لڑکیوں کو بھی لڑکے اچھے لگتے ہیں


دیکھو پتھر کا بھی ایک دل ہوتا ہے۔ اس دل تک روشنی پہنچانے کے لیے جوہری اس کی کٹائی کرتا ہے۔ یہی روشنی پتھر کو چمک دیتی ہے اسے ہیرا زمرد نیلم بناتی ہے۔ اس کی ایک قیمت لگتی ہے۔ یہ چمک سب کو دکھائی دیتی ہے یہی چمک سب شوقینوں کو مجبور کرتی ہے کہ اس ہیرے کی بڑھ چڑھ کر قیمت لگائیں۔

بہت ہی کم کوئی جوہری بھی یہ جانتا ہے کہ اندھیرے کا کیا استعمال ہے۔ چمک دمک اپنی قیمت خود لگواتی ہے۔ اندھیرے بیچنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے۔ قیمتی پتھروں کا سبق پڑھتے بہت پہلے یہ جان لیا تھا کہ اندھیرا اگر دلوں میں ہو تو ایسے دل پھر دوسروں کے ہاتھ بک جایا کرتے ہیں۔

مائک معلوم معنوں میں ایک ہٹ مین تھا۔ اس کا فن یہ تھا کہ وہ کاروبار تباہ کرنے کا ماسٹر تھا۔ اس کی ہلائی ہوئی پاکستان کی قیمتی پتھروں کی مارکیٹ آج تک سنبھل نہیں سکی۔ افغان جہاد کے عروج پر پشاور آ کر وہ بیٹھ گیا تھا۔ یہ کہانی پھر کبھی۔

مائیک فرم کا مالک تھا اس نے جانے کیا دیکھ کر مجھے فرنٹ آفس سے اپنے ساتھ شفٹ کر لیا تھا۔ سارا دن وہ مجھے جوہری پن سکھاتا رہتا۔ گریڈنگ کیسے کرنی قیمت کیسے لگانی۔ گاہک کا رویہ کیسے بنتا ہے، مختلف ملکوں کے گاہک فرق کیسے ہوتے ہیں۔ وہ پیسے خرچتے وقت کیا دیکھتے ہیں۔ ان سے کیا کہنا ہے۔ قیمت کی بات کرتے وہ انسانوں کی قیمت لگانے تک آ جاتا تھا۔

جب مجھ سے گریڈنگ کرواتا تو اکثر مجھے کہتا دیکھو خدا نے تمھیں موقع دیا ہے ایک چھوٹا سا بھگوان بننے کا۔ تم اب اس پتھر کی قیمت کا فیصلہ کرو گے۔ اس کی قسمت تمھارے ہاتھ ہے یہ کس شکل میں کٹے گا۔ اس کی گریڈنگ کیا ہو گی اس کی قیمت کیا رکھنی سب کچھ تمھارے ہاتھ میں ہے۔ کیسا لگتا ہے وسی یہ اختیار۔ وسی تمھیں پتہ طاقت موجود ہونا اور یہ جاننا کہ طاقت موجود ہے دونوں میں بہت فرق ہے۔

مائک بہت کچھ بتاتا تھا لیکن قیمتی پتھروں سے بات شروع ہوتی تو آخر کو حسینوں پر پہنچ کر دم لیتی۔ وہ بتایا کرتا تھا لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں۔ یہ کیسے سوچتی ہیں انہیں کیا اچھا لگتا ہے۔ ان سے کیا نہیں کہتے۔ یہ بھی بتاتا تھا کہ وہ کون سے سائین ہوتے ہیں جب پتہ لگتا کہ کوئی حسن والی سرکار اب مائل بہ کرم ہے۔ آپ کو یہ سب میں نے نہیں بتانا کہ آخر اس کی بھی اک قیمت ہے جو میں نے جاننے کے لیے ادا کی ہے تو کیوں بتاؤں۔

یہ سب جاننے سننے سے پہلے ایک وقت ایسا بھی گزارا تھا جب ہم دوستوں نے صرف اتنی سی بات پر سارا دن اجلاس کیا تھا کہ آج لڑکی نے وعلیکم سلام بولا ہے مشر کو تو اس کا کیا مطلب ہے۔ مشر ہمیں دوڑاتا ہوا روز سویرے ایک لڑکی کے سامنے سے گزرا کرتا تھا جو اسے اچھی لگتی تھی۔ بات کرنے کی ہمت مشر میں تھی نہیں تو ہم بس مناسب رفتار سے بس سٹاپ کے سامنے سے گزرا ہی کرتے تھے۔ مشر نے پورے مہینے بعد جب لڑکی کو خورے برکت شاہ والا ساما لیکوم بولا تو لڑکی نے آگے سے وعلیکم سلام بول دیا تھا۔

ہمارا سارا دستہ تتر بتر ہو گیا تھا۔ ردھم ٹوٹ گیا تھا گردن ڈال کر ہم حیران پریشان ہکے بکے چلنے لگے تھے کہ یہ کیا ہوا۔ کھڑپینچ نے فوری بیان بھی بیس منٹ بعد دیا تھا کہ لڑکی ٹھیک نہیں کیونکہ اس نے وعلیکم سلام بول دیا ہے۔ گولی نے جہادی افغانی ہونے پر فوری معاملہ سنبھالا تھا یہ بول کر کہ وعلیکم سلام کا تو ثواب ہوتا ہے۔ شرعی رائے جان کر مشر نے ایک چانٹا دستی کھڑپینچ کے جڑ دیا تھا۔

کھڑپینچ اگلے دن میڈم سے بھی پٹ گیا تھا۔ میڈم کو تشویش ہو رہی تھی کہ کھڑپینچ کی گال پر نشان کس چیز کا ہے۔ کھڑپینچ نے بتا دیا تھا کہ وعلیکم سلام کا نشان ہے۔ میڈم کو جب سمجھ نہ آئی تو انہیں پورا قصہ سنانا پڑا۔ میڈم نے بڑے سٹائل سے میز پر بیٹھ کر کہا تھا او گدھو لڑکیوں کو بھی تو لڑکے اچھے لگتے ہیں۔

کھڑپینچ پھر بول پڑا تھا ”میڈم دروغ مہ وایا“ میڈم جھوٹ مت بولو ”اوخرا قسم چہ ستا خزہ بہ طلاق شی“ یعنی کھاؤ قسم کے تمھاری بیگم کو طلاق ہو جائے اگر یہ جھوٹ ہو۔ میڈم بہت ہنسی تھیں لیکن کھڑپینچ کے دو چار لگا دیں تھیں انہوں نے۔ کھڑپینچ بس ایسا ہی تھا ہم اس کے دوست بھی ایسے ہی تھے اور ہمارا مشر بھی آخر ہمارا ہی مشر تھا۔

اب مائک نے تازہ خانوں کے ایسے گینگ کے ہونہار رکن کو حسینوں سے برتاؤ سکھا بھی دیا تھا تو اس کے کس کام کا تھا۔

بات حسن کی آئے اور جلن کا ذکر نہ ہو کیسے ممکن ہے۔ ایسا ہوا کہ ایک بار میڈم ہی تھیں آپ میڈم ہی سمجھیں نیا قصہ نہیں سنا سکتا۔ ان کے ہاں تقریب تھی حسینوں کی بہار تھی۔ میں انتظامات میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ کچھ حسین لوگ منہ بنا رہے تھے کہ دیکھو اس میڈم کو جوان لڑکے کو ساتھ لے کر آئی ہے۔ میڈم نے سن لیا تھا شاید جب کھانے کا وقت آیا تو میڈم پلیٹ لے کر آ گئیں۔ ہم دونوں نے ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھایا۔ ان کے خاوند نے پھر پوچھا تھا کہ وسی کو کس مصیبت میں ڈالا ہوا اور کسے جلا رہی ہو۔ میڈم نے بتایا تھا کہ جلنے والوں کو ہی مزید جلا رہی ہوں۔ تب سمجھ نہیں آیا تھا اب جان گیا ہوں۔

ہم انسانوں کے بھی عجیب مسئلے ہیں۔ ہم اکثر تب باتیں سمجھتے ہیں جب ان کا جان لینا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ جب موقع ہوتا تو ہمیں پتہ نہیں ہوتا جب دلچسپی نہیں رہتی تو سب پتہ آپ ہی آپ لگ جاتا۔

زیادہ سیریس نہ ہوں۔ عدنان کاکڑ، ظفر عمران، حسنین جمال وغیرہ سب نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ یہ سارے وسی بابے کے فارم ہاؤس سے جلتے ہیں۔ اس کے فارم ہاؤس سے بھی، اس کی خیبر ایجنسی سے بھی، اس کے پنڈ سے بھی اور اس کے مشر سے بھی۔

ہزار بار بتایا ہے کہ بھئی مجھے گاں پسند ہے۔ ساہیوال نسل کی لال رنگ کی گائے۔ یہ کہتے ہیں کہ اسے بھینس پسند ہے۔ ان کی باتوں سے جل کر اک دوست کے پوچھنے پر اسے کہہ بیٹھا ہوں کہ وہ مجھے گاں جیسی لگتی ہے۔

اس بات کو اس نے تعریف ہی سمجھاتھا کہ مجھے جانتی ہے۔ خرابی اس بیان سے ہوئی جو بعد از بیان دیا ہے۔ اس نے پوچھا تھا کہ تمھیں آخر گاں اتنی پسند کیوں ہے۔ تو اسے کہا کہ گاں اپنے بچھڑے کے ساتھ لوگوں کے بچے بھی پال لیتی ہے۔

وہ اب غلط مطلب لے گئی ہے۔ اللہ وارث ہے۔ یہ پڑھے گی تو میرے ان یاروں کا ہی نشانہ لگائے گی انشا اللہ تعالی۔ آپ سے بس اتنا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو بھی لڑکے اچھے لگتے ہیں تو ذرا بن ٹھن کے رہا کریں اچھی اچھی باتیں کیا کریں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi