فریال تالپور کے بغض میں۔۔۔


فریال تالپور پاکستان پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی مرکزی صدر، سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی منتخب رکن ہیں۔

اکثر کچھ سیاسی مخالفین، ناقدین اور چند نام نہاد تجزیہ کار فریال تالپور کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں شہید بینظیر بھٹو جب پارٹی چیئرپرسن تھی اس وقت فریال تالپور کہاں تھی تو کوئی کہتا ہے کہ فریال تالپور کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے پنجاب اور کے پی سے تعلق رکھنے والے رہنما پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ میں ان نام نہاد تجزیہ کاروں کو بتانا چاہتا ہوں جو بغض فریال تالپور میں اندھے ہوچکے ہیں کہ آج سے 20 سال قبل 1997 میں پیپلزپارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو نے خود فریال تالپور کو جنرل الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دیا۔ 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں فریال تالپور ضلع نوابشاہ کی ناظمہ منتخب ہوئیں اور 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں عوام نے پھر فریال تالپور پر اعتماد کا اظہار کیا اور وہ دوسری مرتبہ ناظمہ منتخب ہوئیں۔

فریال تالپور کا شمار شہید بینظیر بھٹو کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ 2007 کے صدارتی انتخابات میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جن دو سیاسی رفقاء کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا ان میں مخدوم امین فہیم اور فریال تالپور شامل تھیں. فریال تالپور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شہید بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی انہیں بلاول، بختاور اور آصفہ کا نگران مقرر کیا۔ اب بھی فریال تالپور شہید بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے بچوں کی قانونی نگران ہیں۔

جس وقت پارٹی پر کڑا وقت تھا اور سب شہید بی بی کا ساتھ چھوڑ کر جا رہے تھے اور مرد حر آصف علی زرداری اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے تھے اس وقت محترمہ فریال تالپور نے آصف علی زرداری رہائی کمیٹی بنوا کر آصف علی زرداری کی رہائی کے لئے تحریک کا آغاز کیا۔ فریال تالپور نے ہر دور میں پارٹی کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے جو مخالفین کو نظر نہیں آتا۔ فریال تالپور کا میڈیا ٹرائل آج سے نہیں گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2010 میں میڈیا نے فریال تالپور کی ایم اے کی ڈگری کو جعلی قرار دے کر خوب شور مچایا تھا مگر سندھ یونیورسٹی نے ڈگری کے اصل ہونے کی تصدیق کی۔ جعلی ڈگری کا الزام ہو یا عزیر بلوچ کا معاملہ اور ناجانے کتنے ان گنت الزامات ہیں جو فریال تالپور پر لگتے رہے ہیں مگر اس عظیم عورت نے کبھی بھی اپنے مخالفین اور ناقدین کو جواب تک نہیں دیا۔ فریال تالپور پیپلزپارٹی کی انتہائی متحرک سیاسی رہنما ہیں جن کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی کہ وہ کارکنان سے ملاقات کریں۔ اکثر انہیں کارکنان کے مسائل سنتے اور حل کرتے دیکھا جاتا ہے مگر انہوں نے کبھی بھی اپنی ذاتی تشہیر پر توجہ نہیں دی۔ 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کی وفاق میں حکومت رہی اور 2013 سے اب تک سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے مگر فریال تالپور نے کبھی کسی سرکاری عہدے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ وہ چاہتیں تو بڑے سے بڑے سرکاری منصب پر فائز ہوسکتی تھیں مگر فریال تالپور کے نزدیک پیپلزپارٹی کا کارکن ہونا ہی سب سے بڑا منصب ہے۔

بغض فریال تالپور کا شکار ناقدین الزام لگاتے ہیں کہ فریال تالپور کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پیپلزپارٹی 2013 کے عام انتخابات میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں مشکلات کا شکار ہوئی اور وہاں کے مقامی رہنما فریال تالپور کی وجہ سے پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہیں میں ان نام نہاد تجزیہ کاروں کو یاد دلانا چاہوں گا کہ 1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں انتخابات میں حصہ لیا اور صرف 18 سیٹیں حاصل کی۔

تاریخ کو ایک مرتبہ پھر 2013 کے انتخابات میں دہرانے کی کوشش کی گئی جب سامراجی قوتوں اور ضیاء کی باقیات نے پیپلزپارٹی کو کچلنے کی پوری کوشش کی یہاں تک کہ طالبان نے پیپلزپارٹی کے جلسوں، دفاتر اور کارنر میٹنگز پر حملے شروع کردیئے اور الیکشن مہم کے دوران ملتان سے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو اغوا کر لیا گیا جو خود بھی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر امیدوار تھے اور بالآخر ضیاء کے لاڈلے نوازشریف کو اقتدار سونپ دیا گیا۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد ان قوتوں کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ پیپلزپارٹی کو صرف سندھ تک محدود رکھا جائے مگر فریال تالپور نے کراچی سے کشمیر تک پارٹی پرچم کو بلند رکھا اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر پارٹی کو مضبوط کیا۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی نے گلگت اور کراچی میں ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابیاں حاصل کی جس کی جیت کا سہرا فریال تالپور کے سر جاتا ہے اور ان کی کاوشوں اور کوششوں کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ملک بھر سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).