عزت مآب عدالت کا فیصلہ اور روپا دیوی


لیجیے! خوشیاں منائیے، ڈھول تاشے بجائیے، لڈی بھنگڑا ڈالئے اور مٹھائی کی لذت سے جسم کو راحت پہنچائیے۔ ویسے بھی ہماری قومی زندگی میں خوشیاں بہت کم ہیں اور اگر خوشی منانے اور مٹھائیاں کھانے کھلانے کا موقع میسر آہی گیا ہے تو ہر گز اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ا اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے اپنا ستر سالہ ریکارڈ برقرار رکھاہے اور آخر کار تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کو بھی پانچ برس کی آئینی مد ت پوری ہونے سے پہلے ہی ایک ایسے خطرناک جرم کی سزا دی جس کا جے آئی ٹی کی رپورٹ سے پہلے کسی کو خواب بھی نہیں آیا تھا۔ ثابت ہو گیا جے آئی ٹی کے ارکان ہی قوم کے حقیقی ہیرو ہیں جنہوں نے ساٹھ دن اور رات کی محنت شاقہ سے دس ہزار درہم کی وہ خفیہ تنخواہ بے نقاب کی جسے وصول نہ کیا جا سکا۔

عزت مآب جج صاحبان کی فراست کی داد دینا بھی پوری قوم پر فرض ہے کہ انہوں نے نواز شریف کی حکومت بحال کرنے والے اپنے پُرکھوں کی روایت کو بدل دیا اور انصاف کا بول بالا کیا۔ کیا ہوا اگر جے آئی ٹی کے ہیرے پانامہ دستاویزات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات میں سے ایک کا بھی واضح جواب تلاش نہیں کر سکے لیکن انہوں نے شریف خاندان کی یرغمال قوم کوآزاد کرانے کے لئے اورمعاملے کی حقیقی روح کا ادراک کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی سے تنخواہ وصول نہ کرنے کا جرم تلاش کرلیا تاکہ مجرم کسی طور بچ نہ پائے اور اپنے کرموں کا کیا بھگت کر پاک صاف ہوجائے۔

گو تحریک انصاف، شیخ رشید اور جماعت اسلامی میں سے کسی نے مجھے مٹھائی بھجوانے کی زحمت نہیں کی لیکن میں ان کی خوشی میں برابر کا شریک ہوں کہ آخر کار قربانی سے پہلے قربانی ہو گئی اور اس ملک میں انقلاب کا دروازہ کھل گیا۔ ستر برس سے ملک پر چھائی ظلمت کی تاریک رات چھٹ گئی اور انقلاب کا سویرا طلو ع ہوا ہی چاہتا ہے۔ ایک دو دن میں پاکستان کے طول وعرض میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہو جائیں گی جیسے کہ وکلا تحریک کی کامیابی کے ساتھ ہی ریاست ماں کے جیسی ہوگئی تھی اور آج تقریباً آٹھ برس بعد یہ مہربان ریاست اس قابل ہو گئی ہے کہ نہ صرف اپنے لاڈلے بچوں کو بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر بغیر کسی دقت کے فراہم کر رہی ہے بلکہ ہر صبح ان کو سونے کے نوالے کا ناشتہ میسر ہوتا ہے اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ ایک شریف فیملی ہی تھی جو اس جنت کے حسن کو جونک کی طرح چمٹ گئی تھی، ہر حربہ آزما لیا گیا لیکن نہ اس خاندان کو چین نصیب تھا اور نہ ہی اس ملک کے جاہل عوام کو یہ عقل آرہی تھی کہ اس ملک کے حکمران کیسے ہونے چاہئیں۔

صد شکر کہ آج یہ داغ بھی دھل چکا ہے، اب اس ملک کے تمام اداروں میں مرد مومن مرد حق کے اسلامی آئین کی شق باسٹھ تریسٹھ پر پورے اترنے والے فرشتے تعینات ہوں گے اورہر طرف آفاقی قوانین کا بول بالا ہوگا۔ ملک کے ہر شہری کے مسائل سر اٹھانے سے پہلے ہی حل کر دیے جائیں گے، صاف پانی ہر گھر میں چوبیس گھنٹے میسر ہوگا، ہسپتالوں میں چوبیس گھنٹے فرض شناس ڈاکٹر مریضوں کی مسیحائی کے لئے حاضر باش ہوں گے اور وطن عزیز کا ہر بچہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیار کی تعلیم مفت حاصل کر سکے گا۔ اب کسی کو جرنیلوں کا پیشاب نکالنے کے لئے تیس ہزار بندے گھروں سے نکالنے کا کشٹ بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

اب چونکہ میاں نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کردیا گیا ہے تو ان کو درپیش مشکلات کے دوران ملک میں ہونے والے دھماکے بھی رک جائیں گے اور قوم کو رہی سہی دہشتگردی سے بھی چھٹکارہ مل جائے گا۔ قابل فخر ہیں قوم کے وہ سپوت جنہوں نے بیک جنبش قلم ان تمام مشکلات کا حل تلاش کر لیا اوراس سہولت اورآسانی سے یہ کام نبٹا لیا گیا ہے کہ ملک و قوم کو کسی قسم کے بحران یا مشکل سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ میں عاصمہ جہانگیر سمیت ان تمام وکلا کی شدید مذمت کرتا ہوں جو اس فیصلے کو کمزور بنیادوں پر دیا جانے والا فیصلہ قرار دے کر قومی مفاد کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اس فیصلے کو بھٹو کیس کی طرح مستقبل میں نظیر نہیں بنایا جا سکے گا۔ ان کی رائے قومی مفاد کے انتہائی منافی اور عدلیہ کی توہین کے مترادف ہے اور ان کو فی الفور اس کی سزا ملنی چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی وکیل پاکستانی مفادات سے کھیلنے کی جرات نہ کر سکے۔

ان وکیلوں کے لائسنس تو فوری طور پر منسوخ کر کے انہیں نظربند کر دیا جانا چاہیے جو آئین کی شق باسٹھ تریسٹھ کے تحت نا اہلی کی مدت کو تاحیات سے کم قرار دینے کا سوال اٹھاتے ہیں۔ ویسے بھی اب نواز شریف کے خادم حرمین شریفین اور دوسرے عرب ملکوں سے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ ذرا سوچئے جو بندہ مکہ مدینہ کے نیکوکار حکمرانوں سے بنا کر نہ رکھ سکا وہ مودی سے مسئلہ کشمیر اور اشرف غنی یا ٹرمپ سے افغانستان کے معاملات کیسے طے کرے گا۔ نواز شریف کا ایک اور بڑا جرم یمن کے معاملے پر مکے مدینے کے حکمرانوں کا ساتھ نہ دینا ہے اور یہ شاید کبھی معاف بھی نہیں کیا جاسکے گا۔ کالم کی طوالت کے ڈر سے میں نواز شریف کے مزید جرم گنوانے کی بجائے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ان نکات کو سمجھنا چاہتا ہوں جو میری بدھی میں نہیں سما سکے، ہو سکے تو میری رہنمائی کیجئے۔

عزت مآب ججز نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ ایک غیر جانبدار اور شفاف ٹرائل کے نتیجے میں اگر ان پر کوئی جرم ثابت ہوجاتا ہے تو اس ملک کے عوام عدالت کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کریں گے۔ لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کارروائی پر سپریم کورٹ کے ایک معززجج کی فیلڈنگ فیئر ٹرائل کے کس اصول کے مطابق ہے، نہ تو قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مثال ہے کیونکہ ان حالات میں ماتحت عدلیہ کے جج آزادی سے فیصلہ نہیں سنا سکیں گے۔

معزز عدالت نے اپنے کاغذات نامزدگی میں ایک کمپنی ’’کیپٹل ایف زیڈ ای ‘‘ کے چیئرمین ہونے اور اس کی تنخواہ کو ظاہر نہ کرنے پر وزیراعظم کو ’’روپا ایکٹ‘‘ کے تحت نا اہل قرار دیا ہے۔ یہ روپا ایکٹ بھی بھارتی فلموں کی روپا دیوی کی طرح صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی شاندار مثال ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ ’’روپا ایکٹ ‘‘ اثاثوں کی کوئی واضح تعریف نہیں کرتا۔ یہاں پر معاملہ تنخواہ کا ہے، دنیا بھر میں تنخواہ دار طبقے کو اس کی اجرت انکم ٹیکس کاٹ کر ادا کی جاتی ہے۔ لیکن عدالت نے میاں نواز شریف کے معاملے میں اٹارنی جنرل یاکسی انکم ٹیکس وکیل سے مشاورت کرنے کی بجائے ’’بلیک لا ڈکشنری ‘‘ کھول لی۔ قارئین کی سہولت کے لئے عرض کردوں کہ ’’بلیک لا ڈکشنری ‘‘ قانونی اصطلاحات کی تعریف پر مشتمل ہے۔ مطلب یہ ایک ایسا معمہ تھا کہ نواز شریف کے وکیلوں کے ساتھ ساتھ دہائیوں تک قانون کی پریکٹس کرکے معزز عدالت میں جج کے منصب پر فائز ہونے والے بھی اس سے بے خبر تھے۔

کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا کامرس کے کسی یونیورسٹی طالب علم سے پوچھ لیجیے کہ کاروبار کی زبان میں RECEIVABLE کی تعریف کیا ہے اور کیا تنخواہ اس RECEIVABLE کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔ وہ آپ کو واضح طور پر بتائے گا کہ تجارت یا کاروبار کی دنیا میں RECEIVABLE ایک ایسی رقم ہے جو ایک کمپنی نے کسی دوسری کمپنی سے وصول کرنی ہو چاہے وہ کسی مال کے عوض ہو یا خدمات کے عوض لیکن ایک فرد کی ذاتی تنخواہ اس زمرے میں ہر گز نہیں آتی۔ دوسرا اگر جج صاحبان بھی RECEIVABLE کی تعریف سے لاعلم تھے تو میاں نواز شریف جو اپنے قانونی معاملات میں وکیلوں کے محتاج ہیں وہ کیسے اس سے باخبر ہو سکتے تھے۔ اور دنیا بھر میں ایک پڑھا لکھا اصول ہے کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ اب تاریخ کرے گی کہ اس معاملے میں ایسا کرنے کی بجائے ملزم کو نا اہلی (تاحیات ہے یا مخصوص مدت کے لئے اس کا بھی فیصلہ ہونا باقی ہے )کی انتہائی سزا دینا قرین انصاف ہے یا نہیں۔ ایک لمحے کے لئے مان لیجیے کہ میاں نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے تو پھر جمشید دستی سمیت ان ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں کیاخیال ہے جو الیکشن کمیشن میں جعلی ڈگریاں جمع کروانے پر عدالتوں سے ’’جھوٹے‘‘(نا اہل) قرار پائے لیکن آج بھی ایوانوں میں موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).