پانامہ کیس کا فیصلہ: قانون کے ایک طالب علم کی نظر سے


سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ایک طویل اور پرمشقت سماعت کے بعد پانامہ کیس کا فیصلہ سنا چکی ہے۔ اس ’’تاریخی‘‘ فیصلے پر میں اپنی رائے دینا چاہتا ہوں۔ قارئین کے مد نظر یہ بات رہنی چاہیے کہ یہ میرا دیانتدرانہ فہم ہے۔ میری نیت ججز اور عدالت عظمی پر بے جا الزامات لگانے کی نہیں۔
مجھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پہلے حصے سے اتفاق ہے جس میں نیب کو وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کا کہا گیا ہے۔ شروع دن سے میرا قانونی فہم یہی کہتا تھا کہ سپریم آرٹیکل اک سو چوراسی (تین) کے تحت کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس عدم ادائیگی کے معاملات کا فیصلہ خود نہیں کر سکتی۔ انصاف کا کوئی شارٹ کٹ میسر نہیں اور بغیر ٹرائل کیے ان امور پر حتمی فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔
مجھے فیصلے کے دوسرے حصے پر کچھ تحفظات ہیں جو نیب کے ایک پراسکیوٹر کے بیان حلفی سے متعلق ہے جس میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کو کھولنے کے لئے اپیل فائل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ تاہم میں اس پر اپنی تفصیلی رائے ایک الگ مضمون میں لکھوں گا۔
قانون کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میرے لئے سابق وزیر اعظم کی نااہلی سے متعلق حصے سے اتفاق شدید مشکل ہے۔ میرے لئے انتہائی حیران کن ہے کہ قانون کی تشریح سے متعلق ایک امر میں موجود ابہام اور قانون کی خاموشی کا فائدہ ملزم کو نہیں دیا گیا بلکہ سپریم کورٹ نے اس ابہام اور قانون کی خاموشی کی تشریح ملزم کے خلاف کرتے ہوئے ایک اخذ شدہ مفروضے کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ مزید حیرت کا مقام ہے کہ ایسا کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم یا ان کے وکیل سے اس اخذ شدہ مفروضے، اس کا سبب بننے والے واقعات اور اس پر نافذ کی جانے والی قانونی تشریح کی وضاحت تک نہیں مانگی گئی۔ صاف نظر آتا ہے کہ نااہلی کی حد تک وزیر اعظم کے متعلق قانون و انصاف کے اس آفاقی اصول کے خلاف فیصلہ دیا گیا جو کہتا ہے کہ کسی بھی شخس کو اس کا موقف سنے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو 2013 انتخابات میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں اس تنخواہ کو اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا جو تنخواہ وزیر اعظم نے وصول نہیں کی تاہم وہ کمپنی کے چئیرمین کی حیثیت سے وصول کر سکتے تھے۔ عدالت نے اس وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو ’’ نہ لی جانے والی قابل وصول تنخواہ‘‘ کہا۔ عدالت کا استدلال یہ تھا کہ متعلقہ قانون ’’عوامی نمایندگی ایکٹ 1976‘‘ میں لفظ ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف میسر نہیں لہذا بلیک لا ڈکشنری میں دی گئی لفظ ’’اثاثہ‘‘ کی عمومی تعریف پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ بلیک لا ڈکشنری کے مطابق لفظ ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف میں وہ مالی مفادات یا دعوی جات بھی شامل ہیں جو قانونا نافذ کیے جا سکتے ہوں جیسسے قابل وصول اکاونٹس۔ اس کے بعد عدالت نے اصطلاح ’’قابل وصول‘‘ کا لغوی معنی ڈکشنری کی مدد سے لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کہ بے شک وزیر اعظم نے تنخواہ وصول نہ کی ہو تاہم چونکہ وہ تنخواہ وصول کر سکتے تھے لہذا وہ ’’قابل وصول تنخواہ‘‘ قرار پائی۔ چونکہ بلیک لا ڈکشنری کے مطابق ’’قابل وصول مفادات یا دعوی جات‘‘، ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف میں شامل ہیں لہذا وہ تنخواہ وزیر اعظم کا اثاثہ تھی۔ وزیر اعظم کے لئے لازم تھا کہ اس اثاثہ کو ظاہر کرتے لہذا ایسا نہ کیے جانے کی بنا پر وہ الیکشن کمیشن میں غلط بیان حلفی جمع کرائے جانے کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔ اسی بنیاد پر وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 62 کی روشنی میں صادق اور امین نہیں رہے۔
یہ بہت دلچسپ امر ہے کہ عدالت نے وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث کے جمع کرائے گئے جواب کا وہ حصہ اپنے فیصلے میں نقل کیا جس میں کہا گیا تھا اقامہ اور کمپنی کی چئیرمین شپ وزیر اعظم نے ظاہر کر رکھی تھی۔ نیز یہ کہ چئیرمین شپ ایک نمائشی عہدہ تھا اور وزیر اعظم کا کمپنی کے معاملات یا کاروبار سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے انہوں نے کمپنی سے کوئی تنخواہ لی۔ تاہم عدالت نے اس حصے کو نقل کرنے کے باوجود وزیر اعظم کے اس موقف کا ابطال نہیں کیا بلکہ ان حقائق کو قبول کر لیا۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے یہ مفروضہ اخذ کر لیا کہ وزیر اعظم تنخواہ لینے کے حقدار تھے۔ اگر سپریم کورٹ تھوڑی سی مشقت مزید کر لیتی اور ’’اثاثہ‘‘ کے لغوی معنی کی طرح ڈکشنری میں ’’تنخواہ‘‘ کا لغوی معنی بھی دیکھ لیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ قانون معاہدہ کا ایک بنیاد اصول ہے کہ کہ ملازمت کے ایک معاہدے کے تحت کوئی بھی شخص تنخواہ کا حقدار تب تک نہیں ہوتا جب تک وہ بدلے میں کچھ خدمات فراہم نہ کرے یا کچھ کام سرانجام نہ دے۔ وزیر اعظم کے موقف (جسے سپریم کورٹ نے غلط قرار نہیں دیا) کو مان لیا جائے تو وزیر اعظم تنخواہ کے حقدار ہی نہ تھے کیونکہ انہوں نے کمپنی کے لئے کوئی کام کیا نہ ہی کوئی خدمات سرانجام دیں۔ حتی کہ اگر کوئی معاہدہ وزیر اعظم کو بغیر خدمات سرانجام دئے ایک لگی بندھی تنخواہ کا وعدہ کرتا ہے تو وہ معاہدہ ہی سرے سے باطل اور قانون کی نگاہ میں ناقابل نفاذ تصور ہوگا۔
گویا اصل سوال یہ تھا کہ کیا ایک شخص تنخواہ کا حقدار تب بھی ہوتا ہے جب تک وہ بدلے میں کوئی کام نہ کرے یا کوئی خدمات فراہم نہ کرے۔ دوسرے الفاظ میں کیا ایک شخص کا کوئی کام کیے یا خدمات سرانجام دیے بغیر تنخواہ کا حقدار ہونے کا دعوی قانون کی نظر میں قابل نفاذ ہے؟ یہ ایک خالص قانونی سوال ہے اسلئے اس قانونی سوال کو کسی مستند قانونی ذریعہ کی بنیاد پر ہی حل ہونا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے اس بنیادی سوال پر غور ہی نہیں کیا۔
سپریم کورٹ اسی بلیک لا ڈکشنری میں ’’تنخواہ‘‘ کی تعریف دیکھتی تو اسے معلوم ہوجاتا کہ ’’تنخواہ‘‘ کی تین تعریفات دی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
ایک شخص کو دوسرے شخص کی جانب سے دیا جانے والا معاوضہ اس بنیاد پر کہ پہلا شخص دوسرے کے کاروبار میں اپنی محنت اور مشقت لگاتا ہے۔
ایک طے شدہ مرحلہ وار معاوضہ جو خدمات فراہم کیے جانے پر ادا کیا جائے۔
ایک طے شدہ ماہانہ، سالانہ یا کوئی اور مرحلہ وار معاوضہ جو پبلک آفس ہولڈرز یا نجی ملازمت کرنے والے افراد کو سرکاری ڈیوٹی سرانجام دینے یا خدمات فراہم کیے جانے پر ادا ہوتا ہو۔
اس تعریف کی روشنی میں جب خدمات فراہم نہ کی جائیں تو تنخواہ کا حق ثابت نہیں ہوتا۔ گویا ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف میں قابل نفاذ مالی مفادات شامل کر بھی لیے جائیں تو بغیر خدمات تنخواہ کا دعوی قانونا قابل نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے ’’اثاثہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میرے قانونی فہم میں وزیر اعظم کی نااہلی کی حد تک عدالتی نظر ثانی کے لئے یہ ایک بہترین اور مکمل معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).