اوپر, نیچے, درمیان ۔۔۔ کچھ انصاف کے بارے میں


گزشتہ 48 گھنٹوں سے ملک میں کوئی حکومت نہیں۔ رائے عامہ منقسم ہے۔ ماضی کے برعکس، رائے عامہ دو دھڑوں میں نہیں بلکہ ان گنت حد بندیوں اور طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ دو فریق تو واضح ہیں۔ ایک فریق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دے رہا ہے تو دوسرا فریق عدالت کی رائے پر شدید تحفظات رکھتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کئے بنا چارہ نہیں اور یہ فریق اس فیصلے سے مطمئن نہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے اندرون ملک کسی ادارے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اس معاملے کو ایک بین الاقوامی سازش قرار دیا ہے۔ ملک کے اندر ایک قابل ذکر حصہ پیپلز پارٹی کے ان حامیوں کا بھی ہے جو اس فیصلے کے قانونی اور سیاسی مضمرات سے آگاہ ہیں لیکن اسے مکافات عمل کا نام دے کر اپنی انتقامی جبلت کی تسکین چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہبی انتہا پسندوں اور طالبان کے حامیوں کی بھی کمی نہیں جو پاکستان میں آئینی بندوبست کو لگنے والے ہر دھچکے پر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں کہ اس باطل نظام کی ایک اینٹ اور گری۔

یہ سوچ 1917ء میں موسم سرما میں بالشیوک موقف جیسی ہے۔ روس کے کمیونسٹ زار کے زیر نگیں روس کی ہر شکست کو انقلاب کی طرف ایک قدم سمجھتے تھے۔ اکتوبر 1917 میں  بالشیوک خود اقتدار میں آئے تو انہیں چند ہفتوں میں معلوم ہو گیا کہ عالمی جنگ سرمایہ دار اور محنت کش کی نصابی اصطلاحات میں نہیں لڑی جاتی۔

پاکستان میں مذہب پسند ذہن صرف طالبان کے حامیوں تک ہی محدود نہیں۔ یہاں ایسے مذہب پسند بھی پائے جاتے ہیں جو طالبان کی مذہبی تشریح سے اتفاق تو نہیں کرتے لیکن قومی ریاست، دستوری تحدیدات اور جدید معاشرت کے وہ بھی مخالف ہیں۔ صرف ڈیڑھ برس پہلے یہ لوگ اسی عدالت کے ایک فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی چوک تک جا پہنچے تھے۔ اور اب چاہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے سے اختلاف کا آئینی اور قانونی حق بھی استعمال نہ کیا جائے۔ انصاف کے آئینے میں صرف ایک بال نہیں آیا، ہماری صورت ہزار چہروں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اںصاف پر ازسر نو غور و فکر کی ضرورت ہے۔

سعد رفیق کی “بین الاقوامی سازش” کو سمجھنا آسان ہے۔ 1986ء میں وطن واپس لوٹنے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے میں امریکا کا کوئی ہاتھ نہیں۔ شاید ان کی بات غلط نہیں تھی لیکن اندرون ملک آٹھ برس سے پیپلز پارٹی کے کارکن  امریکا کو بھٹو صاحب کا قاتل ٹھہراتے آئے تھے۔ ان میں استاد محترم منو بھائی بھی شامل تھے۔  منو بھائی نے بھنا کر ایک کالم لکھا “عدالت قانون کی پابند تھی۔ جرنیلوں کا عدالت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ضیاالحق عدالت کے حکم کا پابند تھا۔ امریکا کا اس معاملے میں ہاتھ نہیں تھا۔ تارا مسیح کو البتہ اختیار تھا کہ اگر چاہتا تو بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دیتا”۔

بات یہ ہے کہ 1979 میں پیپلز پارٹی بھٹو کے حقیقی قاتلوں کا نام لینے سے اسی طرح معذور تھی جس طرح آج مسلم لیگ (نواز) اندرون ملک موجود سازش کے آلہ کار عناصر کی نشاہندہی سے قاصر ہے۔ جو لوگ سازش تیار کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی قوت رکھتے ہیں، ان کا نام لینا مشکل ہوتا ہے۔ عدالت ان ناموں کو حساس قرار دے کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ سیاست دان معلوم حقائق بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ صحافی کو یاد رہتا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں کتنے قلم کار اچانک غائب ہو ئے اور پھر نمودار ہوئے۔ جن پریوں کی کہانی بچوں کو سنائی جاتی ہے اور بچے اس میں یقین رکھتے ہیں۔

اس معاملے پر ایک اور زاویے سے نظر ڈالتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اس ملک کے وزرائے اعظم رہے۔ اگر انہیں عدلیہ سے ناانصافی کی شکایت پیدا ہوتی رہی تو ایک سوال ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ جڑانوالہ کی ماتحت عدالت سے کسی اقلیتی شہری کو کیسے انصاف مل سکے گا جب کہ عدالت کی غلام گردشوں میں کف در دہان مشتعل ہجوم کا قبضہ ہو اور اس ہجوم کو انگیخت کرنے والے تقدیس کا جامہ پہنے موجود ہوں۔ سوال کرنا چاہیے کہ آوارہ گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والا غریب نوجوان ایک تھانے دار سے کیسے انصاف حاصل کر سکے گا۔ پانچ مردوں کی پنچایت سے سترہ برس کی ایک لڑکی ان معاملات پر کیسے انصاف حاصل کر سکتی ہے جن پر پورے ملک میں ریاستی اور معاشرتی سطح پر اتفاق رائے ہی نہیں؟ مسلم لیگ (نواز) کے کارکنوں کے لئے افسردہ ہونے اور پیپلز پارٹی کے حامی احباب کے لئے خوش ہونے کی بجائے آسیہ بی بی، مختاراں مائی اور پروفیسر دشتیاری کے لئے انصاف کی ضمانت پر غور و فکر کا مقام ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے ویت نام کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کہیں پر ناانصافی ہو رہی ہے تو گویا کہیں بھی ناانصافی ہو سکتی ہے۔

Injustice anywhere is injustice everywhere.

اگر ذوالفقار علی بھٹو کو مولوی مشتاق حسین سے بچانا مقصود ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ہتھکڑی لگا کر اٹک قلعے میں نہ لے جایا جائے تو ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ کسی بچے پر گھر میں یا سکول میں تشدد نہیں کیا جائے گا۔

اگر ہم پارلیمنٹ میں بے نظیر بھٹو یا شیریں مزاری پر نازیبا ریمارکس ناپسند کرتے ہیں تو ہمیں ملک کے ہر بس سٹاپ پر راہ چلتی بچیوں کو غیر ذمہ دار آوازوں اور نظروں سے محفوظ رکھنا ہو گا۔

اگر ہمیں آرٹیکل 62- 63 کی بنیاد پر اپنے ہر دلعزیز رہنما کی نااہلی پسند نہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم 62-63 کو “اسلامی شقیں” قرار دینے والوں کی ہاں میں ہاں کیوں ملاتے ہیں۔

پاکستان کے دستور میں 280 شقیں شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی شقوں اور بہت سی اصطلاحات کی ایک سے زیادہ تشریحات ممکن ہیں۔ دستور کو ابہام سے پاک کرنا چاہیے۔

عبدالولی خان نے حیدر آباد ٹربیونل سے مخاطب ہو کر پوچھا تھا کہ ان پر نظریہ پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا گیا ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ نظریہ پاکستان کیا ہے تاکہ وہ عدالت کو اپنی بے گناہی یا مجرم ہونے کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔

یہ صرف آئین کی شقات 62 – 63 کا معاملہ نہیں۔ آئین کی ان شقوں کو بدلنے والے آمر نے 1973 کے آئین میں شامل دیباچے کو آئین کا قابل نفاذ حصہ قرار دے کر دستور کی شق 2 (الف) بنا دیا تھا۔ آمر نے ڈنڈے کے زور پر آئین کی سو کے قریب شقین تبدیل کر ڈالی تھیں۔

ہمیں پوچھنا چاہیے کہ “عظمت اسلام” سے کیا مراد ہے تا کہ ہم شق 19 میں دیا گیا حق اظہار استعمال کرتے ہوئے دستور کی خلاف ورزی نہ کریں۔

ہمیں سوال کرنا چاہیے کہ عقیدہ انفرادی حق ہے یا گروہی؟

ہمیں سوال کرنا چاہیے کہ کیا اہانت مذہب کا قانون دستور کی شق 10 (الف) کے معیار پر پورا اترتا ہے؟

ہمیں سوال کرنا چاہیے کہ اکوڑہ خٹک کے مدرسے، فتح جنگ کے ہائی اسکول اور ایچیسن کالج میں دی جانے والی تعلیم میں کیا قدر مشترک ہے۔ نیز یہ کہ دستور کی شق 25 (الف) میں دی گئی تعلیم کی ضمانت سے ہماری کیا مراد ہے؟

اگر ہم شہریت، عقیدہ، تعلیم، قومی سلامتی، قومی مفاد، نظریہ پاکستان، نظریاتی ریاست اور زمینی حقائق جیسی بنیادی اصطلاحات پر قابل فہم اور واضح موقف اختیار نہیں کرتے تو ناانصافی صرف نواز شریف یا ذوالفقار علی بھٹو سے نہیں ہو گی۔

انصاف کا مطلب ہے، کمزور کو طاقتور کی زور آوری  سے تحفظ دینا۔ طاقتور اور کمزور کی کوئی حتمی تعریف ممکن نہیں۔ یہ ایک اضافی تصور ہے۔ ہر طاقتور سے زیادہ طاقتور بھی کوئی ہوتا ہے۔ اور کمزور سے زیادہ کمزور بھی کوئی ہوتا ہے۔ انصاف طاقتور اور کمزور کی بنیادی اکائی یعنی فرد کے لئے مانگا جاتا ہے۔ یہ مطالبہ ہر انسن کو ہر وقت اور ہر جگہ کرنا چاہیے۔ اس مطالبے میں طبقاتی اور گروہی تقسیم ممکن نہیں۔ انصاف منٹو کا افسانہ نہیں جسے اوپر، نیچے اور درمیان کی حد بندیوں میں تقسیم کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).