عمران خان۔۔۔ خود فریبی سی خود فریبی ہے


ایک دفعہ ایک شہری بابو کسی گاؤں میں گئے۔ انھوں نے وہاں کے ایک باسی سے پوچھا: ’کیا آپ کے گاوٗں میں کبھی کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے؟‘ گاوٗں کے باسی نے انھیں حیرت سے سر سے پاوٗں تک دیکھا اور سادگی سے کہا: ’نہیں جی! یہاں تو صرف بچے ہی پیدا ہوتے ہیں۔‘ سوال اور جواب دونوں اپنی اپنی جگہ درست لیکن جواب میں ایک بات پوشیدہ ہے۔ پیدا سب بچے ہی ہوتے ہیں، جو بڑے بنتے ہیں وہ بتدریج بڑے بنتے ہیں۔ لیکن یہاں لوگ پیدا کئے گئے۔ اور ہم تیار کردہ بڑے آدمیوں سے امیدیں لگائے معجزوں کے منتظر رہے۔

کنفیوشس نے کہا تھا کہ’اگر مستقبل کو جاننا ہے تو ماضی کا مطالعہ کرو۔‘ عدنان میندرس ترکی کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم بنے۔ 1950 میں ان کی پارٹی 50 فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھی۔ 27 مئی 1960 کو ترک فوج کے 38 نوجوان افسروں نے میندرس کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کے دس سالہ جمہوری دورِکا خاتمہ کر دیا۔ میندرس اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے ان پر ایک عسکری عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ ابتدائی طور پر میندرس اوران کے ساتھیوں پر بغاوت، ترکی میں رہنے والے یونانیوں کا قتل، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات تھے۔

سماعت کے دوران الزامات کی نوعیت بدلتی رہی، نئے مقدمات کھلتے رہے اور قوانین بدلتے رہے۔ مثال کے طور پر ترک قانون میں تبدیلی کی گئی کہ 65 سال سے زائد عمر کے قیدیوں کو بھی سزائے موت دی جا سکے گی۔ کچھ سیانے اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ میندرس کے دو ساتھی 65 سال سے زیادہ عمر کے تھے۔ دوسرے الفاظ میں انھیں ہر حال میں انصاف فراہم کرنا تھا۔ الزامات کی جو نوعیت بدلی تو یہاں تک کہ ترک عسکری عدالت میندرس کے بیڈروم تک میں گھس آئی اوران کی ایک سابقہ محبوبہ سے پیدا ہوئے بچے کی موت کو قتل قرار دے کر اس کا الزام میندرس پر لگا دیا گیا۔ بچے کی ماں میندرس کو اس الزام سے بری الزمہ قرار دیتی رہی لیکن ترک عسکری عدالت انصاف فراہم کرنے کی ٹھان چکی تھی چنانچہ ’جی کا جانا ٹھہر گیا‘ تھا۔ جیسے تیسے ترک عسکری عدالت نے یقینی بنایا کہ میندرس کو ’دار کی خشک ٹہنی پہ وار‘ دیا جائے۔ یہ الگ بات کہ آج ترک عوام میندرس اور ان کے ساتھیوں کو شہیدانِ جمہوریت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی تفصیلات تو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اورسب کو یاد بھی ہوں گی۔ جب بھٹو صاحب کو پھانسی سنائی گئی تواٗس عدالتی فیصلے کی تعریف کرنے والے بھی کچھ کم لوگ نہ تھے۔ یہاں تک کہ اس وقت کے چند معتبر اخبارات نے توصیفی اداریے بھی لکھ دیئے۔ لیکن معاملہ یوں ہوا کہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی بھی عدالتی کارروائی میں حوالے کا رتبہ نہ پا سکا۔

13 جولائی کو حامد میر نے اپنے کالم ’کون سے قرض اتارے ہیں؟‘ میں لکھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1996 میں اپنی حکومت کی برطرفی سے کچھ دن پہلے کی گئی ایک ملاقات میں ان سے کہا تھا کہ ’مجھے حکومت سے نکال کر نواز شریف وزیرِاعظم بن بھی گئے تو کبھی چین کی نیند نہیں سوئیں گے اور یاد رکھنا ایک دن مجھے اور میرے والد کو یاد کر کے روئیں گے۔‘ قابلِ افسوس کہ ایسے کئی دن میاں صاحب کی سیاسی زندگی میں آئے اورایسا ہی ایک کڑا دن 28 جولائی بھی تھا۔ مگر یہ میاں صاحب کی ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی بد قسمتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ماضی کو سیاسی و تاریخی شعور کے ساتھ سمجھ کر نہ حال کا تجزیہ کر سکے اورنہ مستقبل کا کوئی واضح نقشہ کھینچ سکے۔

اس کی ایک مثال مسلم لیگ (ن) کی وہ حکمتِ عملی تھی جو انھوں نے اس وقت اپنائی جب پیپلز پارٹی کی طرف سے آئینی شقوں 62 اور 63 کے خاتمے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اٗس وقت مسلم لیگ (ن) نے اسے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کو بچانے کے لئے ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہی شقیں میاں صاحب کے گلے کا ہار ہوئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی بات تو سچ ہو گئی لیکن کیا ستم ہوگا کہ اگر آج مٹھائیاں بانٹتے اور انصاف کا بول بالا ہونے پرخوش ہوتے عمران خان کل کو میاں صاحب کو یاد کر کے روئیں اور سعد رفیق کا یہ جملہ سچ ثابت ہو جائے کہ ’خان صاحب بغلیں نہ بجائیں، کل بغلیں جھانکنی پڑیں گی۔‘

صاحب، انصاف اگر بلا تخصیص نہ ہو تو انصاف نہیں رہتا، انتقام بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرتی مزاج میں راسخ ہوا یہ تصور ہی ہر چور راستے کا جواز ہے کہ بھٹی میں سے گزرے بغیر کندن بنا جا سکتا ہے۔ خواہ ایسے چور راستے ہم اپنی ذاتی، پیشہ وارانہ، تعلیمی زندگی کے لئے بنائیں یا سیاسی کامیابیوں کے حصول کے لئے۔ لوگوں کو جھوٹی اور فٹافٹ کی امیدیں دے کر اگر ہم یہ بتائیں کہ ’روم ایک دن میں بن سکتا ہے‘ تو کیا یہ صداقت کے اصولوں کے عین مطابق ہے؟ خان صاحب اپنی آکسفورڈ تعلیم اور انسانی و سیاسی تاریخ کے مطالعے پرنازاں تو اکثر نظر آئے لیکن صد افسوس کہ اس کا کوئی عملی، عقلی یا فکری اظہار کبھی سامنے نہیں آیا۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے وعدے دائروں میں گرفتار رہنے کے سوا کیا ہیں؟ عجلت پسندی کے اس بیانیے نے قوم میں ایک نجات دہندہ کے وسیلے سے ایک اچھا اور نیا پاکستان پانے کے لئے وہ بے صبرا پن پیدا کر دیا ہے کہ باقی صدیقی یاد آتے ہیں۔

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

یہ تحریر اس احساس کے ساتھ لکھی کہ خان صاحب سے کچھ زیادہ کی توقع تو نہیں کر بیٹھا؟ امید ہے کہ وہ کچھ ہی عرصے میں وہ سب دیکھ (اور شاید سمجھ بھی) پائیں گے جو میاں صاحب نے دہائیوں میں دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).