فاٹا اور پختونخوا کی واحد فوٹو جرنلسٹ خاتون صحافی سبا رحمان


سبا رحمان مومند ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور اور اس وقت پورے فاٹا اور صوبہ خیبر پختنخواہ سے وہ واحد ایک لڑکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جو کہ فوٹو جرنلزم جیسے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اپنی یہ تعلیم نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کواٹر واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں ماہر فوٹو جرنلسٹ سے حاصل کی۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہر فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ دونوں جگہوں پر کام بھی کیا۔

انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اوراپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز لندن کے ریڈیو بی بی سی اردو سے کیا۔ وہ آج کل بھی بی بی سی اردو، ٹی آر ٹی ورلڈ اور کہیں دوسرے آن لائین انگریزی اور اردو نیوز ویب سائیٹس کے لیے فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پہ کام کرتی ہیں اور ایک یونیورسٹی میں فوٹو جرنلزم کی تعلیم بھی دیتی ہیں۔ سبا اب ‘ہم سب’ کے لئے بھی مضامین لکھا کریں گی اور ہمیں فاٹا کے بارے میں جاننے کا موقع فراہم کریں گی۔


کبھی کبھی کچھ ایسی اندر کی باتیں ہوتی ہیں جنہیں کہنے کی بجائے لکھنے کو دل کرتاھے۔ پاکستان کے مخصوص علاقوں میں عام لوگوں یا کہہ لیں کہ کچھ خاص والدین کا یہ ذہن بن چکا ہے کہ بیٹی یا تو ڈاکٹر بنے گی یا پھر سکول میں استانی۔ اور کچھ خاص شعبوں میں جانا تو جیسے کوئی جرم کرنے جیسا ہوتا ہے جیسے کہ میڈیا اور شعبہ صحافت میں جانا۔ اور سونے پہ سہاگہ تب ہوتا ہے جب لڑکی کا تعلق پٹھان گھرانے سے ہو اور بھی خاص قبائلی۔ میرا تعلق ذاتی طور پر فاٹا سے ہے اور اس وقت میں پورے فاٹا سے ایک واحد لڑکی فوٹوجرنلسٹ ہوں بلکہ یوں کہہ لیں کہ میں نے 2012 سے آج تک خیبر پختون خواہ کی بھی کوئی لڑکی فوٹوجرنلسٹ نہیں دیکھی۔

فوٹوجرنلزم پاکستان صحافت ایک ابھرتا ہوا پہلو ہے جیسے آتے آتے ابھی وقت لگے گا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں جب کسی کو بتاتی تھی کہ میں فاٹا سے ہوں تو لوگ گھور کے پوچھتے تھے کیا والدین نے اپنی مرضی سے یہ پڑھنے کی اجازت دی جب میرا جواب ہاں میں ہوتا تو دوسرا سوال ہوتا، چلو کوئی نہیں بی بی ڈگری کی حد تک اچھا ہے۔ اور آج سات سال شعبہ صحافت میں رہتے ہوئے جب میں ایک فوٹوجرنلسٹ کی حیثیت سے کیمرا لے کر کسی ادارے کے لیے کام کرنے نکلتی ہوں تو ہمیشہ پہلا سوال آتا ہے؟

بی بی ہم نے تو کبھی فوٹوجرنلزم کے بارے میں نہیں سنا آپ نے یہ تعلیم کہاں سے اور کیسے حاصل کر لی؟ پھر میرا جواب ہوتا ہے میں نے یہ تعلیم ”امریکہ میں نیشنل جیوگرافک“ سے حاصل کی۔ پھر سوال آتا ہے کہ عام ریڈیو ٹی وی کی صحافت اور فوٹوجرنلزم میں فرق کیا ہے تو میں بتاتی ہوں کہ ”جی سر دیکھیں آسان سی بات ہے وہ لوگ زبان سے ادا کیے ہوئے لفظوں سے کھیلتے ہیں اور میں اپنی تصویروں سے اپنا پیغام پہنچاتی ہوں“

اندر کی باتیں سوچتے ہوئے ذہن میں سوال یہ آتا ہے کہ کیا فاٹا کی لڑکی یا کوئی بھی لڑکی کا فوٹوجرنلسٹ ہونا کیا واقعی اتنا حیران کن ہے یا پاکستان ابھی اس ترقی یافتہ دور میں داخل نہیں ہوا کیونکہ اس کے برعکس امریکہ میں کام کرتے وقت کبھی کسی کو ایک لڑکی فوٹوجرنلسٹ سے ملنے پر اتنا حیران کن نہیں پایا۔ یہ سب اندر کی باتیں ہیں اور اس کو گھر کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ہی حل کر سکتے ہیں جیسا کہ پڑھے لکھے والدین ہی بیٹیوں کو فوٹوجرنلسٹ بنا سکتے ہیں۔ لیکن خود سوچیں کہ کیا صرف پڑھے ہوئے والدین ہی کافی ہیں یا پھر معاشرہ بھی ذمہ دار ہے؟ ذرا سوچیں؟

 

سبا رحمان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سبا رحمان

سبا رحمان مومند ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور اور اس وقت پورے فاٹا اور صوبہ خیبر پختنخواہ سے وہ واحد ایک لڑکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جو کہ فوٹو جرنلزم جیسے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اپنی یہ تعلیم نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کواٹر واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں ماہر فوٹو جرنلسٹ سے حاصل کی۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہر فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ دونوں جگہوں پر کام بھی کیا۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اوراپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز لندن کے ریڈیو بی بی سی اردو سے کیا۔ وہ آج کل بھی بی بی سی اردو، ٹی آر ٹی ورلڈ اور عرب نیوز کے لیے فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پہ کام کرتی ۔

saba-rahman-momand has 5 posts and counting.See all posts by saba-rahman-momand