مقبول فقرات اور فقرہ فروشی


وطنِ عزیز میں کچھ فقرات بہت مقبول ہیں۔ مقبول سے مراد یہ ہے کہ وہ بڑی سرعت سے دل کو لبھاتے ہیں۔ اسی لئے وہ زیادہ تر مجلسوں اور تقاریر کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ ایسے فقرے چونکہ مصالحے دار اور چٹخارے دار ہوتے ہیں اسی لئے شاید وہ ہماری سماعتوں کو لذیز لگتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے فقروں کو ادا کرنے کے لئے کوئی بہت زیادہ محنتِ شاقہ درکار نہیں رہتی کیونکہ یہ عمومی انسانی زندگی کے عمومی پہلوؤں سے متعلق ہوتے ہیں اور انسانی زندگی کسی بھی حال میں کبھی بھی سیر شُدہ نہیں ہوتی بلکہ ہر سطح اور ہر نوع کے انسانوں کے کچھ نہ کچھ مسائل ہمیشہ باقی رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ خواب ادھورے لہذا بادی النظر میں ایسے فقرے اُس ادھورے پن کی تشفی کے لئے وقتی دوا کا کام کرے ہیں۔ یہ بھی شاید اِن فقروں کے دِل لُبھا فقرے ہونے کی وجہ رہی ہوگی۔ ایسے فقرے کسی گہرے فکر یا تدبر کا تقاضہ نہیں کرتے اور ویسے بھی ہمارے ہاں یہ گہرے فکر کا تصور کچھ بہت توانا ہو بھی نہیں پایا۔

ایسے فقرے اور تقاریر یا تحاریر کا ایک بڑا مضبوط پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کسی لمبی چوڑی تحقیق یا منطقی فہم وغیرہ کا تقاضہ نہیں کرتے بلکہ وہی بولا اور لکھا جاتا ہے جو سامعین سُننا اور قارئین پڑھنا چاہتے ہیں۔ گویا لوہا پہلے ہی گرم ہے اورآپ نے صرف ضرب لگانی ہے اور واہ واہ بٹور کر نکل لینا ہے۔ تو گویا یوں آپ آسانی سے مشہور اور مقبول ہو سکتے ہیں۔ ویسے آسانی سے مشہور ہونے کے حوالے سے ظفر گورکھپوری کا ایک مشہورِ زمانہ شعر یاد آگیا ہے۔

کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو
میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر

اس شعر میں بیان کردہ نسخہ بھی مقبول بننے میں کام آسکتا ہے۔ بلکہ ہمارے ہاں آج کل اسی نسخے پر زیادہ عمل پیرائی دکھائی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تجزیوں اور تبصروں سے لے کر سیاسی مکالموں تک گالی ایک لازمی جزو کا درجہ اختیار کرتی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بہادری اور دلیری کے حوالے سے بھی ایک نئے پیمانے کے طور پر متعارف ہو چکی ہے اور اس کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ تحقیق اور دلیل یا منطق وغیرہ کے جوکھم میں نہیں پڑنا پڑتا۔

فقرہ باز انتہائی نبض شناس واقع ہوا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے سامع کیا سننا چاہتے ہیں اور وہ کونسے الفاظ، تراکیب یا فقرات ہیں جو سنتے ہی نہ صرف سامعین کی آنکھیں چمک سکتی ہیں بلکہ ہوسکتا کہ کمر کے بال کھڑے ہونے جیسی دیگر علامات بھی ظاہر ہو جائیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی دست شناس کے پاس جائیں تو وہ کچھ ایسی گفتگو فرمائے گا کہ آپ تسلیم کیے بغیر رہ نہیں پائیں گے مثلاً ’’ آپ ہاتھ آگے کی طرف مارتے ہو مگر جاتا پیچھے کی طرف ہے ‘‘ یعنی تم مالی خوشحالی کی کوشش کرتے ہو مگر بات بنتی نہیں ہے۔ اور پھر ہوسکتا کہ آپ کو بہت ہی بے بس اور لاچار اور قسمت کا مارا ہوا شخص ثابت کرنے کے بعد بابا جی یہ فرمائیں کہ سات دن چڑیوں کو دانہ ڈالو اور فلاں فلاں وِرد کرو تو سب ٹھیک ہو جائے گا یعنی پھر اگر تم ہاتھ آگے کی طرف مارو گے تو وہ آگے کی طرف ہی جائے گا۔ بھئی جہاں تک رہی چڑیوں کو دانہ ڈالنے کی بات تو وہ تو ویسے ہی فطرت کا تقاضہ ہے اور اچھی بات ہے لیکن چڑیوں کو دانہ ڈال آنے سے آپ کی معاشی صورت ِحال کیسے بدل سکتی ہے؟

کسی بھی دور اور کسی بھی معاشرے میں مالی مسائل سے بچنے کے لئے کچھ اصول اور مہارتیں ہیں مثلاً یہ کہ آپ کام کتنی سنجیدگی اور کتنے وقت کے لئے کرتے ہیں؟ آپ اخراجات اور آمدن کے درمیانی تعلق سے واقف ہیں یا نہیں؟ آپ بجٹ سازی کی مہارت رکھتے ہیں یا نہیں؟ کیا آپ کے خاندان کا سائز آپ کی آمدن سے میل کھاتا ہے یا نہیں؟ آپ فضول خرچیوں سے باز رہنے میں ثابت قدم ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر وہ دست شناس گاہک سے یہ کہہ دے کہ ’’ اگر کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو ‘‘ تو فیس نہ مِلنے کی صورت میں اُس کا اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف جا سکتا ہے۔ پس اِن انتہائی خُشک مضامین کی جگہ چڑیوں کو دانہ ڈالنا مقبول ِنظر اور مختصر ترین راستہ ٹھہرتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس سے چڑیوں کا بھلا تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن معاشی حالات بالآخر اُسی دن بدلنا ہیں جب متعلقہ حقائق کا سامنا کیا جائے گا۔

یہ وہ معاملہ ہے جو در اصل انسانی نفسیات سے متعلق ہے کیونکہ اگر سنجیدگی سے مشاہدہ کریں تو صرف معاشی ہی نہیں دیگر پہلوؤں کے حوالے سے بھی انسانوں کی غالب اکثریت حال سے نالاں رہتی ہے اور اس کے حل کے طور پر ماضی میں زندہ رہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوشش بھی ہمارے ہاں انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح تک دیکھی جاسکتی ہے۔

پھر ایسے درجنوں فقرے گنوائے جا سکتے ہیں جو ہر دست شناس ہر گاہک سے بولتا ہے اور ہر گاہک اسے آخری سچائی کے طور پر ہی مانتا ہے۔ اس کے بر عکس کچھ سنجیدہ فقرے اور تحاریر ہوتی ہیں جو کہ ذائقے کے اعتبار سے ہمیں بالکل غیر مُلکی کھانوں جیسی لگتی ہیں کیونکہ وہ ہمارے ذوق اور ذائقے سے متصادم ہوتے ہیں لہذا وہ ہمارے روایتی سواد کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور غیر مقبول قرار پاتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح آج کل بھی ہمارے ہاں کچھ مقبول فقروں کا بازار گرم ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے کچھ انتہائی سینئر اور بزرگ دانشور بھی اسی شغل میں مصروف نظر ٓ رہے ہیں۔ ایسے تمام فقروں کا احاطہ تو خیر ایک مضمون میں نہیں ہو سکتا لہذا دیگ میں سے ایک دو دانے چکھتے ہیں۔ ہر عوامی حکومت کے دور میں سب سے زیادہ گونجنے والے مقبول ترین فقرے ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ یہ کوئی جمہوریت ہے؟ ایسی ہوتی ہے جمہوریت؟ یہ تو صرف لوٹ مار ہے۔ بدمعاشی ہے۔ خاندانی تسلط ہے۔ مکروہ نظام ہے۔ بد عنوانی اور کرپشن کی فیکٹری ہے۔ جھوٹوں کی منڈی ہے۔ دیا کیا ہے اِس جمہوریت نے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘ لیکن اگر آپ سوال کردیں کہ حضور پھر آپ متبادل کے طور پر کیا تجویز کرتے ہیں تو جواب ملنے کا ا مکان شاید صفر ہو یا پھر یورپ اور دیگر مضبوط جمہوری ملکوں کی چند مثالیں اور قصہ ختم۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ایسی گفتگو پر نہ صرف واہ واہ کرتے رہ جائیں بلکہ اسے علم و دانش اور تجزیہ بھی قرار دیں۔

یہاں بھی دست شناس بابے کی طرح خشک مضامین سے گریز کیا جاتا ہے ورنہ ہاتھ پیچھے کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ یہ حقائق بالکل گفتگو کا حصہ نہیں ہوں گے کہ جمہوریت بھی بالکل انسان کے بچے کی طرح ہوتی ہے۔ یہ پیدا ہوتے ہی چھلانگیں نہیں مارنے لگتی۔ بلکہ یہ سو فیصد فطری اصول کے مطابق پروان چڑھتی ہے۔ جس طرح کوئی بھی درخت جنم لیتے ہی پھل نہیں دیتا بلکہ ایک طویل وقت تک نگہداشت اور خوراک کا تقاضہ کرتا ہے۔ جیسے کوئی بھی جوان کمیشنڈ آفیسر بھرتی ہونے کے ساتھ ہی جنرل نہیں بن جاتا بلکہ ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ کم سے کم یہاں جمہوریت کو اتنا وقت تو دیاجائے جتنا بھرتی ہونے سے جنرل تک درکار ہے۔ یہاں تو جمہوریت نامی اس بچے کو پیدا ہوتے ہی مارنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ یا پھر سال دو سال کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر پانچ سال تک اسے خوف کے جھولے میں زندہ رکھا جاتا ہے۔

دوئم۔ یہ بات ہرگز گفتگو کا حصہ نہیں بن سکے گی کہ جمہوریت کی بنیادی شرط سول بالادستی ہے۔ سول بالادستی کے بغیر جمہوریت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی پودا لگانے کے لئے مٹی کا موجود ہونا اوّلیں شرط ہے کیونکہ آپ ہوا میں پودا نہیں لگا سکتے۔ لیکن یہاں اوّلیں شرط پوریکیے بغیر ہی ہم پودا بھی اگانا چاہ رہے ہوتے ہیں اور پھر اُس پودے کو پھلدار نہ ہونے پر طعنے اور گالیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ اب سول بالا دستی کسی کے لینے یا دینے کی شے تو ہے نہیں یہ تو قائم ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی۔

جہاں تک رہی موروثیت کی بات تو ہمارے پڑوس میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں نہرو اور شیخ مجیب کے ورثا آج بھی بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہیں لیکن وہاں شاید شعور ابھی اُس معراج پر نہیں پہنچا کہ وہاں کوئی آمر نمودار ہو اور قوم کو صحیح راستہ دکھا کر ہر طرف نور ہی نور پھیلا دے۔ مگر اس بات کی حیرانی بہر حال ضرور ہے کہ اس بے شعوری کے ساتھ اور پچھلے دروازے سے آنے والے رہنماؤں کے بغیر ہی دونوں ممالک اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہم سے کئی قدم آگے کیسے کھڑے ہیں۔

سوئم۔ یہ بات کبھی بھی فقرہ فروشوں کی گفتگو کا حصہ نہیں بن سکے گی کہ جب جمہوریت کی اوّلیں شرط یعنی سول بالادستی قائم ہوجائے اور جمہوریت خوف کے جھولے سے باہر آکر پھلے پھولے تو یہ خود اپنے آپ میں ایسا میکینزم ہے جو چھلنی کی طرح سے کام کرتا ہے جو یا تو بھوسے کو گیہوں سے علیحدہ کرتی ہے یا پھر اُس بھوسے کو خود کو گیہوں ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اِس کی تازہ ترین مثال زرداری صاحب کے زیرِ انتظام پیپلز پارٹی کی شکل میں موجود ہے۔ وہ پارٹی جو کبھی وفاق کی علامت تھی اب دیہی سندھ تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔

جہاں تک رہی یورپ اور امریکہ کی مثالیں تو جناب اِس ضمن میں یہی عرض ہے کہ انہوں نے چڑیوں کو دانہ ڈالنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ صدیوں تک اس جمہوریت کے لئے جدوجہد کی اور سینکڑوں تجربات سے گزر کر آج اس جگہ تک پہنچے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ یہ واحد ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں ایک عام شہری کو بالادستی حاصل ہے۔

پھر جب سے پانامہ کا موسم شروع ہوا ہے تو پورے زور شورسے کچھ فقرے گونج رہے ہیں۔ مثلاً ’’ چور پکڑا گیا ہے بس اب اس کونشانِ عبرت بنا دو پھر دیکھو ملک کیسے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ بھئی وزیرِ اعظم کو گھر بھیجنے یا لعنت ملامت کرنے سے جمہوریت کو کیا خطرہ ہے؟ جمہوریت چلتی رہے گی۔ عدالت نے گاڈ فادر اور سسیلئین مافیہ قرار دیا ہے۔ یہ االلہ تعالیٰ نے از خود نوٹس لیا ہے۔ ۔ یہ االلہ کی پکڑ ہے۔ سازش کون کر رہا ہے؟ اگر کوئی کر رہا ہے تو نام بتائیں۔ وغیرہ وغیرہ ‘‘

اب ہم ٹھہرے سادہ اور ایمان و تقوے کی بنیاد پر معاملات کو سمجھنے والے لہذا ہمیں االلہ کی پکڑ اور چوروں کو نشانِ عبرت بنا دینے والے فقرے بہت لبھاتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ یہ سہولت صرف جمہوریت ہی میں موجود ہے کہ آپ کروڑوں لوگوں کی حمایت سے آنے والے وزیرِ اعظم کو براہِ راست ٹی وی نشریات میں بیٹھ کر اور تقاریر میں اور تحاریر میں بغیر سوچے گالیاں دے سکتے ہیں اور جیسی چاہیں بیہودہ زبان استعمال کرسکتے ہیں۔ کسی آمر کے تو بوٹوں کی چاپ ہی سے آپ کی روح الحفیظ الامان کا ورد کرنے لگتی ہے۔ اُس کے بارے میں تو جب تک وہ بر طرف نہ ہوجائے آپ دس بار سوچ کر بھی ایک بار بولنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ پھر ہمارے علم میں اضافے کے لئے یہ ہی بتا دیں کہ عدالتی فیصلے اختلافی نوٹ سے کب سے شروع ہونے لگے؟ یا عدالتی فیصلے ناولوں کی زبان میں کب سے لکھے جانے گے؟ کیا یہ مدعا علیہ کے مخالفوں کو بطور ہتھیار تحفہ کا درجہ نہیں رکھتے؟

جہاں تک رہی االلہ کی پکڑ کی بات تو جناب اگر ہم خود متعصب ہوئے بیٹھے ہیں تو اِس میں االلہ پاک کو تو شامل نہ فرمائیں۔ ہمارے ہاں کون کتنے پانی میں ہے اور کون مالی یا اختیاراتی یا پیشہ ورانہ حتیٰ کہ دانشورانہ بد دیانتی سے کس قدر مبرا ہے سب جانتے ہیں پھر االلہ کی پکڑ اتنی جانبدار کیوں؟ حضور یہ جس کی پکڑ ہے وہ آنکھ والے دیکھ رہے ہیں۔

جہاں تک رہی سازش کی بات اور یہ تقاضہ کہ سازش ہے تو بتائیں۔ جناب والہ! اگر توجہ فرمائیں تو تصویر لیک کیس میں مجرم کا پتہ بھی چل گیا، نوٹس بھی لے لیا گیا اور اُسے اُس کے ادارے میں واپس بھیج بھی دیا گیا لیکن جو عدالتِ عظمیٰ اُس نچلے درجہ کے منصب پر فائز ملازم کا یا اُس کے ادارے کا نام لینے سے تو گریزاں ہے وہی اس ملک کے وزیرِ اعظم کو بلا جھجھک گاڈ فادر کہہ سکتی ہے۔ حقائق سے ملیں صاحب کہ جو معزز عدالتِ عظمیٰ اتنی دلیر ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کو گاڈ فادر کا لقب دے دے مگر وہ اُس ملازم یا ادارے کا نام لینے میں یہ دلیری نہیں دکھا سکتی۔ کیوں؟ اور اگر اتنی آزاد اور دلیر عدالت یہ کام نہیں کر سکتی تو پھر وزیرِ اعظم سے آ پ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟

سازش کو چھوڑئیے کیونکہ ہمارے ہاں یہ برسوں بعد ہی سامنے آنے کی روایت ہے۔ اور ہم ہمیشہ حال میں بیٹھ کر ماضی میں غلط فیصلوں پر کڑی تنقید کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ وہ میمو گیٹ جس کے نتیجے میں لعنت ملامت اٹھانے والے گیلانی صاحب تو فوراً ملتان پہنچ گئے تھے اُس کا کیا فیصلہ آیا ہے اور کتنے پیسے پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں۔

بشمول مہذب ممالک کے پوری دنیا میں ہزاروں نام پانامہ کے اخبار میں چھپے مگر پوری دنیا میں صرف ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے اسے اپنی سب سے بڑی عدالت کی زینت بنایا اور وہ بھی اُس شخص کو جس کا نام پانامہ کے اخبار نے چھاپنا ضروری ہی نہ سمجھاتھا۔ اور طریقہ بھی ایسا کہ سبحان االلہ۔ ایک درخواست جسے فضول قرار دیا گیا پھرغیب سے ہدایت ملی کہ اسے نہ صرف سماعت فرمایا جائے بلکہ ماحول کو اس قدر گرما دیا جائے کہ اس کی تپش آسمان چھونے لگے۔ لہذا عدالت کے باہر عدالت پر کسی قسم کی پابندی کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا جائے۔ پھر اس کے بعد چابی والے کھلونے خود ہی ایک دوسرے کو انتہائی نا قالِ اعتبار ثابت کرلیں گے اور یوں پچھلے دروازے پر کُنڈی لگنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

فقرہ فروشوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ اگرچہ ہم ان لذیذ فقروں سے اب کافی حد تک فکری السر کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اب ہمارے کان اِن آوازوں کو سمجھتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).