہور چینی سیاح ہیون سیانگ 630ء میں یہاں آیا تھا۔ کٹاس سے جانب شمال ایک کلومیٹر ایک معدوم شہر سنگھا پورہ واقع تھا۔ جہاں ایک دُوسرے سے جڑے دس تالاب تھے اور اس شہر میں ایک سو اقسام کے درخت تھے جن کے رنگ مختلف تھے۔ ہیون سیانگ نے اس شہر کا نام سنگ ہوپولو لکھا ہے۔ اس پورے علاقے سے کروڑوں سال پرانے فاسلز اور ڈائنو سار کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔

کٹاس راج کے مقدس تالاب اور اس پورے علاقے کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اس کے نہ صرف مقدس پانی بلکہ ہر انچ جگہ کی حفاظت ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ سیمنٹ کے پلانٹ اس کی فضا، جنگلی حیات، زیر زمین پانی، باغات اور لوگوں کی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں اس آلودہ ترقی سے یہ پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں مگر فیصلہ اُن کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے نہ صرف یہ پلانٹ لگوائے بلکہ بغیر ماحول بارے سخت حفاظتی اقدامات اور کڑی نگرانی کے علاقے کو برباد کرنے کے لیے انہیں کھلا بھی چھوڑ دیا۔ کبھی جو شور و غوغا اُٹھے تو یہ چند دھول جھونکنے والے اقدامات کر کے پھر لمبی تان لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).