عصمت فروشی ۔۔۔۔ سعادت حسن منٹو کے قلم سے (2)


عمل: جمال خورشید

ان سو لڑکیوں میں سے جو ویشیاؤں کے گھر میں پیدا ہوتی ہیں۔ شاید ایک دو کے دل میں اپنے گردوپیش کے ماحول سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے جسم کو صرف ایک مرد کے حوالے کرنے کا تہیہ کرتی ہیں، لیکن باقی سب اسی راستے پر چلتی ہیں جو ان کی ماؤں نے ان کیلئے منتخب کیا ہوتا ہے۔

جس طرح ایک دکاندار کا بیٹا اپنی نئی دکان کھولنے کا شوق رکھتا ہے اور اس شوق کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح ویشیاؤں کی جوان لڑکیاں اپنا پیشہ شروع کرنے کا بڑا چاؤ رکھتی ہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی لڑکیاں نت نئے طریقوں سے اپنے جسم اور حسن کی نمائش کرتی ہیں۔ جب وہ اپنی تجارت کا آغاز کرتی ہیں تو باقاعدہ رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ ایک خاص اہتمام کے ماتحت یہ سب کچھ کیا جاتا ہے جیساکہ دوسرے تجارتی کاموں کی بنیاد رکھتے وقت خاص رسوم کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

ان حالات کے تحت جیسا کہ ظاہر ہے، متذکرہ صدر قسم کی ویشیاؤں کے دل میں عشق پیدا ہونا مشکل ہے، یہاں عشق سے ہماری مراد وہی عشق ہے، جو ہمارے یہاں عرصہ دراز سے رائج ہے۔ ہیر رانجھا اور سسّی پنوں والا عشق۔

ایسی ویشیائیں عشق کرتی ہیں، مگر ان کا عشق بالکل جدا قسم کا ہوتا ہے۔ یہ لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھے والا عشق نہیں کر سکتیں۔ ا سلیئے کہ یہ ان کی تجارت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، اگر کوئی ویشیا اپنے اوقات تجارت میں سے چند لمحات ایسے مرد کو دے جس سے اسے روپے پیسے کا لالچ نہ ہو تو ہم اسے عشق و محبت کہیں گے۔ اصولاً ویشیا کو صرف مرد کی دولت سے محبت ہوتی ہے، اگر وہ کسی مرد سے اس کی دولت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اس کی خاطر ملے تو یہ اصول ٹوٹ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ اس ویشیا کی جیب نہیں بلکہ اس کا دل کارفرما ہے۔ جب دل کارفرما ہو تو عشق و محبت کے جذبے کا پیدا ہونا لازمی ہے۔

  چونکہ عام طور پر عورت سے عشق و محبت کرنے کا واحد مقصد جسمانی لذت ہوتا ہے ا سلیئے ہم یہاں بھی جسمانی لذتوں ہی کو عشق کے اس جذبے کا محرک سمجھیں گے گو اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں اس کی تخلیق و تولید کی مہیج ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویشیا جو اپنے کوٹھے پر ہر مرد پر حکم چلانے کی عادی ہوتی ہے۔ غیر مختتم ناز برادریوں سے سخت تنگ آ جاتی ہے۔ اس کو آقا بننا پسند ہے، مگر کبھی کبھی وہ غلام بننا بھی چاہتی ہے۔ ہر فرمائش پوری ہو جانے میں اس کو بہت فائدہ ہے مگر انکار میں اور ہی لذت ہے۔ وہ ہر طرف سے دولت سمیٹتی ہے۔ یہ کام اس کا معمول بن جاتا ہے۔ ا سلیئے کبھی کبھی اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی کیلئے خرچ کرے، اگر سب اس کی خوشامد کرتے ہیں تو وہ بھی کسی کی خوشامد کرے، اگر وہ ضد کرتی ہے تو کوئی اس سے بھی ضد کرے۔ وہ سب کو دھتکارتی ہے تو کوئی اسے بھی دھتکارے ستائے مارے پیٹے۔ یہ تمام چیزیں مل کر اس کے دل میں ایک خاص مرد کو اپنا رفیق بنانے پر مجبور کر تی ہیں، چنانچہ وہ انتخاب کرتی ہے۔

انتخاب کا یہ وقت بہت نازک ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے وہ کسی رئیس زادے پر اپنے دل کے خاص دروازے کھول دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے کوٹھے پر چلمیں بھرنے والے چرس نوش میراثی کے غلیظ قدموں میں اپنا وہ سر رکھ دے جس کے بالوں کو چومنے کیلئے بڑے بڑے راجاؤں اور مہاراجوں نے کئی کئی ہزار طلائی اشرفیاں پانی کی طرح بہا دی تھیں اور پھر اس وقت بھی کوئی تعجب نہ ہونا چاہیئے جب وہ غلیظ آدمی اس سر کو ٹھوکر مار کر پرے ہٹا دے۔ اس قسم کے واقعات دیکھنے اور سننے میں آ چکے ہیں۔

ہمارے یہاں ایک مشہور طوائف اس وقت تک موجود ہے۔ جس کے عشق میں ایک نواب مدتوں لٹو بنا رہا مگر وہ ایک نہایت ہی معمولی آدمی کے عشق میں گرفتار تھی۔ طوائف نواب کے عشق کا مضحکہ اڑاتی تھی اور ادھر اس کے اپنے عشق کا مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ نواب طوائف کے عشق میں رسوا ہوا اور طوائف اس آدمی کے عشق میں بدنام ہوئی۔

عام عورتوں کے مقابلے میں ان ویشیاؤں کے عشق کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ا سلیئے کہ یہ مردوں کے ساتھ ملنے جلنے سے نت نئے عاشقانہ جذبات سے متعارف ہوتی رہتی ہیں۔ جب یہ خود اس میں گرفتار ہوتی ہیں تو ان کو جلن زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

ایسے بازاروں میں جہاں یہ عورتیں رہتی ہیں، آپ کو متذکرہ صدر قسم کی کئی کہانیاں سننے میں آ سکتی ہیں۔ خاص کر ان تعیش پسند امیروں کو جن کی تھیلیوں کے منہ ان جسم فروش عورتوں کے کوٹھوں پر کھلتے ہیں۔ ایسی کہانیاں ازبر ہیں۔ جن کو وہ اکثر مزے لے لے کر دوسروں کو سنانے کے عادی ہیں۔ سارنگئے، میراثی طبلچی اور وہ لوگ جن کی آمدورفت ایسے کوٹھوں پر عام رہتی ہے، آپ کو بہت دلچسپ قصے سنائیں گے۔

انہی لوگوں سے سنے سنائے قصوں میں ہم ایک ایسی ویشیا کی کہانی مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں جو کہ ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتی تھی، مگر اس کا دل ایک چیتھڑے لٹکائے مزدور کے کھردرے پیروں تلے ہر روز روندا جاتا تھا۔ وہ ہر شب اپنے دولت مند پرستاروں سے سیم وزر کے انبار جمع کرتی تھی مگر ایک مزدور کے میلے کچیلے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ نازک بدن اس مزدور کی خوشنودی حاصل کرنے کے  لئے کئی بار سڑک کے پتھروں پر سوئی۔

اس قسم کا تضاد و تخائف جو عشق و محبت کا اصلی رنگ ہے، قحبہ خانوں میں دیکھا جائے تو بہت شوخ پُراسرار حد تک رومانی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ صرف عقبی منظر ہے جو پیش منظر کے ہر نقش کو ابھارتا ہے چونکہ عام طور پر ویشیا کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سونا کھودنے والی کدال ہے اور محبت کے جذبات سے قطعی طور پر عاری ہے، ا سلیئے جب کبھی کسی ویشیا کے عشق کی ایسی داستان سننے میں آتی ہے تو بڑی عجیب و غریب اور پُر اسرار معلوم ہوتی ہے۔ ہم ایسی داستانوں کو اسی وجہ سے عام عورتوں اور مردوں کے معاشقوں کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی سے سنتے ہیں۔ جیسے کسی مافوق العادت حادثے کی تفصیل سن رہے ہیں۔ حالانکہ دل اور اس کی دھڑکنوں سے عصمت فروشی یا عصمت مآبی کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ ایک باعصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔

ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔

ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرّہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔ ایسی بہت کم طوائفیں ملیں گی جنہوں نے اس جذبے کی خاطر اپنا کاروبار قطعی طور پر بند کر دیا ہو (کسی شریف لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر شہر کا شریف دکاندار بھی اپنی دکان بند نہیں کرے گا) عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنے عشق کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی جاری رکھتی ہیں۔ دراصل مال و دولت حاصل کرنے کی ایک تاجرانہ طلب ان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ نت نئے گاہک بنانا اور ہر روز اپنا مال بیچنا ایک عادت سی بن جاتی ہے اور یہی عادت بعد میں طبیعت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس طور پر کہ پھر اس کی زندگی کے دوسرے شعبوں سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ جس طرح گھر کے نوکر جھٹ پٹ اپنے آقاؤں کے بستر لگا کر اپنے آرام کا خیال کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہ عورتیں بھی اپنے گاہکوں کو نمٹا کر اپنی خوشی اور راحت کی طرف پلٹ آتی ہیں۔

دل ایسی شے نہیں جو بانٹی جا سکے اور مرد کے مقابلے میں عورت کم ہر جائی ہوتی ہے۔ چونکہ ویشیا عورت ہے ا سلیئے وہ اپنا دل تمام گاہکوں میں تقسیم نہیں کر سکتی۔ عورت کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی زندگی میں صرف ایک مرد سے محبت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت حد تک ٹھیک ہے۔ ویشیا صرف اسی مرد پر اپنے دل کے تمام دروازے کھولے گی۔ جس سے اسے محبت ہو۔ ہر آنے جانے والے مرد کیلئے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔

ویشیاؤں کے بارے میں عام طور پر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ وہ بڑی بے رحم اور جلاّد صفت ہوتی ہیں ممکن ہے سو میں سے پانچ چھ اس نوعیت کی ہوں مگر سب کی سب ایسی نہیں ہوتیں بلکہ یوں کہیئیکہ نہیں ہو سکتیں۔ ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور باعصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔

ہمارے کانوں میں ایک ویشیا کے یہ لفظ ابھی تک گونج رہے ہیں، جو اس کے دل کی تمام گہرائیاں پیش کرتے ہیں۔ آپ بھی سنیئے!

’’ویشیا ایک بے کس اور بے یارومددگار عورت ہے۔ اس کے پاس ہر روز سینکڑوں مرد آتے ہیں، ایک ہی خواہش لے کر ۔۔۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے ہجوم میں بھی اکیلی رہتی ہے ۔۔۔ بالکل تن تنہا ۔۔۔ وہ رات کے اندھیرے میں چلنے والی ریل گاڑی ہے جو مسافروں کو اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچا کر ایک آہنی چھت کے نیچے خالی کھڑی رہتی ہے۔ بالکل خالی دھوئیں اور گردوغبار سے اٹی ہوئی ۔۔۔ لوگ ہمیں برا کہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں؟ ۔۔۔ وہی مرد جو رات کی تاریکی میں ہم سے راحت مول لے کر جاتے ہیں، دن کے اجالے میں ہمیں نفرت و حقارت سے دیکھتے ہیں ۔۔۔ ہم کھلے بندوں اپنا جسم بیچتی ہیں اور اس کو راز بنا کر نہیں رکھتیں۔ وہ ہمارے پاس یہ جنس خریدنے کیلئے آتے ہیں اور اس سودے کو راز بنا کر رکھتے ہیں ۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کیوں؟‘‘

ذرا اس ویشیا کا تصور کیجئے جس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہ ہو۔ نہ بھائی نہ بہن نہ ماں نہ باپ اور نہ کوئی دوست۔ اپنے گاہکوں سے فراغت پا کر جب وہ کمرے میں اکیلی بالکل اکیلی رہ جاتی ہوگی تو اس کے دل و دماغ کی کیا کیفیت ہوگی ؟ ۔۔۔ یہ تاریکی اس اندھیرے میں اور کتنی تاریک ہو جاتی ہوگی۔

اگر سارا دن ٹوکری ڈھونے کے بعد مزدور کو اپنی تھکان دور کرنے کا کوئی ذریعہ نظر نہ آئے، اپنی دل بستگی کیلئے بیوی کی باتیں اسے نصیب نہ ہوں، نہ اس کی ماں ہو جو اس کے تھکے ہوئے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی تمام تکلیفیں دور کر دے تو بتایئے اس مزدور کی کیا حالت ہوگی؟

اس مزدور اور اس ویشیا دونوں کی حالت ایک جیسی ہے۔ویشیا ایک رنگین شے نظر آتی ہے ۔۔۔ کیوں ؟

اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں اپنا دل ٹٹولنا پڑے گا یہ کمزوری ہم مردوں کی نگاہوں کی ہے اور اس کمزوری کے اسباب تلاش کرنے کیلئے ہمیں اپنے آپ ہی سے بات چیت کرنا پڑے گی۔ اس بارے میں غوروفکر کے بعد ہم جو معلوم کر سکے ہیں یہ ہے۔

ویشیا کا نام لیتے وقت ہمارے دماغ میں ایک ایسی عورت کا تصور پیدا ہوتا ہے، جو مرد کی شہوانی خواہشات اس کی مرضی اور ضرورت کے مطابق پوری کر سکتی ہے، گو عورت اور ویشیا پن دو بالکل جدا چیزیں ہیں مگر جب ہم کسی ویشیا کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں تو اس وقت عورت مع اپنے پیشے کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان پر اس کے ماحول اور اس کے پیشے کا بہت اثر ہوتا ہے، مگر کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے جب وہ ان تمام چیزوں سے الگ ہٹ کر صرف انسان ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی ایسا وقت بھی ضرور آتا ہوگا جب ویشیا اپنے پیشے کا لباس اتار کر صرف عورت رہ جاتی ہو گی مگر افسوس ہے کہ ہم ہر وقت عورت اور ویشیا کو ایک ہی جگہ دیکھنے کے عادی ہیں۔

جب ویشیا کو ہم اس عینک سے دیکھیں تو ہمیں اس کے ساتھ ہی وہ چیز بھی نظر آتی ہے جسے ہم مرد عیش و عشرت سے تعبیر کرتے ہیں اور عیش و عشرت کا مطلب عام طور پر جسمانی لذت ہوتا ہے۔

جسمانی لذت کیا ہے؟

ایک وقتی حظ جو ہمیں اپنی بیوی یا کسی اور عورت کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویاں چھوڑ کر اس وقتی لذت کیلئے بازاری عورتوں کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ جب ان لوگوں کی جسمانی خواہشات گھر میں پوری ہو سکتی ہیں تو وہ اس کیلئے باہر کیوں مارے مارے پھرتے ہیں؟

اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ آپ کو ایسے کئی آدمی نظر آئیں گے جو گھر کے مرغن اور لذیذ کھانے چھوڑ کر ہوٹلوں میں جاتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو ہوٹلوں کے کھانے کی چاٹ پڑ جاتی ہے۔ ہوٹل کی چیزوں میں غذائیت کم ہوتی ہے مگر ان میں ایک اور شے ہوتی ہے جو ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اسے ہم ’’ہوٹلیت‘‘ کہہ سکتے ہیں، ایک ایسی برائی جو وصف بن جاتی ہے بلکہ یوں کہیئے کہ ایک کشش بن جاتی ہے۔ اس میں ہوٹل کے مالکوں کے فن کا دخل بھی ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ جو ماحول ہوٹل میں میسر آ سکتا ہے، انہیں اپنے گھر میں نصیب نہیں ہو سکتا۔ انسان طبعاً تنوع پسند ہے، ا سلیئے جب وہ اپنے روزمرہ کے پروگرام میں تبدیلی چاہے تو تعجب نہ ہونا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہوٹلوں میں ان لوگوں کو اچھا کھانا نہیں مل سکتا اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہاں گھر کی بہ نسبت زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے مگر یہی چیز تو یہ لوگ چاہتے ہیں۔ یہی فرق تو انہیں گھر سے کھینچ کر ہوٹلوں میں لاتا ہے۔ یہ نادانی ہے مگر لطف یہ ہے کہ انہیں اسی نادانی ہی میں تو مزا آتا ہے۔

ان شادی شدہ مردوں کا بھی یہی حال ہے جو اپنی بیویاں چھوڑ کر بازاری عورتوں کی آغوش میں لذت تلاش کرنے آتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آیا ان لوگوں کو اس تلاش میں کامیابی ہوتی ہے؟ ۔۔۔ ہم کہیں گے یقیناً ۔۔۔ جن عورتوں کے پاس یہ لوگ جاتے ہیں اس فن کی ماہر ہوتی ہیں۔ وہ یہی چیز تو بیچتی ہیں۔ ان کا پیشہ ہی یہ ہے کہ گھریلو عورتوں سے بالکل مختلف رنگ کی لذت پیش کریں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا کاروبار کیسے چل سکتا ہے؟

جیساکہ ہم اس مقالے کے آغاز میں کہہ چکے ہیں۔ عصمت فروشی خلاف عقل چیز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).