بچپن کی یتیمی، جوانی کی غریبی، بڑھاپے کا عشق


بے شک انسانی زندگی خداوند تعالٰی کی ایک بے بہا نعمت ہے۔ احسن اور افضل تو یہی ہے کہ اسے اُسکی رضا اور احکام کے مطابق بسر کیا جائے۔ مگر اس سے جڑے ہوئے حادثات، واقعات اور ادوار کی اشکال فرداَ فرداَ مختلف ہوتی ہیں۔ لہذا اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق بسر کرنا انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ مشیت ہی کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ قنوطیت یا خوش مزاجی بھی شاید اسکے خمیر کا حصہ ہوتی ہے بلاوجہ تو وہ اسکا اثر نہیں لیتا۔

بچپن – اسکا پہلا حصہ ۔ میرے خیال میں اگر آسودگی سے مزین ہو تو باقی زندگی میں اس کی یادیں انسان کو سکون دیتی ہیں اور اگر یہ دور، تنگدستی {اور وہ بھی بوجہ یتیمی} ہو تو اس کے اثرات اس کی تمام زندگی میں پیوست نظر آتے ہیں۔ حتی کہ بڑھاپے کی بھی کوئی راحت، انسان کو لطف اندوز نہیں ہونے دیتی۔ یتیمی ایک ایسی محرومی ہے جس کے اثرات انسان کی تمام زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تمام عمر عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ حتی کہ جوانی اور بڑھاپا بھی ان میں وہ خود اعتمادی اور قوت فیصلہ نہیں پیدا کرتا اور بے چارگی اور تشنگی ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔

اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ وقت کی یہی عادت اچھی ہے کہ گزر جاتا ہے۔ اور وقتی طور پر ان مشکلات اور محرومیوں کو مذکورہ شخص خاطر میں نہیں لاتا۔ بچپن میں ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ سوچ بھی انتہائی محدود ہوتی ہے۔ درگذر کے معنی سے ناآشنا ہونے کے باوجود، بچپن درگذر کئے جاتا ہے۔ حادثات کی اذیت اتنی جان لیوا نہیں ہوتی۔ سب اچھا لگنا کا سماں ہوتا ہے۔ محرومیاں وقتی طور پر بے ضرر ہو کر دل و دماغ کے نہاں خانوں میں خاموشی سے جاگزین ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ دھیان میں نہیں پڑتا اور بے خیالی میں بچپن کی پگڈنڈیاں، جوانی کی شاہراہوں سے جا ملتی ہیں۔

اب جوانی کے اپنے تقاضے، امنگیں اور جذبے ہیں۔۔۔ جن میں مگن انسان کو انتہائی تکلیف دہ لمحے بھی سہانے لگتے ہیں۔ ہر چیز اچھی لگتی ہے۔ انسان، اپنی لگن میں کھو کر، ہر چیز کو اپنے سے کمتر جانتے ہوئے، جوانی کے منہ زور گھوڑے پر سوار، اندیشوں، خدشوں اور بے جا خوف سے بے نیاز، اس وقت کو ہی دائمی خیال کرتا ہے۔ مگر کیا کیجئے، مالی اور معاشی تنگی اس دور کو بھی زہر آلود کر دیتی ہے۔ جوانی کے دور کی ست رنگیاں بھلا کب تک غربت کے سو۱ نیزے سورج کا سامنا کر سکتی ہیں۔۔۔سو صاف لگتا ہے کہ بچپن سے سیدھا بڑھاپے میں قدم رکھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں غریب کی جوانی اور جاڑے کی چاندنی کو کون دیکھتا ہے۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہیں۔ چند کیفیات ہیں۔ جن کو مجھ سے بے ہنر آدمی کیلئے قلم بند کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بے شک جوانی کا جوش، نامساعد حالات کی شدت کو محسوس نہیں ہونے دیتا، ۔ بے فکری، بے خیالی، کوتاہیاں حتی کہ نا مرادیاں بھی کسی پل، قدموں سے نہیں لپٹتیں۔۔نہ اندیشے، اس جواں مرد کی بصارت دھندھلاتے ہیں اور نہ بچپن کی کسمپرسیاں، جوانی کا خمار ہو نے دیتی ہیں۔ تھکن، گھبراہٹ، خوف کے تریاق کی صورت، ترنگ ، جوش اور ہمت اسے کسی طورپس پا نہیں ہونے دیتے۔

اور زندگی کا سب سے آخری دور بڑھاپا۔ جسکے بارے میں تارڑ صاحب نے کہا ہے۔ بڑھاپا عمر کا وہ خوبصورت محل ہے جسکی ہر کھڑکی ماضی کے باغیچے میں کھلتی ہے۔ محبت ایک فطری جذبہ ہے اور پھر جن لوگوں کے خمیر میں محبت ہو تو یہ عمر کے کیلنڈر پہ کب نطر کرتی ہے۔ جذبات کی واردات، شام ڈھلے بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ لیکن بڑھاپے کا عشق کبھی بھی جوانی کے عشق کی مانند، ہمہ وقتی نہیں ہوتا بلکہ یہ تو کے ٹی کے کپڑے کی مانند ٪65 کاٹن + ٪35 پولیسٹر کا مجموعہ ہوتا ہے۔

بڑھاپا، جوانی کی کیفیات سے، غریبی سے جڑے کانٹے آپکے ذہن و فکر میں پیوست کرتا ہے، اور دل جس کو بوڑھا نہ کرنے کا عزم آپ کرتے ہیں یہی آپ کو مائل عشق کرے تو پھر ایک نیا تجربہ سامنے آتا ہے۔ بڑھاپے کا عشق، مالی اور دنیاوی مفادات اور مصلحتوں سے مکمل طور پر پیوستہ ہوتا ہے ۔ آپ کو اپنے گرد عزت و احترام کی دیوار کھڑی کرنی پڑتی ہے۔ عشق اول یعنی جوانی کا عشق اور عشق آخر یعنی بڑھاپے کا عشق یکسر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ عشق کے تمام جذبے جو جوانی میں انتہائی زندگی بخش اور ہر چیز سے ارفع و اعلٰی لگتے ہیں، بڑھاپے میں خوف و خدشات اور مصلحتوں سے لبریز دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دو فریقین کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔

اب اس وبال کے ساتھ اس شخص کی بچپن کی مایوسیاں، محرومیاں اور ذلتیں بھی سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ بڑھاپا اگر متمول بھی ہو تو بچپن کی ناداریاں اسکو گہنا دیتی ہیں۔ بڑھاپے میں میسر آنے والی آسائشوں کو بچپن کی ہر مشکل آسیب زدہ کر دیتی ہے۔ بڑھاپا ماضی میں گزری ہوئی ہر غمی کو، حال میں میسر آنے والی ہر خوشی پر ترجیح دیتا ہے۔ اور گزرے ہوئے وقت کی تکلیفیں اسے بڑھاپے میں دستیاب راحتوں سے لطف اندوز نہیں ہونے دیتیں۔

یہ المیہ ان لوگوں کا ہے جن کا بچپن یتیمی / غریبی میں گزرا ہو ۔ بلاشبہ بچپن کی یتیمی ، جوانی کی غریبی اور بڑھاپے کا عشق۔ خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے۔ مگر وارث شاہ کا کہا بھی حکمت کی اعلٰی بات ہے۔

وارث شاہ میاں گنا چوپ سارا

مزے وکھ نے پوریاں پوریاں دے

افضال احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افضال احمد

افضال احمد گزرے ہوئے کل کے وہ آدمی ہیں جو آج میں زندگی گزارنے کو مجبوری کا لمحہ تصور کرتے ہیں اور آنے والے کل سے خوف زدہ ہیں۔۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کا گزرا ہوا کل بھی کسی آسودگی اور آسائش کا معاملہ نہیں بلکہ رنج اور الم کی واردات ہے۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود وہ کل ان کا اپنا ہے۔۔۔صرف اپنا۔

afzaal-ahmad has 4 posts and counting.See all posts by afzaal-ahmad