ایک نامہ زندگی کے نام


اے زندگی مجھے تم سے ایسی محبت ہے جسے بیان کرنے کے لیے نہ کوئی تشبیہ ہے نہ استعارہ۔ تمہارا ہر رنگ ڈھنگ نرالا ہے۔ تم منفرد ہو اتنا تنوع لیے ہوئے ہو کہ اسے سمجھنا بیان کرنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ میں نے تمہیں ہر حال میں جیا ہے تب بھی جب ایسا کرنا دشوار تھا اور تب بھی جب تمھارے ہر رنگ میں جینا خوشگوار تھا۔ جانتی ہو کہ تم اتنی حسین کیوں ہو؟ اس لیے کہ تمہارا ہر لمحہ پہلا اور آخری ہے اسے دہرایا جا سکتا ہے نہ واپس لایا جا سکتا ہے۔ ہر آنے والا لمحہ اچھوتا ہے جس کے متعلق کوئی حتمی گمان نہیں کیا جا سکتا۔ تم اتنے رنگ لیے ہوئے ہو کہ ہر رنگ کو حیرت کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کبھی بے تحاشہ خوشی اور سر شاری سے تو کبھی اتنے دکھ اور غم سے کہ تمہارا نہ ہونا ہونے سے  بہتر لگے۔ لیکن یہ بھی تمہارا کمال ہے کہ وہ لمحے جو نا قابل برداشت ہوں گزر جائیں تو کچھ عرصے کے بعد ان کی تکلیف میں شدت نہیں رہتی اور حسین لمحے یاد آئیں تو چہرے پہ مسکراہٹ آنکھوں میں خوشی کی نمی چھوڑ جاتے ہیں۔

تم جانتی ہو کہ مجھے یقین ہے کہ ہر فرد کا تمہارے متعلق ایسا نظریہ ہے جو سب سے منفرد ہے۔ جو کسی اصول، قانون، روایت کے زیر اثر نہیں آتا ہر فرد تمہیں اپنے انداز سے سوچتا اور دیکھتا ہے تم سے گلے کرتا ہے، شکوے پالتا ہے لیکن پھر بھی ہر حال میں جینا چاہتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ تم سب کے لیے حسین ہو بلکہ اس لیے کہ رگوں میں خون ہو، دل کی دھڑکن ہو، دماغ کی ہر سوچ ہو۔ تمہاری نفی اپنی ذات کی نفی ہے۔ ہر اس بات کی نفی ہے جو تم سے منسلک ہے، ہر رشتے سے، ہر ناطے سے، ہر تعلق سے، ہر سوچ سے، ہر خیال سے، ہر تحقیق سے، من سے تن سے، کائنات سے ہر چیز کی نفی ہے۔ گویا تم نہیں ہو تو کچھ بھی نہیں ہے تم ہو تو سب کچھ ہے۔

تمہیں پتہ ہے ان دنوں میں تمہیں ایک اور نظر سے دیکھ رہی ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میری سوچ عجیب تھی کہ زندگی کا نمو کیوں ہے؟ کیوں یہ سلسلہ چلتا جاتا ہے؟ دنیا میں آنے والا بچہ کیا سوچتا ہے؟ اس عمل کا کیا فائدہ؟ تب میری ملاقات اپنے گھر میں بھتیجیوں سے ہو گئی۔ یہ میرے  شعور میں  آنے کے بعد دنیا میں  نئے آنے والے انسان سے پہلی مرتبہ اتنی قربت کا تعلق تھا۔ مجھے ادراک ہوا کہ وہ محبت جو ان سے ہے سب سے منفرد ہے۔ اس محبت میں سوچ سے زیادہ احساس شامل ہے۔ بچے پہ خوامخواہ میں بے تحاشا پیار آتا ہے، کشش محسوس ہوتی ہے۔ اسے آغوش میں لینے سے وہ سکون ملتا ہے، وہ خوشی اور سر شاری ہوتی ہے، جو کسی اور عمل میں نہیں۔ بچے کے ذہن میں سوچ نہیں ہوتی۔ اس کی یاداشت مختصر ہوتی ہے وہ باتیں یاد نہیں رکھ پاتا لیکن اس کی آنکھوں میں چمک، چہرے پہ ہنسی اور معصومیت یہ سب تمہاری وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ وہ خوشی ہے جو اسے اپنی جیسے جیتے جاگتے انسانوں میں رہنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ خود کا ان کے وجود کا حصہ ہونے سے ہوتی ہے۔ میں فلسفوں میں نہیں پڑوں گی کہ کس عمر میں بچہ کیا سیکھتا ہے؟ کب وہ صرف حسیات سے کام لیتا ہے، کب سوچنا شروع کرتا ہے، کب اپنے طور سے چیزیں سمجھنے لگتا ہے، میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ بچھے کے ہاتھ کا لمس جب وہ پہلی بار آپ کی انگلی  پکڑتا ہے تو ایک اعتماد لیے ہوتا ہے کہ وہ محفوظ ہے انسان کے دل میں اس لمس سے  پھلجڑیاں پھوٹ پڑتی ہیں۔ جب وہ پہلی بار کسی رشتے سے پکارتا ہے تو مانو ایک نیا احساس اجاگر ہوتا ہے وہ جسے سوچا نہیں جا سکتا۔ شاید بیان کرنا بھی ممکن نہیں۔ اب مجھے لگنے لگا ہے یہ سب بے وجہ نہیں ہے یہ پہلے سے موجود انسانوں کی بقا کے لیے۔ یہ امید کی روشنی ہے جو اندھیرے میں اجالے کا باعث ہے۔ ان کے دل میں احساس زندہ رکھنے کے لیے۔ ان کے من میں محبت کی جوت کو جلا دینے کے لیے ہے۔

تم جانتی ہو ہم انسان کتنے اختلاف پالتے ہیں۔ کس قدر لڑتے جھگڑتے ہیں تمہیں جینے کے لیے۔ ہر اس چیز سے لڑتے ہیں جہاں لگتا ہے کہ ہماری بقا کو خطرہ ہے۔ پھر شناخت کے چکر میں پڑتے ہیں اس وقت ہمیں سب یاد ہوتا ہے کچھ بھول جاتے ہیں تو تمہیں جینا۔ صرف وہاں متفق ہوتے ہیں جہاں ہم سب پہ کوئی ایسی آفت یا مصیبت آ پڑے کہ بقا کا مسئلہ سب سے اہم ہو جائے تب سمجھ آتا ہے تم ہو تو سب ہے تمہارا ہونا سب سے اہم ہے۔ تب نہ شناخت اہم ہوتی ہے نہ اپنے گرد کھنچے گئے دائرے سب ایک ہو جاتے ہیں۔ تم بہت پیاری لگنے لگتی ہو تمہاری قدر کھل کے سامنے آتی ہے۔ ہر شخص  اپنی ذات کے خول سے باہر نکل آتا ہے انہیں ادراک ہوتا ہے کہ وہ سب کسی ایک چیز پہ متفق ہیں اور وہ ہے تمہیں جینا تم سے محبت کرنا۔ مجھے تمہیں جینا ہے اور ہر اس ذی نفس کو جینے دینا ہے جسے آزاد پیدا کیا گیا ہے۔ تم سے محبت کرنا ہے اتنی محبت کرنا ہے کہ اس کے بعد کسی کی زندگی کا ایک لمحہ بھی مجھے ارزاں نہ لگے۔ ایک لمحہ بھی کسی ایسے افسوس کے زمرے میں نہ جائے جس کی وجہ میں ہوں۔ جانتی ہوں ایسا ممکن نہیں لیکن مجھے تمہاری قدر ہے میں تمہیں اہمیت دیتی ہوں۔ تمہارا ایک ایک لمحہ میرے لیے انمول ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی محبت ہے جس میں کچھ دو کچھ لو کا اصول نہیں یہ ایک آنکھ مچولی ہے جس سے کوفت نہیں ہوتی دل اچاٹ نہیں ہوتا یہ وہ حسین کھیل ہے جو ہر حال میں حسین جسے ہر صورت جاری رہنا چاہیے۔ تم سے بات کرنا خود سے بات کرنا ہے۔ یہ خود کلامی ہے جو جاری رہے تو اچھا ہے۔ اس لیے اختتامی الفاظ نہیں لکھوں گی۔ میرا خیال بدلے گا اورخود کلامی جاری رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).